غلطی ہائے مضامین مت پوچھ

رئیس فاطمہ  اتوار 29 جون 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ اتوار کے کالم میں کچھ منفی رویوں کے فروغ اور غلط بات پہ ڈھٹائی سے ڈٹے رہنے کے حوالے سے بات ہوئی تھی۔ جس پر پسندیدگی کے ساتھ ساتھ قارئین نے ای میل کے ذریعے یہ توجہ بھی دلائی کہ منفی رویوں پہ بہ اصرار اڑے رہنے کی تو مثالیں ہر طرف افراط سے بکھری پڑی ہیں۔ پھر میں نے کالم کو تشنہ کیوں چھوڑ دیا؟ چلیے آج اسے مکمل کیے دیتے ہیں۔ ’’دل برداشتہ‘‘ کو آج تک ’’دلبر+داشتہ‘‘ ہی لکھا جا رہا ہے۔ ’’عوام‘‘ کی جنس مکمل طور پر تبدیل کر دی گئی ہے۔

چلیے لیڈر تو قابل معافی ہیں کہ ان کے پاس سوائے گلے میں لاؤڈ اسپیکر فٹ کر کے چیخنے چلانے سے فرصت نہیں کہ وہ زبان کی طرف بھی توجہ دیں اور کچھ مطالعے کی عادت بھی ڈالیں تو ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہی ہو گا۔ لیکن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جب اپنی اصلاح نہ کرے اور تواتر سے غلطیاں دہراتا رہے تو پھر کیا کہیے۔ میں نے اکثر و بیشتر متعلقہ صفحات کے انچارج صاحبان کو فون کر کے بتایا کہ وہ اپنی غلطی درست کریں۔ بڑا شکریہ ادا کیا گیا اور آئندہ کے لیے احتیاط کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا لیکن پنچوں کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن پرنالہ وہیں گرے گا، والی کہاوت بار بار دہرائی گئی۔ اسی طرح بڑے بڑے لکھنے والے اپنی عبارت میں ’’قابل گردن زدنی‘‘ کا استعمال دھڑلے سے کرتے ہیں۔

شاید وہ خود کو ناقابل اصلاح سمجھنے میں حق بجانب ہیں۔ لیکن ان لکھاریوں کو یہ تو سمجھنا چاہیے کہ ’’گردن زدنی‘‘ ایک مکمل لفظ ہے جس کا مطلب واجب القتل یعنی قتل کیے جانے کا سزاوار۔ اسی طرح بہت پڑھے لکھے لوگ بھی اکثر کہتے پائے گئے۔ کان میں سرگوشی کی۔ صرف کہتے ہی نہیں بعض افسانہ نگاروں نے بھی یہ غلطی کی ہے جب کہ ’’سرگوشی‘‘ کا مطلب ہی ’’کان میں کچھ کہنا‘‘ ہے۔ ایک حج کے سفر نامے میں جگہ جگہ ’’آب زم زم کا پانی‘‘ تحریر کیا گیا۔ اگر ان پڑھ اور کم تعلیم یافتہ لوگ ایسی غلطیاں کریں تو قابل معافی ہیں، مگر وہ جو خود کو علامہ کی فہرست میں فٹ کرتے ہیں، انھیں ایسی فاش غلطیوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ عام آدمی ان ہی ’’پڑھے لکھے‘‘ عالموں کو مثال سمجھتا ہے۔ اس طرح غلطی نہ صرف فروغ پاتی ہے بلکہ اپنی جگہ بھی بنا لیتی ہے۔ بہت سے حضرات کو پھولوں کا گلدستہ کہتے بھی سنا گیا ہے۔

کبھی ریڈیو اور پی ٹی وی ایسے سرکاری ادارے تھے جو تلفظ اور املا کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ پی ٹی وی کا اب تو وہی حال ہے جو سب کا ہے، یعنی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ لیکن زیڈ ۔اے بخاری، اسلم اظہر اور ان کے بعد افتخار عارف، قریش پور اور عبیداللہ بیگ اس ادارے سے وابستہ رہے۔ زبان و بیان کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا۔ آج میڈیا ہاؤسز اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ وہ لوگ جن کی روزی ان ہی اداروں سے وابستہ ہے۔ وہ کسی بھی لفظ کے معاملے میں کوئی تحقیق نہیں کرتے۔ لغت دیکھنا انھیں آتا نہیں، ڈکشنری کی انھیں ضرورت نہیں جب کہ بڑے اخبارات اور چینلز تمام اہم معلوماتی کتب خاص طور پر لغت اور ریفرنس بکس اپنی لائبریری میں رکھتے ہیں، لیکن انھیں پڑھے کون؟ اور پھر ایک رویہ جو بہت تشویش ناک ہے وہ یہ ہے کہ ہر غلطی کا جواز موجود ہے۔ ’’ارے چھوڑو۔ دیکھتا کون ہے۔‘‘ سو لوگوں میں سے کسی ایک نے اعتراض کیا تو کیا پرواہ 99 فیصد تو خود ہماری طرح کے بقراط ہیں۔‘‘

ایک واقعہ سنیے۔ زیڈ۔اے بخاری صاحب ایک ریڈیائی گفتگو کے دوران ایک لفظ ’’زعم‘‘ کو (ز پر زبر کے ساتھ) جلدی میں پیش کے ساتھ زُعم (زوم) کہہ گئے۔ پروگرام آن ایئر چلا گیا تو انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور پروگرام منیجر سے ذکر بھی کیا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ میں نے زعم کو زوم کہہ دیا۔ وہ بولے ’’پریشان کیوں ہو رہے ہیں بخاری صاحب! سو میں کوئی ایک ہی ہو گا جس نے یہ غلطی نوٹ کی ہو گی۔‘‘ بخاری صاحب بولے ’’اسی ایک کی وجہ سے میں پریشان ہوں۔‘‘ ملاحظہ کیا آپ نے۔ ایک ذمے دار افسر کس طرح سوچتا تھا، لیکن پھر وہی بات کہ یہ باتیں ہیں تب کی جب حقیقی صلاحیتوں اور اپنے شعبے میں کامل دسترس اور قابلیت رکھنے والے افسران کا تقرر میرٹ پر ہوتا تھا۔

اب تو بات چیت، گفتگو، بحث مباحثے، کے دوران ایسی ہمالیائی اغلاط نہ صرف عام ہیں بلکہ ٹی وی چینلز کے Tickers میں باآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہم ایسے جاہل کا کیا کرے کوئی۔ مختلف ٹی وی چینلز پر جو Tickers دکھائی دیتے ہیں ان میں موجود غلطیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ متعلقہ افراد کو میرٹ، صلاحیت اور قابلیت کے بجائے صرف اور صرف سفارش کی بنیاد پر بھرتی کر لیا گیا ہے۔ ایسے سفارشی حضرات آپ کو زندگی کے تمام شعبوں میں نظر آ جائیں گے لیکن۔۔۔۔لیکن اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ دور کیوں جائیے چند دن قبل شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے حوالے سے کئی دن تک فیصلہ نہ ہو سکا کہ اس کا نام عزب ہے یا عضب۔ بغیر کسی تحقیق اور معلومات کے ’’سب سے پہلے میں‘‘ کے چکر میں مسلسل چینلز پہ ضرب عزب اور ضرب عضب کے Tickers بریکنگ نیوز کے طور پر چلتے رہے۔

ہمارے ایک استاد نام ور محقق اور ادیب ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کہا کرتے تھے کہ کوئی توجہ دے یا نہ دے لیکن ہر غلط بات اور غلط رویے پہ احتجاج ضرور کرنا چاہیے۔ ورنہ چپ سادھ لینے سے غلط ہی کو لوگ صحیح سمجھنے لگیں گے۔ لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیجیے کہ ہمارے بیشتر چینلز پہ چلنے والے Tickers میں ’’صحیح‘‘ کو ’’سہی‘‘ ہلال عید کو ’’حلال عید‘‘ مصیبت کو ’’مسیبت‘‘ اور خوشبو کو ’’خشبو‘‘ لکھا دیکھنا اب تعجب کی بات نہیں رہی۔ اسی طرح آپ بار بار سنیں گے ہارٹ اٹیک آتا ہے۔ ہارٹ اٹیک آ گیا۔ بھلا یہ کوئی انسان ہے جو آتا ہے جاتا ہے۔ لیکن ایک چینل پہ جب اس کی تصحیح ایک پروگرام کے دوران کی تو اینکر نے کہا ٹھیک ہے کہ ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ یہی صحیح ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو آتا ہے۔ اب سوائے عقل پہ ماتم کرنے کے کچھ نہیں بچا۔

ایک اور ٹی وی پروگرام میں جب یہ کہا گیا کہ کوئی بھی زبان ہو اس کی گرامر کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ تو جواب ملا بات سمجھ آ گئی نا؟ میں نے کہا۔ بات سمجھ میں آ گئی۔ یہ درست ہے۔ لیکن آج آپ کسی بھی چینل کے ڈرامے دیکھ لیں۔ کثرت سے غلط مکالمے اور غلط زبان آپ کے مزاج پہ گراں گزرے گی۔ بات سمجھ آ گئی سے لے کر ’’سمجھ نہیں آتا۔ یا سمجھ نہیں آئی‘‘ تک سب جائز۔ کیونکہ لکھنے والے، ڈبنگ کرنے اور کرانے والے، پروڈیوسر، صداکار اور اداکار سب کی اپنی اپنی لابی ہے۔ کم وقت میں زیادہ مال کی رسد ضروری ہے۔ زبان وغیرہ گئی بھاڑ چولہے میں۔ گروہی اجارہ داری نے جہاں ملک کے دوسرے شعبوں کو نقصان پہنچایا ہے وہیں فلموں اور ڈراموں کے معیار کو بھی گھن لگ گیا ہے۔

لیکن پھر بھی غلط رویوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے بھی ہمیں مل کر جہاد کرنا ہو گا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہر اسکرین پہ مسخروں کا راج ہے۔ اب مسخرے ہمیں ہماری تاریخ اور جغرافیہ بتاتے ہیں۔ جب سماج کے ٹھیکیدار مسخرے بن جائیں تو غالب، میر، اقبال، فیض، قرۃالعین حیدر اور جوش ملیح آبادی کی جگہ کہاں بچتی ہے۔ مردہ معاشرے مسخروں کے ذومعنی فقروں سے زندہ نہیں ہوتے۔ اس مردہ سوسائٹی کو مسخروں کی نہیں دانش وروں، فلسفیوں، ادیبوں اور سماجی خدمات انجام دینے والوں کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کہ اسکرین پہ جو ریٹنگ مسخروں کی ہے وہ ادیب شاعر یا استاد کی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔