نیا مالی سال اور معاشی استحکام

ایم آئی خلیل  ہفتہ 28 جون 2014
   ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

یکم جولائی سے نئے مالی سال کا آغاز ہوجائے گا، جس کا اختتام 30 جون کو ہوتا ہے۔ 30 جون کو ہی رواں مالی سال 2013-14 کا اختتام ہوا چاہتا ہے۔ اسی ماہ کے اوائل میں ہی نئے مالی سال 2014-15 کے لیے بجٹ کا اعلان کردیا گیا ۔ بجٹ میں کیے گئے حکومتی اقدامات کا آغاز یکم جولائی سے ہوتا ہے۔ لیکن جہاں تک اشیائے صارفین کا تعلق ہے جن اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز دی جاتی ہے اس پر عمل درآمد بجٹ سنتے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ البتہ جن اشیا کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا جاتا ہے اس پر عملدرآمد کے لیے صبرو تحمل کے ساتھ یکم جولائی کا انتظار کیا جاتا ہے۔

ملک کے معاشی استحکام کی خاطر بجٹ میں ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن سے معاشی بدحالی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ پاکستان میں معاشی بدحالی یا خوش حالی کا انحصار ایک طرف روزگار میں اضافے اور کساد بازاری سے چھٹکارے پر ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات کو کم سے کم کیا جائے۔ ٹیکسوں اور دیگر اقدامات کے ذریعے دولت کا رخ امیروں سے غریبوں کی جانب موڑا جائے۔ ملک میں روزگارکے بھرپور مواقعے پیدا کرنے کے لیے ایک طرف ان معاشی شعبوں کو خصوصی اہمیت دی جائے جن میں زیادہ سے زیادہ بے روزگاروں کو کھپایا جاسکے۔

بدقسمتی سے ملک کی تمام تر معاشی پالیسیوں کا رخ اس جانب ہی رکھا گیا جس سے مراعات یافتہ طبقے کو مزید مراعات اور فوائد سمیٹنے کے مواقعے میسر آتے رہے۔ وہ اپنا دامن خوشیوں سے بھرتے رہے۔ اپنی جائز و ناجائز آمدنیوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ کرتے رہے۔ ہر قسم کے ٹیکسوں سے آزاد رہے۔ دوسری طرف کئی عشروں سے حکومت ہی رائٹ سائزنگ، ڈاؤن سائزنگ، نجکاری اور دیگر طریقوں سے لوگوں کو بیروزگار کرتی رہی ہے۔ 1960 کے عشرے میں جس ترقی کا غلغلہ اٹھا تھا وہ جلد ہی دم توڑ گیا اس لیے آمدنی کی تقسیم میں شدید عدم مساوات ابھر کر سامنے آچکا تھا۔ لوگوں کو روزگار میسر آیا لیکن ان کو مزدوری کم سے کم ملتی رہی۔ جس سے سرمایہ دار کی تجوری بھرتی رہی۔

حکومتی دعویٰ کے مطابق رواں مالی سال مئی تک ٹیکسوں کی آمدنی میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے بشرطیکہ ان افراد کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جائے جن کی نشاندہی ہوچکی ہے حکومت کا رخ زیادہ تر موٹرویز کی تعمیر پر لگا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے وسائل کا رخ زیادہ تر ایک ہی جانب مڑ کر رہ گیا ہے جب کہ دیگر شعبے بھی تشنہ طلب ہیں۔ ان شعبوں پر بھی بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

صرف قومی آمدنی میں اضافے یا فی کس آمدنی میں اضافے سے ملک سے بدحالی کا خاتمہ نہیں ہوتا عوام میں خوش حالی نہیں آتی۔ اگر قومی آمدنی کی تعریف پر ہی نظر ڈالیں تو حقیقت حال کھل جاتی ہے کہ کون فائدے میں ہے کس کی جھولی بھری ہوئی ہے کون خالی ہاتھ ہے۔ معیشت دان قومی آمدنی کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ’’کسی ملک میں عاملین پیدائش ایک سال کے عرصے میں مجموعی طور پر جو معاوضے حاصل کرتے ہیں۔ انھیں اس ملک کی قومی آمدنی کہا جاتا ہے۔‘‘

یہاں عاملین پیدائش سے مراد ہر وہ شخص جو کسی بھی قسم کی (قانونی) معاشی سرگرمی میں شریک رہ کر اس نے کچھ نہ کچھ معاوضہ حاصل کیا ہو۔ عاملین پیدائش کا سب سے بڑا طبقہ مزدور ہوتا ہے۔ صنعت کار کی ملک میں کیا حالت ہے سب کے سامنے ہے۔ اور یہ بات کوئی آج کی نہیں ہے، بلکہ صدیوں پرانی ہے۔ قیام پاکستان کی تحریک کو کامیاب کرنے میں مسلمان مزدوروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا کیونکہ اس بات کی امید تھی کہ مملکت خداداد میں انھیں اپنی محنت کا منصفانہ معاوضہ حاصل ہوجائے گا۔ لیکن حالات جوں کے توں ہی رہے اور بندہ مزدور کے اوقات تلخ ہی رہے۔

دوسری طرف کسانوں نے جو بویا اس کا بھی صحیح صلہ نہ پاسکے۔ ایک طرف زرعی مداخل کی بڑھتی قیمتوں نے ان کے ناک میں دم کردیا۔ چلیے یہاں تک بھی قابل قبول کہ پیداوار تو اچھی ہوگی جب حالات یہ ہوں کہ جعلی ادویات کی بھرمار ہوجائے، ناقص کھاد فراہم ہونے لگے، ناقص بیج ملنے لگیں اور بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کے باعث پانی کی فراہمی کم سے کم ہوتی چلی جائے یا ڈیزل کی ہوش ربا قیمتوں کے باعث اور دیگر زرعی مشینریوں کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ان کی لاگت بڑھ رہی ہے اور فصل تیار ہونے کے بعد یا اس سے قبل بھی دوسرے افراد ان فصلوں کو اونے پونے خرید لیتے ہیں۔ اور غریب ہاری کسان ہر سال کی طرح ایک بار پھر غربت کے منحوس چکر میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔

عاملین پیدائش میں ایک خاص طبقہ سرمایہ کار، صنعتکار، منتظم اعلیٰ یعنی جس کی فیکٹری یا کارخانہ ہو یا مل مالک ہو، یا بڑے بڑے تاجر یا ٹھیکیدار ہوں جو اپنا حصہ یا کیش پہلے ہی محفوظ کرلیتے ہیں۔ اس طرح دولت کی تقسیم میں ان کو زیادہ حصہ مل جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک جم غفیر کے حصے میں جو دولت آتی ہے وہ جب ہر ایک اپنے معاوضے کے طور پر وصول کرتا ہے تو ایک قلیل آمدن اس کے ہاتھ لگتی ہے۔

آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات جوکہ شدید ناانصافی پر مبنی ہے۔ اسے کم کرنے کے لیے بجٹ میں ایسے اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں جس سے امیروں پر ٹیکس عائد کرکے یا دیگر طریقوں سے آمدنی حاصل کی جاتی ہے اور اس کا بیشتر حصہ غریبوں کی فلاح و بہبود ان کی بہتری کے لیے خرچ کی جاتی ہے لیکن یہاں پر تو معاملہ ہی بگڑا ہوا ہے ٹیکس کے حصول میں نمایاں اضافہ کیونکر ہو کیونکہ جن لاکھوں قابل ٹیکس افراد کی نشاندہی ہوچکی ہے ان سے ٹیکس وصولی کے اقدامات کے آثار دور تک نظر نہیں آرہے۔

معاشی استحکام کے لیے جہاں ٹیکسوں کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوا اس کے ساتھ ہی لوگوں کے لیے روزگار کا بھی بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ حکومتی بجٹ اقدامات، معاشی منصوبوں اور دیگر کئی اقدامات کے نتیجے میں ملک میں روزگار کے لاکھوں مواقعے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو مکمل کنٹرول کرنا ضروری ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں، تاجروں اور کھیل کا میدان سجانے والے کھلاڑیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوسکے جس سے بیرون ملک پاکستان کے بارے میں منفی تاثر ختم ہونے میں کافی مدد ملتی ہے۔

ملک میں امن وامان کی خاطر حکومت نے کافی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی گزشتہ حکومت کی نسبت بحال ہوچکا ہے۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس ملنے سے ملکی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جنوری 2014 سے جی ایس پی اسٹیٹس کا درجہ ملنے کے بعد ماہ فروری 2014 میں ہی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات فروری 2014 کی نسبت 22 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس میں سے صرف کاٹن یارن کی برآمد فروری 2014 میں فروری 2013 کی نسبت 26 فیصد اضافہ ہوا ہے اسی طرح کاٹن فیبرک کی برآمدات میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔

فروری 2014 کی نسبت فروری 2013 میں کاٹن فیبرک کی برآمدات میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح ٹیکسٹائل صنعت کو پھلنے پھولنے کا موقع میسر آیا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ توانائی کی فراہمی اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی لاگت میں کمی کے اقدامات کیے جائیں۔ اب جب کہ ٹیکسٹائل کی کئی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے مثلاً نٹ ویئر کی برآمدات میں 33 فیصد اضافہ اسی طرح بیڈویئر کی برآمدات فروری 2014 بمقابلہ فروری 2013 میں 35  فیصد اضافہ۔ ٹاول کی برآمدات فروری 2014 میں فروری 2013 کی نسبت 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اگر جلد ہی پٹرولیم مصنوعات بجلی کی قیمت گیس کی قیمت وغیرہ میں اضافہ کردیا جاتا ہے تو اس کے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ جس سے روزگار کے مواقعوں میں کمی واقع ہوگی جس سے معاشی استحکام کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔