برا

جاوید قاضی  ہفتہ 28 جون 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

حد ہے کہ جس کا تعین نہیں ہو پاتا۔ ذرا اس زاویے سے بھی دیکھیے میرے پاکستان کو۔ کل اخبار میں پڑھا، سندھ کے کسی دور افتادہ چھوٹے سے شہر میں جب ملازم نے ایک پبلک سیکٹر کے حکام سے اپنی پرانی تنخواہوں کا حساب مانگا تو پولیس نے صبح اس کی بیوی اور بیٹے کو تھانے کی یاترا کرائی اور کہا کہ جاؤگے تب جب کتے کی طرح بھونک کر دکھاؤگے۔ میری نظر سے یہ خبر گزر رہی تھی تو ’’ساحر‘‘ امڈ کے اس خیال سے میرے ذہن میں ابھر رہا تھا۔

’’انسان کی قیمت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی، وہ صبح کبھی تو آئے گی‘‘ روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں ان زرعی قدروں میں رہتی ہوئی میرے محبوب سندھ میں، پنجاب، خیبر پختونخوا و بلوچستان میں ایسے تذلیل آمیز حرکتیں پولیس و دیگر سرکاری ادارے کرتے ہوں گے۔ جب حد کا تعین نہیں ہوپاتا، تو اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہے تذلیل بھی بے حد۔ اک طویل داستان ہے کھینچی ہوئی لکیر سے باہر نکلنے کی۔

پھر ایک خبر یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ پنجاب میں انکم ٹیکس کا کمشنر ریٹائر ہوکر اپنے شہر لوٹتا ہے تو گولیوں کی بوچھاڑ سے آسمان کو چیر دیا جاتا ہے، پانچ من جلیبیاں بانٹی جاتی ہیں اور صاحب نے سیاست میں پیر پانے کا اعلان بھی کردیا۔ یقیناً اسے ایک پارٹی چاہیے اور پارٹی کو یہ ریٹائرڈ صاحب چاہیے۔ مال کے بدلے مال یعنی طاقت چاہیے، حد سے گزر جانے کے لیے اور اب اس شہر کے بھرے مجمع عامہ میں اب دم بھی نہیں، کسی کی عزت محفوظ ہے نہ کسی کو اسکول میسر ہے، نہ صاف پانی پینے کے لیے، نہ ٹیکے پولیو کے، نہ اسپتالوں میں دوائیاں موجود ہیں۔

مٹی سے لدے بچے جن کے پیروں میں چپل بھی نہیں، تو پھر دیکھیے حد سے گزر جانے کا حشر کہ آج آدمی آدمی بھی نہیں جو جبر کرے وہ بھی اور جس پر جبر ہو وہ بھی۔ بھلا اس طرح آدمی نہیں کہ اس میں انسانیت نہیں اور جس پر جبر ہو رہا ہے وہ اس لیے آدمی نہیں کہ اسے انسان والی عزت میسر نہیں، وہ جو آئین پاکستان اسے دیتا ہے، وہ اپنے صاحب اقتدار کے حد سے گزرجانے کی وجہ سے اس سے چھین لیا جاتا ہے۔

کبیر کو خیال آیا کہ وہ برائی کو ڈھونڈے، اسے برائی کہیں بھی نہ ملی تو سوچا ذرا اپنے من میں بھی جھانک کر دیکھوں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ان سا برا تو کوئی نہیں۔ لیکن ہم کبیر نہیں کہ اپنا احتساب خود بھی کرسکیں۔ ہم میں سقراط والی جدت بھی نہیں کہ حد کا تعین کرسکیں۔ سقراط اس رات جب زہر کا پیالہ پینے لگا تھا تو اس سے پہلے اس کا شاگرد کرائٹو دوڑا ہوا اس کے پاس آیا تھا اور سقراط سے کہا کہ اس نے اس کے جیل سے فرار ہونے کے سارے انتظامات کردیے ہیں مگر سقراط کو اس حد کی عزت تھی، یونان کے قانون کا احترام تھا۔ اس نے اپنے پیارے شاگرد کرائٹو کا کام اپنے دی ہوئی تعلیمات سے ٹکراؤ میں پایا۔

فرار ہونے کے برعکس عدالت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے زہر کا پیالا پی لیا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کے انکار سے فرار ہونے سے یونان کے قوانین کا پھر کوئی احترام نہیں کرے گا۔ کرائٹو کو کہتے ہیں۔ جب کورٹ بالآخر یہ کہتی ہے کہ مجرم ہوں، تو میں ہوں، میں برا ہوں تو میں ہوں۔ ہم اپنے مفاد میں اپنے منصف نہیں ہوسکتے۔ لیکن ہم ہیں کہ اپنی برائی کا تعین کرنے کا کام خود اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔ لیکن ہم کبیر نہیں کیونکہ کبیر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ افسر نہیں تھے، بلکہ سادھو تھے، وہ کہتے ہیں ’’سادھو بھوکا بھانکا دین کا بھوکا ناہیں، دہن کا بھوکا جو پھر ہے سو تو سادھو ناہیں‘‘۔

حضرت جنید بغدادی کے شاگرد تھے منصور حلاج۔ وہ جنید بغدادی کی دی ہوئی تعلیم سے حد پارکرگئے۔ جب منصور کے خلاف فیصلہ آیا تو کہا کہ یہ فیصلہ اس دنیا کے حساب سے ٹھیک ہے لیکن جو خدا کا فیصلہ ہوگا وہ وہی جانتا ہے۔

سب سے بڑا برا یہ ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں یہاں سے جانا ہے۔ کچھ گز لٹھے کے کپڑے کے اس مردہ جسم پر اوڑھ دیے جائیں گے جس میں ہم رہتے تھے، برا کرتے تھے، حد سے گزر جاتے تھے لیکن وہ مردہ جسم جو لحد میں جائے گا وہ اب اپنی حد میں رہے گا۔

اور سارے مردے پھر اک جیسے ہوتے ہیں، وہ جو اہل ہوس تھے اور ساتھ ساتھ منصف بھی تھے۔ وہ جو جبر سہتے تھے یا اٹھ کر بغاوت پر مجبور ہوجاتے تھے۔ برائیاں اور بھلائیاں یہیں رہ جاتی ہیں۔

ایک طاہر القادری صاحب بھی ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں انقلاب یا یوں کہیے کہ انارکی پھیلانا چاہتے ہیں، جب تبدیلیاں بیلٹ باکس کے ذریعے آیا کرتی ہیں۔ لیکن اگر بیلٹ باکس میں سوراخ ہے تو پھر کیا کرنا چاہیے۔ اس کا سلیس جواب یہ ہے کہ اس سوراخ کو بند کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ آپ اس میں ایک اور سوراخ کریں یا یہ کہ اس ڈبے کے اوپر بندوق رکھ دیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح قادری صاحب کے شیدائی پولیس پر لاٹھیاں برسا رہے تھے، کیا وہ حد سے باہر نہیں تھے؟ جس طرح قادری صاحب جہاز کو یرغمال کرکے بیٹھ گئے، کیا وہ ایسے اونچے ہتھکنڈے کینیڈا کے اندر (جہاں وہ رہتے ہیں) استعمال کرسکتے تھے؟ وہ جانتے ہیں کہ کینیڈا کے قوانین پھر کیا جوہر دکھاتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہمارے حکمران اگر برطانیہ کیحاکم ہوتے تو کیا وہ جہاز کا رخ موڑنے کا حکم دیتے؟ اور اگر دیتے اس صورت حال میں تو کب کی ان کی حکومت رخصت بھی ہوچکی ہوتی۔ جب مشرف کے جہاز رخ تبدیل کرنے کا حد سے گزر کر حکم دیا، خاکی وردی والے بھی حد سے گزر گئے تھے۔ اسی طرح 1977 میں بھٹو صاحب کی برائی کا جواب بھی برے سے دیا گیا۔

ہم اپنے اجداد سے بہتر زمانے میں رہتے تو ہیں مگر معیار تبدیل ہوگئے۔ اب ماسٹر عزت والا نہیں رہا، نہ ڈاکیا رہا جو نہ صرف خط لے کے آتا تھا بلکہ ان پڑھ کو پڑھ کے سناتا بھی تھا۔ اب ہمارے جسموں پر لبادہ تو خوب ہے مگر آدمی وہ نہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر تھرڈ جنریشن والا فون آگیا مگر آدمی وہ نہیں۔ ہم اپنے اجداد والی قدریں نہیں رکھتے، رواداری و صبر نہیں رکھتے۔ لالچ ہے کہ ڈبوئے جارہی ہے۔

کیسا لگتا ہے کہ آپ کے گھر میں ایئرپورٹ ہو اور ملک کے سربراہ بھی ہیں۔ ایک ایسے ملک کے سربراہ ہیں جس کی آدھی آبادی رات کو فاقے پہ سوتی ہے یا یوں کہیے فقط دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے۔اس طرح ہے ہندوستان، مگر وہاں کے وزیراعظم کے گھر ایئرپورٹ تو کیا آنگن بھی نہیں اور وہ چائے بیچا کرتے تھے، اس آبائی گھر میں اپنی ماں کے ساتھ اب بھی رہتے ہیں۔

جب سب ایک رات میں امیر بننا چاہتے ہوں تو پھر وہ رات قیامت بن جاتی ہے۔ جب سب صراط مستقیم کو چھوڑ کر شارٹ کٹ ڈھونڈیں تو پھر لیجیے یہ پاکستان، ایسے شرفا کے مفادات کا ترجمان پاکستان۔

یہ جو آج ہم کاٹ رہے ہیں، یہ وہی ہے جو ہم نے کل بویا تھا۔ ہم اب بھی وہی بیج بو رہے ہیں جو آیندہ کی نسلیں کاٹیں گی۔ جہاں ایئرپورٹ پر حملہ ہو، جہازوں کے رخ تبدیل کیے جائیں، نہتے لوگوں پر گولیاں چلائی جائیں، جہاں جہازوں پہ گولیاں چلیں۔ اس کا مطلب برا باہر نہیں اندر ہے۔ اس برے کو برا کرنے کے لیے دوسرا برا نہیں کیا جائے گا، ایک غلطی کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک اور غلطی نہیں کی جائے گی۔ ہر برے کو اچھے عمل سے شکست دی جاسکتی ہے۔ سب راستے جو محبوب کو پانے کی طرف جاتے ہیں وہ بہت کٹھن، طویل و تاریک ہوتے ہیں اور صراط المستقیم ہے واحد ذریعہ منزل پانے کا ۔ ہمیں اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا اور جو بھی Ultra Vires جائے گا یعنی حد سے باہر جائے گا وہ برا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔