موج خوں ابھی سر سے نہیں گزری

رئیس فاطمہ  جمعـء 27 جون 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

غالب نے کہا تھا:

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ‘ گھبرائیں کیا

غالب اس صورت حال سے دوچار تھے، جب امید نے ساتھ چھوڑ دیا تھا، ایک طویل عرصے سے پاکستانی عوام بھی اسی صورت حال سے دوچار تھے… لیکن اب معاملہ صاف ہے۔ وہ سب ہوگیا جس کے لیے ساتوں آسمان گردش میں تھے ۔

پہلے مہران بیس کراچی پہ حملہ، پھر کراچی ایئرپورٹ…  اور اب تابوت میں آخری کیل ماڈل ٹاؤن لاہور میں اس صورت حال پہ کوئی بات نہیں کروں گی کہ ہمارے انتہائی قابل تجزیہ کار اس موضوع پر بات کرچکے ہیں۔ جس کا خلاصہ باالفاظ دگر یہ ہے کہ ’’گلو بٹ اب ہمارا ہیرو ہے‘‘…لیکن گلو بٹ تو ہمیشہ سے موجود تھا… پورا ملک گلو بٹ مافیا کے قبضے میں ہے۔ میں نے کالم کی ابتدا میں غالب کے ایک شعر کا ذکر کیا تھا اور یہ بھی یاد دلایا تھا کہ وہ سب کچھ وقوع پذیر ہوچکا ہے جس کے تصور ہی سے دم گھٹتا اور دل دھڑکتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘ ان سے مودبانہ گزارش ہے کہ کیسے ٹھیک ہوگا؟

زیادہ پیچھے نہ جائیے۔ صرف گزشتہ چھ سال کا ریکارڈ دیکھ لیجیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ سب کچھ کیونکر ٹھیک ہوگا۔ پی پی کی حکومت آئی تو حکمران ورکرز اور وزرا کے حالات خوب خوب ٹھیک ہونے لگے۔ لیکن عوام بھوکوں مرنے لگے، بجلی ناپید، کرپشن عروج پر، محلات شاہی میں مسلسل اضافہ، لیکن لوگوں کو چھت میسر نہیں۔ وہ دوران حکومت کہتے رہے کہ ’’گزشتہ حکومت کی کرپشن پانچ سال میں کیونکر صاف ہوسکتی ہے۔ آپ ہمیں مزید پانچ سال اور دیں تو ہم ملک کی حالت بدل دیں گے۔‘‘ ملک کی حالت بدلنے کے لیے تو پانچ سال کافی نہ تھے۔ لیکن آیندہ نسلوں کے لیے قارون کے خزانے بھرنے کے لیے وقت کہاں سے آگیا۔

دوسری طرف الیکشن کے میدان میں اتری دوسری ٹیم۔ بال اب پاس تھی، موسم اور سرپرستی کی چھتر چھایا ان کے ساتھ تھی۔ لہٰذا انھوں نے بھی گیم نعروں سے جیتنا چاہا کہ انھیں اگر اقتدار سونپ دیا گیا تو وہ دو سال میں ملک سے لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے۔ وہ جذبات میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ ناکامی کی صورت میں نام تک بدلنے کا کہہ دیا۔ اس لیے کہ فیصلہ تو کہیں ’’پس پردہ‘‘ ہو ہی چکا تھا۔ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قوم اس طرح کے نعروں کے فریب میں آنے کی عادی ہوچکی ہے۔

روٹی، کپڑا اور مکان اب بھی پارٹی کا پسندیدہ اور کامیاب نعرہ ہے۔ لہٰذا نام بدلنے والا نعرہ یقیناً ایک نیا نعرہ ہے اور قابل عمل بھی۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں صرف دھواں باقی رہ گیا۔ لیکن جس بات پہ آسانی سے عمل ہوسکتا تھا اسے بھی پرانے نعروں کی طرح آیندہ الیکشن کے لیے محفوظ کرلیا گیا۔ اور پھر الیکشن کے بعد وہی رفتار بے ڈھنگی، وہی جھوٹ اور وہی پرانا راگ درباری۔ لوڈشیڈنگ پچھلی حکومت کا تحفہ ہے۔ اسے دو سال (پہلے چھ ماہ کہے گئے تھے) میں کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اگر قوم نے آیندہ بھی موقع دیا تو یقینا ملک سے اندھیروں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔

سوال یہ ہے کہ جب ہر نئی آنے والی حکومت تمام خرابیوں کی ذمے داری سابقہ حکومت پر ڈالتی چلی آئی ہے۔ تو معاملات تو کبھی بھی درست نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ میدان ایک ہے اور کھلاڑی دو۔ کبھی گیند ان کے گول میں اور کبھی ان کے۔ ریفری کی ذمے داری اس حد تک کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بجائے  منہ پہ دھوپ سے بچاؤ کی ٹوپی رکھ کر، سیٹی جیب میں ڈال کر سو جاتا ہے۔ پھر کہیں اور سے کان میں سیٹھی بجائی جاتی ہے کہ چلو اب میدان دوسرے کھلاڑی کے لیے تیار کرو۔ اور حسب ہدایت سیٹیاں بجاتے رہو۔ پھر کھیل کا اختتام ٹیم کے جیت جانے پر ہوتا ہے (یہ جیت پہلے سے طے ہوتی ہے)۔

اور پھر اپنی دیہاڑی کے منتظر ’’گلو بٹ‘‘ سوئے ہوئے شیر کی طرح انگڑائی لے کر اپنی کمین گاہوں سے باہر آتے ہیں اور مطلوبہ خوراک حاصل کرنے کے لیے، حسب ہدایت کہیں بھی دھاوا بول کر انسانی لہو سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ مطلوبہ نتائج دے کر آیندہ حکم تک چین سے بیٹھنے کے لیے ’’من و سلویٰ‘‘ کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ انتہائی اہم گلو بٹ کسی خاص حکومت یا خاص شخصیت کا پروردہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر حکومت کا چہیتا ہوتا ہے اور ضرورت بھی۔ یہ سب کچھ کرسکتا ہے۔

سیاسی جلسوں کو درہم برہم کرسکتا ہے، مخالفین کے کیمپوں میں زندہ سانپ اور چھچھوندر پھینک سکتا ہے، لاٹھی چارج کروا سکتا ہے، مخالف پارٹیوں کے لوگوں کو اغوا کروا سکتا ہے، ٹارگٹ کلنگ کرسکتا ہے، کوئی مائی کا لال اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ کہ اس کی پشت پہ ہمیشہ اہم اور طاقت ور لوگ ہوتے ہیں۔ پھر جب یہ اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے، اور خود اپنے آقاؤں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے تو بحفاظت اسے کہیں چھپا دیا جاتا ہے اور پھر ایک دن نجیب احمد، شہنشاہ نواب، رحمن ڈکیت اور لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کی طرح اسے بھی ’’وادی خاموش‘‘ کا مکین بنا دیا جاتا ہے  تاکہ اہم سربستہ راز کبھی منظر عام پہ نہ آسکیں۔

گلو بٹ جیسے لوگوں کا رعب و دبدبہ اور اہمیت دیکھ کر بے روزگاری اور غربت و افلاس سے تنگ آکر اگر ہر نوجوان گلو بٹ کو اپنا آئیڈیل بنا لے تو کیسا رہے گا؟ ڈر ہے اس وقت سے جب یہ سوسائٹی مکمل طور پر گلو بٹ جیسے لوگوں کی سرپرستی میں نہ آجائے۔ نوجوان کیوں سولہ سال تک اپنی آنکھیں جلائیں، کتابیں خریدیں، پیسہ خرچ کریں، ڈگریاں لے کر مختلف اداروں میں جوتیاں چٹخاتے پھریں۔ سفارش اور مطلوبہ رشوت کی رقم نہ ہونے پر ڈپریشن کا شکار ہوکر مایوسیوں کے اندھیروں میں کھو جائیں؟ ان تکلیف دہ مراحل کو طے کرنے کے بجائے ۔ سیدھا سادہ اور آسان ترین طریقہ کیوں نہ اپنایا جائے کہ گلو بٹ بن جائے۔ چند سوالوں کے جواب نہیں مل رہے۔

شاید کسی کے پاس ہوں تو بتائے؟ (1)۔کیا قصور وار صرف رانا ثناء اللہ ہیں؟ کیا انھوں نے غیر مشروط وفاداری اور دوستی کی سزا پائی ہے؟(2)۔ گلو بٹ جو اب دہشت کی ایک علامت ہے اس نے اپنی مرضی سے کیا جو کچھ کیا؟ کیا وہ زندہ رہے گا؟ زبان نہ کھولنے کے وعدے پر اسے شاہی خزانے سے لعل و جواہر اور خلعت فاخرہ سے کب نوازا جائے گا؟(3)۔سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا، ایک ایک حرکت کی فوٹیج دستیاب ہونے کے باوجود انکوائری کمیٹی اور کمیشن تشکیل دینے کا مطلب کیا ہے؟ کیا وہ وقت آن پہنچا ہے جب کسی بچے سے پوچھا جائے گا کہ آپ بڑے ہوکر کیا بنیں گے؟ تو وہ ترنت جواب دے گا میں بڑے ہوکر گلو بٹ بنوں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔