غصہ کمہار پر …

نصرت جاوید  بدھ 25 جون 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اس دیہاتی والا کئی بار دہرایا ہوا وہ لطیفہ آپ نے بھی بارہا سنا ہو گا جو میلہ دیکھنے گیا اور اپنا رومال گنوا بیٹھا اور اپنے اس نقصان کے بعد سنجیدگی سے یہ طے کر دیا کہ شہر والوں کا رچایا ہوا میلہ دراصل اس کا رومال چرانے کی ایک گھنائونی سازش تھی۔

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب بالآخر 23 جون کی صبح پاکستان تشریف لے آئے۔ مقصد اپنی آمد کا انھوں نے اس ملک میں انقلاب برپا کرنا ٹھہرایا۔ انقلاب لانے کی کوشش میں کئی برس اپنی جوانی کے میں نے بھی ضایع کیے ہیں۔ میں تو کسی نہ کسی طرح اپنی اوقات پہچان کر ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آ گیا۔ مگر سیکڑوں نہیں ہزاروں ہیں جو صدیوں سے انقلاب کے نام پر تاریک راہوں میں مرتے چلے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے ہاں شہرِ لاہور میں پنجاب کی گڈ گورننس کی بدولت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ہی کے دس متوالوں نے اپنی جانیں ان کے انقلاب کی نذر کر دیں۔ ہمیں ان بے چاروں کے نام تک بھی معلوم نہیں۔

انسانی جانوں کا ضیاع کوئی مذاق نہیں ہوتا۔ مہذب معاشروں میں ان کے اسباب جاننے کے بعد ذمے داروں کی نشاندہی کی جاتی ہے اور انھیں عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے۔ نظر بظاہر لاہور ہائیکورٹ کے ایک نیک نام جج کے ذمے یہی کام لگایا گیا ہے۔ مگر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ان سے تعاون پر آمادہ نہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انقلابی جدوجہد کے ذریعے وہ ان جانوں کا بدلہ کسی نہ کسی صورت قصاص کے نام پر لے ہی لیں گے۔ عدالت کو زحمت دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔

بہرحال علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی جانب سے برپا جدوجہد اب تیز سے تیز تر ہو گئی ہے۔ بلا سے اگر میری نسل کے لوگ اپنی پسند کا انقلاب نہ دیکھ پائے۔ علامہ صاحب کے جاں نثاران تو دیکھ ہی لیں گے۔ مگر سعادت کی اس گھڑی تک پہنچنے سے پہلے مجھے بطور صحافی فکر اپنے ’’رومال‘‘ کی پڑ گئی ہے۔ بنیادی طور پر اپنی ساری زندگی صحافت کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اس کا بیش بہا حصہ میں نے مگر اخباروں کے لیے کام کرنے میں صرف کیا۔ اخباروں کے لیے کام کرتے ہوئے شہرت وغیرہ کافی ملی۔ ایک پاٹے خان مارکہ رپورٹر کی حیثیت سے فخریہ زندگی بسر کرتا رہا۔

تنخواہ کے حوالے سے مگر یہ سال کافی پریشانی کا باعث رہے۔ کافی مشکل سے گزارہ ہوتا تھا۔ زندگی Enjoy کرنے کی عمر گزر گئی تو ٹیلی وژن کا رُخ کیا اور کبھی کبھار بینک اکائونٹ میں اتنے پیسے جمع ہوئے دکھائی دیے جو ساری عمر اکٹھے نہیں دیکھ پایا تھا نہ کبھی دیکھنے کی توقع تھی۔ لمبی بات کے بجائے مختصر لفظوں میں مجھے اعتراف کر لینے دیجیے کہ ٹیلی وژن صحافت کی رونق پر میری ذاتی خوشحالی کا مکمل انحصار ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے مگر پاکستان آ کر مجھے ذاتی تحفظ کے بے تحاشہ خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ میرے یہ کالم لکھنے تک دس سے زیادہ گھنٹے انھوں نے ہمارے تمام 24/7 چینلوں کو اپنی گرفت میں رکھا۔

وفاقی حکومت کے بے تحاشہ ذہین کرتا دھرتائوں نے ان کے جہاز کو اسلام آباد کے بجائے لاہور روانہ کر دیا۔ ان کا طیارہ جب لاہور اُترا تو علامہ صاحب نے وہاں اُترنے سے انکار کر دیا۔ اپنے انکار کی وجوہات کو انھوں نے بارہا Live Coverage کے ذریعے قوم کے سامنے بیان کیا۔ انھیں جن لوگوں سے اپنی زندگی کی حفاظت درکار تھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو جہاز کی نشست پر بیٹھے بیٹھے انھوں نے اپنی پسند کے سیاستدانوں سے براہِ راست ٹیلی فون کے ذریعے مشاورت شروع کر دی اور بالآخر برطانیہ سے پاکستان لا کر پنجاب کے گورنر بنائے چوہدری سرور کو اپنے طیارے میں بلانے میں کامیاب ہو گئے۔

مجھے ہرگز خبر نہیں تھی کہ چوہدری سرور صاحب نے برطانیہ میں Hostage Situation سے ڈیل کرنے کے کچھ خصوصی کورس کر رکھے تھے۔ بہرحال علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی برکت سے ان کی یہ خوبی بھی دُنیا کے سامنے اب عیاں ہو گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ گورنری کے عہدے سے سبکدوش ہو جانے کے بعد سرور صاحب ایک بین الاقوامی معیار کی کوئی کمپنی قائم کر سکتے ہیں جو مختلف ممالک اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز کو Crisis Management میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔

ان کی ایسی کمپنی کی مشہوری کے لیے ان کی 23 جون 2014ء کے دن لاہور ایئرپورٹ پر آمد کے بعد ہونے والی بات چیت اور حتمی کامیابی ہی کافی ہے۔ ان کے لیے ایک بہتر کاروبار کی نوید دریافت کرنے کے بعد مجھے فکر ہے تو بس اتنی کہ ’’تیرا کیا ہو گا کالیا‘‘۔ کالیا، یاد رہے موجودہ صورت میں یہ بدنصیب کالم نگار ہے جسے Live TV کی بدولت راحت کے چند ماہ ملے تھے۔ ایک ’’فرصتِ راحت ملی وہ بھی چار دن‘‘؟!!

کراچی ایئرپورٹ پر چند ازبکوں کے حملے کے بعد ہمارے وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر صاف الفاظ بھی بیان کر دیا تھا کہ خطرات کی صورت میں میری اور آپ کے جان و مال کو تحفظ پہنچانے والے حتمی ادارے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ’’بحرانی کیفیات‘‘ کی Live Coverage نہ ہو۔ چوہدری صاحب واضح طور پر اس مطالبے کی حمایت کرتے بھی نظر آئے۔ جو بات انھوں نے چھپا کر رکھی وہ یہ تھی کہ وزیر اعظم صاحب کے دفتر میں میڈیا کو ’’ذمے دار‘‘ بنانے کے لیے ایک ’’ضابطہ اخلاق‘‘ کئی دنوں سے پوری طرح تیار ہے۔ اسے بس لاگو کرنے کا انتظار ہو رہا ہے ۔ ایک پنجابی محاورے میں اس کمہار سے افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے جس کا گدھا کسی سواری کو اپنی مستی میں زمین پر گرا دیتا ہے۔ مگر سواری اپنا سارا غصہ کمہار کی شدید پٹائی کی صورت نکالتی ہے۔

نواز حکومت کے ذہین و فطین مشیروں کو بے بس علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کیا اور وہ بھی پوری دنیا کے سامنے علی الاعلان۔ مگر غصہ اس حکومت کے ذہین و فطین مشیر اب میڈیا میں بیٹھی ’’لِسی (کمزور) (ا)سامیوں‘‘ پر اسی ’’ضابطہ اخلاق‘‘ کی اطلاق کی صورت نکالیں گے۔ ایک نام نہاد جمہوری حکومت کے ہاتھوں ریاست کے ’’چوتھے ستون‘‘ کا ٹینٹوا بند کر دیا گیا تو پھر باقی ستون اپنی اپنی فکر میں مبتلا ہو جائیں گے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا انقلاب آئے نہ آئے۔ آنے والے دنوں میں ابھی تک طاقتور شمار ہوتے ہوئے بہت سارے لوگ اپنے اپنے رومالوں کی گمشدگی کا رونا روتے ضرور نظر آئیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔