کچھ موروثی سیاست کے بارے میں

مقتدا منصور  جمعرات 26 جون 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

برصغیر کی سیاست اور سیاسی جماعتوں پر گفتگوکرتے ہوئے تجزیہ نگار اور عوامی حلقے یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اس خطے میں سیاسی جماعتوں پر موروثیت کے گہرے اثرات قائم ہوچکے ہیں اور عوامی سیاسی جماعتوں کے بجائے پشتینی وارثت کا حصہ بن چکی ہیں۔بنگلہ دیش کی عوامی لیگ ہو یا بھارت کی کانگریس یا پھر پاکستان کی مقبول سیاسی جماعتیں ہوں، سبھی کسی نہ کسی شکل میں شخصیت پرستی اورموروثیت کا شکار ہیں۔اس تصور کے بارے میں ایک کھلی بحث کی ضرورت ہے،کیونکہ اسی طرح سیاسی عمل میں بہتری کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔

اس بات میں کسی شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ 1885میں قائم ہونے والی انڈین نیشنل کانگریس اور 1906 میں قائم ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ میں آزادی کے بعد بھی کم از کم دودہائیوں تک قیادت کی موروثیت قائم نہیں ہوئی۔ کانگریس میں صدارت کے عہدے کی مدت ایک سال رکھی گئی تھی۔کانگریس میں صدر کو ہر سال منتخب کرنے کی روایت پنڈت نہرو کے صدر بننے تک جاری رہی۔ اس کے بعد ایک ہی رہنماء کے کئی کئی بار صدر منتخب ہونے کی روایت مضبوط ہونے لگی۔

البتہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے یہ کوشش ضرور کی کہ سرکاری اور پارٹی عہدے الگ رہیں۔یہ عمل ان کے بعد آنے والے وزیر اعظم لال بہادر شاستری تک جاری رہا۔مگران کی تاشقند میں پاک بھارت مذاکرات کے آخری مرحلے پر اچانک انتقال نے کانگریسی قیادت کو تذبذب کا شکار کردیا۔جس نے اندرا گاندھی کوکئی سینئر رہنمائوں پر فوقیت دیتے ہوئے وزیر اعظم منتخب کرلیا۔اندراگاندھی نے وزارت عظمیٰ کے ساتھ کانگریس کی صدارت بھی اپنے ہاتھوں میں رکھ کر ہندوستانی سیاست میں ایک نئی روایت قائم کی۔ یہ روایت راجیو گاندھی سے ہوتی ہوئی نرسمہا رائو تک جاری رہی۔

البتہ سونیا گاندھی نے اس روایت کو توڑ دیا اور کانگریس کی صدارت اپنے پاس رکھتے ہوئے من موہن سنگھ کو وزیر اعظم بننے کا موقع فراہم کیا۔البتہ BJPمیں پارٹی اور سرکاری عہدے شروع ہی سے الگ چلے آرہے ہیں۔1937 میں قائد اعظم محمد علی جناح صدر منتخب ہوئے اور اپنے انتقال تک مسلم لیگ کے صدر رہے۔قائد اعظم نے گورنرجنرل نامزد ہوجانے کے بعد بھی مسلم لیگ کی صدارت پر برقرار رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان مرحوم نے وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ کی صدارت سمیت دونوں عہدے اپنے پاس رکھ کر ایک ایسی روایت قائم کی جو ہنوز جاری ہے۔30نومبر1967 کو ڈاکٹرمبشر حسن کے گھر واقع گلبرگ لاہور میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی پاکستان کے اربن علاقوں کی نمایندگی کرنے والی لبرل اور روشن خیال جماعت کے طور پر ابھرکر سامنے آئی۔

اس جماعت کی تشکیل میںکئی بڑے نام شامل تھے، جنہوں نے متفقہ طورپر سحر انگیز اور کرشماتی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کواپنی جماعت کا بانی چیئرمین نامزد کیا۔مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے 1968میں اپنی گرفتاری کے وقت معراج محمد خان اور غلام مصطفیٰ کھر کو اپنا جانشین قرار دیا۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس وقت تک سیاسی جماعتوں اوران کے رہنمائوں میں پارٹیوں کو موروثی بنانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔البتہ شخصیت پرستی کا عنصر جاگیردارانہ کلچر کی جڑیں مضبوط ہونے کی وجہ سے خاصا گہرا تھا،جس نے بعد میں موروثیت کی راہ ہموار کی۔

اندرا گاندھی اپنے چھوٹے صاحبزادے سنجے گاندھی کو اپنے جانشین کے طور پر تیار کر رہی تھیں،مگروہ اندرا جی کی زندگی ہی میں فضائی حادثہ کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے تھے۔لہٰذا جب اندرا گاندھی کا قتل ہوا،تو بھارت کے طول وعرض میں انتشار کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔چنانچہ ان کے انتہائی غیر سیاسی فرزند راجیو گاندھی کو کانگریس کا صدر اور ملک کا وزیر اعظم بناکر ریاست کو مزید انتشار سے بچانے کی کوشش کی گئی۔

یہی کچھ معاملہ اسوقت پیدا ہوا جب قاتلانہ حملہ میں راجیو گاندھی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی یورپی نژاد بیگم کو پارٹی کا سربراہ بناکرمعاملات کو درست کرنے کی کوشش کی گئی۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمان کے قتل نے حسینہ واجد اورجنرل ضیاء الرحمان کے قتل نے خالدہ ضیاء کو سیاست میں سرگرم ہونے پر مجبور کیا۔ اگر سری لنکا کی مثال کو بھی شامل کرلیا جائے تو مسٹر بندرانائیکے کے قتل کے بعد مسز بندرا نائیکے کو سیاسی میدان میں اترنا پڑا۔

پاکستان کی مثال لیں تو1975میں جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائدکیے جانے کے بعد خان عبدالولی خان مرحوم کوگرفتار کیا گیا،تو پارٹی کو انتشار سے بچانے کی خاطر بیگم نسیم ولی خان کو میدان میں اترنا پڑا،جنہوں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میںسرگرم کردار ادا کرکے اپنی جماعت کے کارکنوں کو منشتر ہونے اوراپنے شوہر کوسیاسی انتقام (Political victimization)سے بچایا۔اسی نوعیت کی صورتحال پیپلز پارٹی کے ساتھ اس وقت پیدا ہوئی ، جب جنرل ضیاء نے بھٹو کے عدالتی قتل کا فیصلہ کیا۔ اس نازک لمحے بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی اور اپنے شوہر کو بچانے کا بیڑا اٹھایا۔ شوہر کو تو وہ حالات کے جبر کے تحت نہ بچا سکیں،لیکن پارٹی کو خاصی حد تک محفوظ کرلیا۔

اسوقت کے حالات کا تقاضہ تھا کہ پارٹی کی صفوں میں اتحاد برقرارکھنے کے لیے بھٹو خاندان ہی کا کوئی فرد آگے بڑھے۔چنانچہ بھٹوکی بیٹی بینظیرکو یہ ذمے داری سونپی گئی، جنہوں نے قیادت کے اس خلاء کو نہایت عمدگی کے ساتھ پر کیا۔اکتوبر1999 تک ایسی کوئی علامت سامنے نہیں آئی تھی کہ میاں صاحبان مسلم لیگ کو خاندانی جماعت بنانے کے خواہشمند ہیں۔حکومت کے خاتمے اور میاں صاحبان کی گرفتاری کے بعد بیگم کلثوم نواز کو میدان عمل میں کودنا پڑا۔انھوں نے سال بھر انتہائی جانفشانی سے پورے ملک کے دورے کرکے اپنی جماعت کو خاصی حد تک ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھا۔

درج بالا مثالوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ برصغیر کے ممالک ہوں یا دنیا کا کوئی اور ملک ،نامساعد حالات ہی سیاسی جماعتوں کو موروثیت کی طرف راغب ہونے پر مجبورکرتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بہر حال انکار ممکن نہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک میں شخصیت پرستی کا عنصر خاصی حد تک غالب ہے، جو موروثیت کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یورپی اور امریکی ممالک کی طرح ان ممالک کی سیاست ابھی تکInstitutionalizeنہیں ہوسکی ہے۔

ساتھ ہی اس تاریخی حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ بھارت میں نہرو کی بیٹی نے، بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی نے اور پاکستان میں بھٹو کی بیٹی نے کارہائے نمایاں سرانجام دے کر یہ ثابت کیا کہ ان کی سیاسی جماعتوں نے ان کا انتخاب کرکے غلط نہیں بلکہ انتہائی بروقت اور صائب فیصلہ کیا تھا،کیونکہ تینوں نے خود کو اپنے والد کا صحیح جانشین ثابت کیا۔اسی طرح مسزبندرا نائیکے، مسز خالدہ ضیاء، بیگم نصرت بھٹو ،بیگم نسیم ولی خان اور بیگم کلثوم نواز نے مشکل وقت میں اپنی جماعتوں کو جرأت وہمت سے سنبھالا ۔اس لیے موروثیت کو ہدف تنقید بنانے کے بجائے ہمیںاپنی پوری توجہ سیاسی اداروں کی تشکیل اوران کے استحکام پرمرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔اگر سیاسی ادارہ مضبوط ہوجاتا ہے، تو شخصیت پرستی اور موروثیت کی جڑیں بھی خود بخود کمزور پڑجائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔