پاکستان رمضان

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 30 جون 2014
aamir.liaquat@express.com.pk

[email protected]

انسانی زندگی تبدیلی اور تغیر کا نام ہے …جمے اور تھمے رہنے کو زندگی نہیں تماشا کہتے ہیں…حرکت، بدلاؤ، تبدیلیاں، ارتقااور مسلسل سفر کبھی پڑاؤ کی جانب راغب کرتے ہیں تو کبھی کچھ عرصے کے لیے قیام کو فوقیت دیتے ہیں… ہمارے ہاں لوگ عموماً اُن معاملات پر بھی جذباتی اندازِ فکر اختیار کرلیتے ہیں، جہاں جذبات نہیں بلکہ ’’جذبے‘‘ کی بنیاد پر فیصلے وقت کی آواز بننا چاہتے ہیں…لوگ اُن باتوں پر اپنے بدگمان خیالات کی غلامی تک قبول کرلیتے ہیں جہاں کسی گمان کی نہیں بس صرف ایک ’’مان‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے …’’چینل بدل لیا، پیسے زیاد ہ مل گئے، بُرا وقت آیا تو چھوڑ چلے، اپنی الگ راہ لے لی یا پھر ساز باز میں ناکامی نے اِس قابل ہی نہ چھوڑا کہ وہیں رہتے جہاں کے تھے‘‘

ایسے ہی کلبلاتے،جھنجھلاتے اور بلبلاتے سوالات پریشان اذہان کو ازخود جوابات بھی عنایات فرمادیتے ہیں، وہ جوابات جو سوالات سننا چاہتے ہیں، وہ جوابات جنھیں سماعتوں نے اپنے تحت الشعور میں پہلے ہی سے تخلیق کرلیا تھا اور وہ جوابات جو سازشی نظریات کے پروردہ اور مفادپرستی سے مرصع ہوتے ہیں تاکہ قلبِ مضطر کو یہ اطمینان رہے کہ ’’جیسا ہم نے سوچا اور سمجھا تھا سب ویسا ہی ہے …اور ایسا ہی تو ہوتا ہے‘‘…اور پھر اِس کے بعد ’’لوکل،سوشل اور ووکل میڈیا‘‘ پر دانشورانہ، عاقلانہ اور بالغانہ تبصروں کے انبار اور حال سے مستقبل تک کی منظر کشی کے ایسے بازار لگتے ہیں جہاں غیبت سستی اور عزت مہنگی ہو کر رہ جاتی ہے…

پہاڑوںمیں بزدلوں کی طرح چھپے کچھ لوگ خود کشی کو حَرام نہیں سمجھتے اور شہروں میں بسے کچھ مہذب افراد’’کردار کشی‘‘کو تہذیب سمجھتے ہیں…مگر میں صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ پیسے سے ’’کیسے کیسے‘‘ تو خریدے جاسکتے ہیںلیکن ہم جیسے فقیر نہیں جن کی ذات میں سو عیب تو ہو سکتے ہیں لیکن بکِنا ہمیں آتا نہیں کیونکہ یہ فَن سیکھنے کے لیے انسانی حرمت اور عفت کو لباس کی طرح بار بار بدلنا اور برہنہ کرنا پڑتا ہے… اخبار یا چینل لوگوں سے رابطے،واسطے اور تعلق کا ایک ذریعے ہوتے ہیں۔

یہ ناظرین و قارئین تک پہنچنے کا ایک راستہ ہوتے ہیں اور آپ سے کچھ کہنے کا ایک مؤثر سلیقہ!…یہ مذاہب، عقائد، نظریات یا ممالک نہیں ہوتے جو چھوڑے نہیں جاسکتے اور نا ہی یہ ماں ہیں جو بدلی نہ جاسکے…بلکہ ازراہِ تفنن تو یہاں تک کہوں گا کہ یہ کوئی بیوی بھی نہیں ہوتے کہ ایک وقت میں دو یا چار رکھی جاسکیں، یہ ایک وقت میں ایک ہی ہوسکتا ہے جہاں مجھ جیسے ’’عجیب لوگ‘‘ دولت کی مست کردینے والی خوشبوؤ ں پر رقص نہیں کرتے بلکہ اپنے پختہ عکس کی گہرائیوں سے الحمد للہ تواریخ رقم کرتے ہیں…

میںایک انتہائی ادنیٰ، معمولی ذرے سے بھی زیادہ کم قیمت رکھنے والا انسان ہوںجو رمضان المبارک میں نشریات کرنے کے لیے اپنی قیمت لگانے کو ایسا ہی سمجھتا ہے کہ جیسے جیتے جی اپنی قبر کے لیے کبھی جیو،اے آروائے یا اب ایکسپریس سے آگ خرید رہا ہو اور یہ بات بھی میں صرف اِسی لیے کہہ رہا ہوں کہ میرے محترم اور پیارے بھائی فواد چوہدری صاحب نے ایک Tweet کے ذریعے میری قیمت کی ’’انتہائی اہم اطلاع‘‘ فراہم کرنے کی ایک ایسی پھلجھڑی چھوڑی تھی جس نے بہرحال مجھے بہت افسردہ کیا کیونکہ وہ مجھ سے اچھی طرح واقف ہیں…

اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے طفیل، اُن کی ثنا کے صدقے اور اِس ملک کی بدولت اِتنا کچھ عطا فرمایا ہے کہ میں جس کے قابل تھا نہ ہوںبلکہ عرض کروں گا کہ اُس کے فضل کی چھاؤں نے میرے ’’اصل‘‘ کی دھوپ کو ٹھنڈک میں بدل کر میرے عیبوں کو اپنے غیبوں سے چھپا ڈالا ہے …آج اگر وہ مجھ جیسے ہزاروں عامرلیاقت صرف اس احسان کے شکر کے لیے پیدا کرے تب بھی اُس کے احسانات کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ تو وہ ہی جانتا ہے کہ بندہ کیا ہے اور بندہ تو پہلے ہی سے اپنی خطاؤں کے سبب لرز رہا ہے …

اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اُ س کی عطا کو اپنے وطن میں بانٹا ہے ،وطن کو نہیں بانٹا!…میری توکوئی حیثیت ہے نا اوقات!میں تو اپنے رب کا ایک انتہائی معمولی بندہ ہوںجسے اُس نے اپنی نوکری پر رکھ لیا ہے …وہ مالک ہے، سو جب تک جی چاہے گا کام لے گا اور جب اُس کی مرضی ہوگی ملازمت سے برخاست کردے گا…بس وہ راضی رہے ،یہی ایک چاہ اور التجا ہے اور سچ پوچھیے تو یہی تو ایک دعا ہے …!

کہنے والے کہتے ہیں کہ بُرے وقت میں چھوڑدیا!!یہ بُرا وقت کیا ہوتا ہے؟یاد رکھیے کہ وقت تو کبھی بُرا ہوتا ہی نہیں ہے…ہاں!!! شامتِ اعمال کے سبب کبھی کبھار گذرتا بڑی مشکل سے ہے،اِسی لیے بُرا لگنے لگتا ہے…ہم کسی قدرتی آفت یاآسمانی بلاؤں کا شکار نہیں بنے کہ آزمائش کا راگ الاپیں!جو کچھ ہوا خود سے ہوا،خود ہی کیا اور خود ہی بھگت رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ دور بھی گذر جائے گا،سب کے لیے اچھے دن آئیں گے اور سب اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے اور بہتری کی طرف مل کر قدم اُٹھائیں گے لیکن بھول نہ جائیے گا کہ یہ کسی کے لیے بُرا وقت نہیں ہے…

میرے لیے مسئلہ یہ ہے کہ میں آج سے آنے والے مبارک دِنوں اور پُرنو ر راتوں میں آپ سے جدا نہیں رہ سکتا تھااور پھر ویسے بھی اِس وقت تو پاکستان کو ہماری بہت زیادہ ضرورت ہے …ہم سب کوہماری ماں پکار رہی ہے، گذشتہ بیس، پچیس بَرسوں کے دوران ہم نے اپنے گھر کی صفائی سے آنکھیں ہی پھیر لی تھیںیا پھر اندھی اور اوندھی مصلحت نے ایسی پٹی باندھ رکھی تھی کہ ’’پالے ہوئے‘‘ اب ’’جان کے لالے‘‘ بن چکے ہیں…

سو اب صفائی کا وقت آگیا ہے،کیڑوں،مکوڑوں اور کاکروچوں سے گھر کو پاک کرنا ہے اور اِس کے لیے پاک فوج کا ساتھ دینا ہے …وہ ہماری حمایت کے طالب،ہماری ہی جانب دیکھ رہے ہیں…اُن کی اُمید بھری نگاہیں ہم ’’سویلینز‘‘ سے قربانی نہیں صرف ’’ایک ساتھ‘‘ کا تقاضا کررہی ہیں…یہ ’’پاکستان رمضان‘‘ اُن ہی کے لیے ہے اور اُن کی اِس آس پر میں اوس نہیں پڑنے دوں گا…اُن کی توقعات کو تکمیل کی حَسین وادیوں تک ضرور لے جاؤں گا…یہ کوئی اُصول یا کلیہ نہیں کہ وہ دہشت گردوں سے لڑتے لڑتے شہید ہوتے رہیںاور ہم اپنے اپنے گھروں میں آرام سے سوتے رہیں…

میرے عظیم فوجی بھائیو!ہم بھی آپ کے ساتھ قربان ہونے کے لیے بے چین ہیں…اِس رمضان…’’پاکستان رمضان‘‘کے ذریعے ہم اُن تمام دانش وَروں کو ’’طلاق‘‘ دینے جارہے ہیں جنہوں نے اپنے کالموں، تبصروں اور ٹاک شوز کے ذریعے آپ اور قوم کے مورال کو گِرایا ہے اور یہ کہہ کر گرایا ہے کہ ’’اِس جنگ کے اثرات کے سبب دہشت گرد شہروں میں آجائیں گے،عام شہریوں کو ماریں گے،خوف و ہراس کا ایک عالم قائم ہوجائے گا،انارکی اور بدامنی اپنے پنجے گاڑ لے گی اور سب تباہ ہوجائے گا‘‘…

نہیں صاحب!!! ہم آپ جیسے رہنماؤں کو ’’تین طلاقیں‘‘ دیتے ہیںاور کھل کر کہتے ہیں کہ اگر سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے ہمارے فوجی جوان شہید ہوں گے توشہروں میں ہم بھی اپنی نعشیں بچھانے کے لیے تیار ہیں…مگر…اُن کیڑوں سے ضرور نجات حاصل کریں گے جو بتدریج ہمیں ختم کرنے کے لیے چھپ کر ڈنک مارتے ہیں اور پھر دوبارہ چھپ جاتے ہیں…اب بیک فائر ہو یا کچھ اور!!…پوری قوم اِس آپریشن میں اپنی فوج اور قومی سلامتی کے اِداروں کے ساتھ کھڑی ہے…27رمضان المبارک 1366ہجری کی ایک عظیم شب ایک پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ہمیں دیا تھا اور اب اِس رمضان ہمارا وہی پاکستان ہماری پاک فوج ہمیں واپس لوٹائے گی(انشاء اللہ)…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔