طاہر انقلابی اور عمران کا جلسہ بہاولپور

طلعت حسین  ہفتہ 28 جون 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

آخری خبریں آنے تک ڈاکٹر طاہر القادری کا جلال حقیقت پسندی کے جلال میں تبدیل ہو گیا ہے۔ مکے لہراتے شہادت کے خواہاں (مگر حفاظتی حصار میں) پیر انقلاب اپنے تمام ساتھیوں کو حیرت میں مبتلا کر کے سوچ بچار کے عمل میں پڑ گئے ہیں۔ ذرایع ابلاغ کو ماموں بنانے کے بعد انھوں نے یہی حربہ ان تمام خواہش مندوں پر آزمایا جو ان کے کندھے پر رکھ کر اپنے مفادات کے حصول کی بندوق چلانا چاہتے تھے۔

چوہدری برادران کو یہ خفت محسوس ہوئی یا نہیں ہوئی لیکن طاہر القادری نے انقلاب آنے سے پہلے ہی اپنی اڑان کا رستہ تبدیل کر کے ان کے لیے کافی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ مگر ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ قاف لیگ ایسے اتار چڑھائو کی عادی ہے۔ یہ اس پانی کی طرح ہے جو ہر کوزے کے مطابق اپنی شکل تبدیل کر لیتا ہے۔ جب تک موجودہ سیاسی نظام باقی ہے ق لیگ کی اپنی شکل تبدیل کرنے پر یہ قدرت ان کی ہمیشہ معاونت کرتی رہے گی، ایسی لچک رکھنے والے سیاستدان پاکستان میں ٹوٹتے پھوٹتے نہیں، پھلتے پھولتے اور پھیلتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری کی پالیسی میں تبدیلی کو حتمی جانیے وہ کل کلاں کسی بھی وجہ سے دوبارہ پاکستان کے عوام کی محبت کے جذبے کو اپنے دل میں موجزن کر سکتے ہیں۔ انھیں کوئی خواب آ سکتا ہے، وہ عالم ارواح سے رابطے کر کے پھر سے کوئی فتویٰ صادر فرماتے ہوئے بھاگ دوڑ کا آغاز کر سکتے ہیں، چونکہ پاکستان کے ذرایع ابلاغ میں چھاتا بردار قبیلہ ایسی شخصیات کو اپنی صحافت کے لیے برسات کی جھڑی سمجھتا ہے۔لہٰذا انتہائی اہتمام سے ڈاکٹر طاہر القادری کو ایک مرتبہ پھر سر آنکھوں پر بٹھاتے ہوئے انٹرٹینمنٹ کا بندوبست بھی کر سکتا ہے، آج کے پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن بڑا سوال ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلابی ابال کے یک لخت اعتدال سے متعلق ہے۔ ان کی متلون مزاجی دو دنوں میں تدبر میں کیسے تبدیل ہو گئی۔

ان کے نعرے، طعنے، اتحاد کے تانے بانے سب کچھ پھیکے پڑتے ہوئے کیوں نظر آ رہے ہیں۔ شاید اس کا جواب راولپنڈی اور اسلام آباد میں موجود مقتدر قوتوں کے وہ سنجیدہ تجزیئے ہیں جو انھوں نے پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر کیے ہیں۔ یہ تجزیے پچھلی مرتبہ بھی کیے گئے تھے۔ جس کے نتیجے میں طاہر القادری اپنے کنٹینر میں جوش خطابت کے ذریعے جادو جگانے کے سوا کوئی بڑا عمل اور ہنگامہ خیز قدم اٹھانے سے پہلے ہی متین ہو گئے۔ پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں خاموشی سے نگل لیں اور انقلاب آ گیا، خوش رہو، جیتے رہو مگر اپنے اپنے گھروں کو واپس چلو کی آوازیں لگاتے ہوئے واپس اپنے مسکن روانہ ہو گئے۔

اس وقت طاہر القادری کی آمد پر پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسی کے اداروں نے ملک میں بد ترین ہنگامہ آرائی کی پیشین گوئی کی تھی۔ اس وقت کی رپورٹ کے مطابق بیرونی عناصر طاہر القادری کے احتجاج کی آڑ میں پاکستان بھر میں بد ترین فرقہ واریت کی نئی گنجائش بنانے کا سوچ رہے تھے۔ موجودہ فرقہ ورانہ خون خرابے میں ہونے والے نقصان سے سو گنا ممکنہ نقصان ان حلقوں کی بیشتر میٹنگز میں زیر بحث آیا۔ پنجاب میں طاہر القادری کے خاص نکتہ نظر کے مخالفین بپھر گئے تو عملا ملک کے ہر محلے میں ایسی لڑائی چھڑ سکتی تھی جس کو روکنے کا کسی کے پاس کوئی انتظام نہیں تھا۔

اگرچہ اس وقت بھی آج کی طرح ڈاکٹر طاہر القادری اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا جا رہا تھا۔ لیکن طاہر القادری کے احتجاج سے متعلق ہونے والے ان مباحثوں سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے حضرت انقلاب کو محدود حما یت کے علاوہ کوئی خاص تھپکی مہیا نہیں کی گئی تھی۔ آج پاکستان میں حالات پہلے سے بھی زیادہ مخدوش ہیں۔ ابھی تک وہ تمام حلقے جو طاہر القادری کی تنظیم سے کہیں زیادہ منظم بھی ہیں اور با وسائل بھی، خاموشی سے ان کی تشہیر اور مصنوعی سیاسی مرکزیت کو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ خاموشی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔طاہر القادری اور ان کے ساتھ کھڑی جماعتیں کسی طور پر بھی ملک میں سیاسی اور مذہبی اتفاق رائے کی نمایندہ نہیں۔

قاف لیگ روایتی طور پر نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور کمزوری سے استفادہ کرتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (جس کے قا ئد طاہر القادری سے 80 فی صد باتوں پر اتفاق کر تے ہیں) اپنی تمام اصول پسندی کے دعوئوں کے باوجود ایک غیر یقینی سیاسی قوت ہے جو کسی جماعت کے ساتھ کسی وقت بھی ہاتھ ملا سکتی ہے۔ اور دوسرے ہی لمحے اس پر تیزابی تنقید کی بارش کر کے اس کو تہس نہس کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔ عمران خان خان کا متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مصافحہ، چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ بغل گیری، پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کے لیے بد ترین خطرہ قرار دینے کے بعد اس پرانے موقف پر اس وقت پر اسرار خاموشی اور اس کے علاوہ کئی اور سیاسی یو ٹرن اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تحریک انصاف اپنی بھرپور سیاسی قوت کی سمت کا تعین کرنے سے قاصر ہے۔

ایسی سیاسی قوتیں نظام میں طلاطم تو بر پا کر سکتی ہیں‘ استحکام نہیں، ان تینوں قوتوں کے اکٹھا ہو جانے پر پاکستان میں ایسے عدم استحکام کا راج ہو سکتا ہے جس سے ریاست ہل کر رہ جائے گی۔ انقلاب پڑھنے اور پڑھانے والے بہت ہیں۔ جب سہنے کا وقت آتا ہے تو سب چلاتے ہوئے ملک سے بھاگنے کی کرتے ہیں۔ اگر کوئی حالیہ یا پرانی تاریخ میں آنے والے انقلابوں کی تفصیل (یا خلاصہ) پڑھنے کی زحمت کرے تو وہ یہ جان پائے گا۔ انقلاب تبدیلی کم عذاب زیادہ لاتے ہیں۔ ان کا غضب، ضرب عضب سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے۔ جنگ میں موجود فوج جس کو امریکا کے انخلاء کے بعد کے افغانستان کے علاوہ اندرونی دہشتگردی سے نپٹنا ہے ایسے انقلاب کو تبدیلی کی تمام تر خواہش رکھتے ہوئے بھی صرف رد ہی کر سکتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ پیغام ڈاکٹر صاحب تک پہنچا دیا گیا ہو۔ جب ہی تو وہ طاہر انقلابی سے دوبارہ طاہر القادری بن گئے ہیں۔

عمران خان بہر حال قاف لیگ کے بر عکس طاہر القادری کے محتاج نہیں تھے، لہذا ان  پر مدرسۃ المنہاج کی نئی سیاسی منطق کا کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہو سکتا۔ مگر فی الحال وہ دفاعی بیٹنگ پر آمادہ نظر آ نے لگے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی اسمبلی کی تحلیل  چار مختلف بیانات سے گزر کر قومی اسمبلی سے استعفوں میں تبدیل ہو گئی ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس پلٹا کھانے کا خاص لا ئسنس موجود ہے۔ لہذا یہ قلا بازی کے زمرے میں نہیں بلکہ تصحیح کے پیرائے میں آتا ہے۔ مگر اس کے باوجود عمران خان کے سامنے آپشنز محدود ہیں۔ وہ اسمبلیوں سے استعفی دے کر ان حلقوں میں ضمنی انتخابات کروانے کا ایسا موقع فراہم کریں گے جو موجودہ حکومت ہنسی خوشی قبول کرے گی۔

اس کے بعد ان کے سامنے براہ راست احتجاج اور سیاسی لڑائی جھگڑے کی وہ تنگ گلی رہ جائے گی جس میں گھسنے سے انھوں نے ابھی تک اجتناب کیا ہے۔ اس مرتبہ بہاولپور جلسے میں خطاب کے دوران وہ یہ اجتناب پھلانگیں گے، یہ اگلے چند گھنٹو ں میں واضح ہو جائے گا۔ اگر آپ انتظار کی اذیت اور ساون کے حبس سے وقتی طور پر ذہنی نجات چاہتے ہیں تو انٹر ٹینمنٹ کی دنیا سے اس حیران کن دعوے کو پڑھ کر دل کھول کر ہنسیں۔ جس کے مطابق پاکستان بین لاقوامی کرکٹ کونسل کی حالیہ میٹنگز سے سر خرو ہو کر واپس آیا ہے۔ خوشخبری یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو اپنے ملک ہندوستان میں کر پشن اور میچ فکسنگ اسکینڈل کے باعث عدالتی حکم پر کرکٹ سے علیحدہ کیا گیا ہے اب آئی سی سی کے صدر کے طور پر دنیا میں اس کھیل کو چلانے پر مامور کر دیا گیا ہے۔

دوسری نام نہاد خوشخبری ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک ایسی سیریز سے متعلق ہے جو اگلے آٹھ سال میں کھیلی جائے گی۔ اس سیریز کا پاکستان میں کرکٹ کے استحکام سے کیا تعلق ہے اس سوال کا جواب انٹرٹینمنٹ کے اس دعوی میں تلاش مت کیجیے گا۔ اور نہ ہی یہ پوچھیئے گا کہ بگ تھری سرکاری طور پر بگ تھری ہی ہے مگر ہم اس کو فور کس منہ سے کہہ رہے ہیں۔ اس قسم کی واہی تباہی پر خون جلانے کے بجائے اس سے مزاح کا پہلو تلاش کرنا زیادہ کار آمد ہے۔ پاکستان کی کرکٹ کو چڑیا گھر کے طور پر لیجیے۔ جہاں پر طرح طرح کے جانور آسائش نظر کے لیے موجود ہیں۔ تماشا سے محظوظ ہو ئیے اور بہاولپور کے جلسے کا انتظار کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔