عمران خان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ

طلعت حسین  اتوار 29 جون 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

پاکستان مسلم لیگ نواز میں چند حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے شہہ دی جا رہی ہے۔ سیاسی حلقوں سے باہر بھی یہ تصور مضبوط ہے کہ عمران خان کی جماعت راولپنڈی کی ایجاد ہے۔ اس الزام کے ساتھ مستقبل میں ممکنہ سیاسی نظام کی شکل سے متعلق پیش گوئی بھی جڑی ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ دھرنوں، گھیرائو اور نہ ختم ہونے والے سیاسی پتھرائو کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کو اتنا زخمی کر دیا جائے گا کہ وہ چلنے کے قابل نہ رہے۔ اس کے بعد نئے انتخابات کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے مقتدر قوتیں میاں محمد نواز شریف کی جگہ عمران خان کو لے آئیں گی۔

یہ خدشات خیال آرائی پر مبنی ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی سیاسی فراست نہیں ہے۔ یہ عمران خان اور پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان مبینہ تعلقات کو مبالغہ سے بھی زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی حمایت حقیقی ہے۔ اس کی مقبولیت فرضی نہیں انتہائی ٹھوس ہے۔ یہ آبپارہ میں کاغذوں میں بننے والی الف، ب، ج، ق قسم کی لیگ نہیں ہے۔ اس کو کسی جرنیل نے نہیں بنایا۔ ا س کو پڑنے والے 78 لاکھ ووٹ جعلی نہیں اصلی ہیں۔

عین ممکن ہے کہ اگرعام انتخابات کے عمل میں ہیر پھیر نہ ہوتی تو  5,10 لاکھ ووٹ اُوپر ہی ملتے (مگر اس کے باوجود میرے تجزیہ میں ہیر پھیر کی نذر ہونے والے ووٹ حاصل کرنے کے باوجود تحریک انصاف مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کے قابل نہ ہوتی۔ نواز لیگ مبینہ دھاندلی سے مستفید نہ ہو کر بھی ان انتخابات میں اعداد و شمار کے اعتبار سے تحریک انصاف سے آگے ہی رہتی) اس سے کہیں اہم معاملہ عمران خان اور فوج کے سیاسی تعلق سے متعلق ہے۔ جو حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان راولپنڈی کے منظور نظر سیاست دان ہیں اور فوج کے گھوڑے پر بیٹھ کر سر پٹ وزیر اعظم ہائوس کی طرف رواں دواں ہیں وہ فوج کی بطور ادارہ سیاسی تر جیحات سے نادانی کی حد تک نا آشنا ہیں۔ عمران خان اُس وقت وہ آخر ی شخص ہوں گے جس کو فوج بطور وزیر اعظم دیکھنا چاہتی ہو۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔

پاکستان کی فوج دنیا میں دوسری افواج کی طرح روایت کو انقلاب پر ترجیح دیتی ہے۔ دنیا بھر کی افواج کی طرح پاکستانی فوج، آئینی، دستوری، قانونی، سیاسی و معاشرتی صورت حال میں انتہا پسندانہ خیالات سے کتراتی ہے۔ وہ نظام میں اپنی طاقت برقرار رکھتے ہوئے تبدیلی کی خواہش کرتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ماضی کی فوجی حکومتوں نے کرپشن کے خاتمے، جمہوریت کو بنیادی سہو لتوں میں ڈھالنے اور پاکستان کے نظام کو نیا رخ دینے کے وعدے تو بہت کیے لیکن عملاً انھوں نے اتحاد اُنہی حلقوں کے ساتھ بنایا جو اس نظام میں گہری جڑیں رکھتے ہیں۔

ایوب خان کا بڑے پیسے والوں اور اپنی پسند کی لیگ کے ساتھ معانقہ، ضیاء الحق کی جماعت اسلامی اور جی حضوری کرنے والے طاقت ور دھڑوں کے ساتھ گہری محبت اور جنرل مشرف کا چوہدری برادران پر انحصار ایک ایسے سیاسی سلسلے کی کڑی ہے جو فوج بطور ادارہ نہ تو تبدیل کر سکتی ہے اور نہ کرنا چاہتی ہے۔ عمران خان اگرچہ شروع میں تمام سیاست دانوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیلے مگر اس وقت ایک تو انا مینڈیٹ کی طاقت کے ساتھ وہ ظاہراً ایک ایسے سیاسی راستے پر چل نکلے ہیں جو سیاسی تصادم اور بدترین غیر یقینی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ فوج کو نواز لیگ پسند ہو یا نہ ہو عمران خان کو شہہ دے کر وہ ملک میں ایسے حالات پید ا کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی جن پر وہ خود بھی قابو پانے پر قاصر ہو۔

اگر ایسے حالات پیدا ہو گئے تو پھر استحکام کے لیے وہ عمران خان پر نہیں اپنے زور بازو پر تکیہ کرے گی جو خوفناک اقدامات سے بھرا ہو ا قدم ہو گا۔ دوسری وجہ عمران خان کی لاابالی طبیعت ہے۔ عوام میں انھوں نے اپنے بارے میں ایک ملنگ انقلابی کا نقشہ کھینچا ہوا ہے۔ سلوٹ والے شلوار قمیص، پشاوری چپل، بکھرے بال، بات چیت میں مقامی ثقافت اور قومی غیرت کے حوالے، گالی کے انداز میں تنقید سب کی ایسی کی تیسی کرنے کی دھمکی، پھانسی پر لٹکانے کے دعوے۔ یہ وہ پہلو ہیں جو عمران خان نے بڑی محنت سے خود سے متعلق ابھارے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ اُن کی نجی زندگی اس ملنگ پن سے کافی حد تک عاری ہے۔

اور لندن میں وہ یکسر دوسری شخصیت نظر آتے ہیں۔ اُن کے چاہنے والے عوامی قائد کے اس تصور کی محبت میں مکمل طور پر گرفتار ہیں۔ عمران خان کی یہ عوامی تصویر آصف علی زرداری، نواز شریف اور دوسری جماعتوں کی قیادت کی غیر معمولی امارات سے لدی ہوئی ساکھ کے پیش نظر من کو اور بھی بھاتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے اب اپنی سیاست اس عوامی تصور کے اس حد تک تابع کر دی ہے کہ وہ اب ریاستی اور سنجیدہ معاملات پر بنا سوچے سمجھے اور بسا اوقات بے مغز بیانات دینے کی دیرینہ عادت اپنا چکے ہے۔

وہ اپنے چاہنے والوں کو خوش کرنے کے چکر میں ہیں مگر چاہنے والوں کی خواہشات ہر روز ایک نیا تماشہ کر کے بھی پوری نہیں ہوتیں۔ سیاسی جوش سے بھر پور کارکن کو تو ایک مولا جٹ چاہیے جو ہر فلم میں نوری نت کی کُوٹ لگا رہا ہو۔ تاریخی طور پر جو لیڈر ہجوم کے پیچھے چلنے لگتے ہیں ان کے پاس قتل و غارت گری، فساد، فتنہ یا ذرا مہذب انداز میں بیان کریں تو حشر برپا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ پاکستان کی فوج بہت سی تبدیلیاں چاہتی ہوگی مگر حشر اُن میں سے نہیں ہے۔

ایک ایسا لیڈر جو جلسے میں کھڑا ہو کر کچھ بھی کہہ سکتا ہو اُن بااثر حلقوں کا پسندیدہ نہیں ہو سکتا جو اس ملک کے سنجیدہ حالات سے واقف ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملک کو اکٹھا رکھنے والی دو ہی قوتیں ہیں جن کا انتظامی ڈھانچہ اور سیاسی اتفاق رائے جمہوریت کی بدترین نااہلی کے باوجود دوسرے ممالک کے حالات کے پیش نظر ایک حسین تحفے سے کم نہیں۔ ملکوں کو انتشار سے بچا نے کے لیے انتظامی قوت نہیں سیاسی اتفاق رائے چاہیے۔

عمران خان انتخابات کے بعد بننے والے اتفاق رائے پر چڑھائی کر رہے ہیں۔ وہ اور اُن کے چاہنے والے یہ سب کچھ کرنے میں اس حد تک حق بجانب ہیں کہ اُن کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن لاکھوں کے ہجوم سے ایک جوہری طاقت کے بڑے شہروں اور دارالحکومت کو مفلوج کرنے کا یہ عمل کسی ایسی قوت کا پسندیدہ نہیں ہو سکتا جو پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات کو اچھی طرح سے جانچ رہی ہے۔ اس وجہ سے یہ سمجھنا کہ عمران خان فوج کی ایماء پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں غلط فہمی پر مبنی ہے۔

اس دفعہ عمران خان کے پاس کوئی ایسا ریگ مار نہیں جس سے گیند کو رگڑ کر وہ اپنی پسند کی سوئنگ کر والیں۔ اس مرتبہ وہ جو بائو لنگ کریں گے وہ ان کی اپنی سمجھ کے مطابق ہوگی۔ اس کے جو بھی اچھے یا برے نتائج نکلیں گے وہ اُن کے خود ذمے دار ہو گے۔ وہ اسلام آباد پر مارچ کر ر ہے ہیں۔ مگر پاکستان میں روایتی طور پر مارچ کرنے والے اپنی جگہ ساکت کھڑے اُن کو حیرانی سے دیکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔