ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے…

شیریں حیدر  اتوار 29 جون 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میں دھرتی ماں ہوں تمہاری!!! دھرتی ماں …
میری آنکھیں بے نور ہو جاتی ہیں جب میں آنسو بہاتی ہوں !
تمہیں کیا معلوم کہ میں کب آنسو بہاتی ہوں ؟
تمہیں کیا معلوم کہ کب میرے ہاتھ ماتم کرتے ہیں؟
کب زبان نوحے پڑھتی ہے؟
کب میرے قدم لڑکھڑاتے ہیں؟
کب میں اپنے سر کی چادر سے بے خبر ہو جاتی ہوں ؟
کب میرا وجود کرب کی تپش سے گرم ہو جاتا ہے؟
جب تم میرا سودا کرتے ہو… اپنے مفادات کے لیے!!!
تم کیا جانو کہ تمہاری آنکھوں پر تو غفلت کا پردہ ہے!
تم نہیں دیکھ پاتے
کب میرے وجود کے گلابوں کی لالی سیاہ پڑنے لگتی ہے؟
وہ لالی جو میرے لالوں کے لہو سے تازہ ہوتی ہے…
وہ جن کے لہوکی مہک میرے اندر اترتی ہے تو
ابر کرم کا ہر قطرہ اس مہک کو اجاگر کرتا ہے
وہ مہک جو دنیا کی کسی اور مٹی میں نہیں… کیونکہ
کسی اور مٹی کے خمیر میں وہ مادہ ہی نہیں
جو ایسے پیارے پیارے سپوت پیدا کرے
مادر وطن پر کٹ مرنے کو ہر لمحہ تیار
کسی اور مٹی میں وہ تاثیر ہی نہیں
وہ تاثیر کہ جو ہے شہادت کی مے کی
شہادت جو اک نشہ ہے، اک خمار ہے
اس خمار میں ہیں وہ پر اسرار بندے
جہاں بھر سے الگ، ہم تم سے مختلف
نہ وہ تم ہو، نہ وہ، نہ وہ، نہ یہ…
—————–
وہ بے خبر تو نہیں ہیں تمہاری سازشوں سے
پھر بھی وہ جاگتے ہیں کہ تم سکون سے سو سکو
جس شاخ پہ بیٹھتے ہو ،اسی کو کاٹتے ہو؟
تم نے یہ کیا شعار بنا رکھا ہے…
اپنی ہی گودوں میں پالے ہوئے سپوتوں کو
کیوں شک کے دار پہ چڑھا رکھا ہے؟
جان دیتے ہیں عشق میں… وہ میرا سودا نہیں کرتے
اپنے رکھوالوں کو یوں کبھی رسوا نہیں کرتے!!!
تم دو گے جان چند ٹکوں کے لیے؟؟؟
نہیں نا!!!
اپنے رکھوالوں کے بارے میں یوں کہا نہیں کرتے…
سچ تو یہ ہے کہ بقول شاعر،
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
ایسے لال ہر روز جنم لیا نہیں کرتے!!!
کھوکھلی ماؤں کے آنسو ان کے وجود میں سرطان بن جایا کرتے ہیں
لوگ کہتے ہیں شہید ہونے والے کو رویا نہیں کرتے!!
انھیں سراہو، انھیں چاہو ، انھیں داد دو
کہ اپنی ماں کے متوالوں کو رسوا نہیں کرتے!!!
——————-
کیوں سودا ہوتا ہے میرے لالوں کے لہو کا؟
کیوں ان کی وفا مشکوک ہو جاتی ہے؟
کیوں بولی لگتی ہے ان کے لہو کی؟
کیوں ان کو غرض کا بندہ کہا جاتا ہے؟
کیوں ان کی قربانی کی قدر نہیں ہوتی؟
کیوں اس کا شعار غلط لگتا ہے؟
کیوں وہ مورد الزام ٹھہرتے ہیں؟
—————–
وہ تو پروانوں کا سا رقص کرتے ہیں!
میرے لیے جیتے اور میرے لیے ہی مرتے ہیں
ایسا امرت پیتے ہیں کہ مر کر بھی وہ جیتے ہیں
روتی بلکتی مائیں… ہم نشیں دلبر ساتھی اور آنگن کی رونق…
انھیں کچھ بھی نہیں روک پاتا ہے
وہ مڑ کر نہیں دیکھا کرتے
انھیں میرا ہی پیار بھاتا ہے
وہ قدموں پر چل کر جانے والے
جن کی راہیں تکتے ہیں ان کے پیارے
میرے پیار میں، میری گود میں سمٹنے کو، چار کاندھوں پر سوار
جب وہ پرچم میں لپٹ کر آتے ہیں
آسمان کا کلیجہ بھی پھٹنے لگتا ہے
میں کانپ اٹھتی ہوں کہ مجھے بھی حوصلہ چاہیے
اتنے پیاروں کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے کا
ان کی محبت کا قرض بڑھتا ہی جاتا ہے مجھ پر
اتنے پیارے پیارے شہید وجود…اتنے زیادہ
کہ میری گود ہی تنگ پڑ گئی ہے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔