برطانیہ کے انتخابات اور جمہوریت

جمیل مرغز  بدھ 17 جولائی 2024

کرس پیٹن نے برطانیہ کے انتخابات اور جمہوریت کے بارے میں تازہ ترین تجزیہ کیا۔کرس پیٹن ہانگ کانگ کے آخری برطانوی گورنر اور یورپی یونین کے کمشنر برائے امور خارجہ رہے ہیں، وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر اور دی ہانگ کانگ ڈائریز کے مصنف ہیں۔

برطانوی الیکشن اور جمہوریت کے بارے میں ان کا تجزیہ ہے کہ اس تاریخی انتخابی سال کے اختتام تک، دنیا کے جمہوری لیڈرز کے بارے میں یہ واضح ہو جائے گا کہ وہ اپنے ووٹرز کو یہ باور کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ لبرل جمہوری نظام بچانے کے قابل ہیں۔ اگرچہ فرانس اور برطانیہ میںانتخابات اور انتخابی نتائج لبرل جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے امید کی کرن پیش کرتے ہیں، لیکن دنیا میں جمہوریت کا مستقبل نومبر میں ہونے والے امریکا کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر منحصر ہو سکتا ہے۔

لندن (برطانوی) لبرل جمہوریت کے لیے سب سے زبردست دلیل یہ ہے کہ یہ سسٹم  شہریوں کو اپنے رہنماؤں کاآزادانہ چناؤ کرنے کا اختیار دیتا ہے،ووٹرزانتہائی مؤثر طریقے سے اپنے ملک کے حال اور مستقبل کواپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں۔یہ نظام اقلیتوں کے تحفظ اور لبرل جمہوریت کو غیر لبرل اکثریت پرستی میں تبدیل ہونے سے روکتا ہے۔

اس مقصد کے لیے بنائے گئے اصولوں، اقدار اور اداروں کو ایک صف میں کھڑا کیا جاتا ہے۔اسی قانون کی حکمرانی لبرل جمہوریت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ جب میں ہانگ کانگ کا گورنر تھا، تب چینی کمیونسٹ پارٹی کے میرے ہم منصب یہ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ قانون کا اطلاق اقتدار میں رہنے والوں اور عوام پر یکساں کیوں ہونا چاہیے؟چین جیسے آمرانہ ممالک میں حکمران طبقے اور حکمران جماعتیں عام شہریوں کو عوامی معاملات حتیٰ کہ اپنی زندگیوں کے بارے میں بھی صحیح فیصلے کرنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ جمہوریتیں آزادی اظہار اور کھلی بحث پر پروان چڑھتی ہیں۔حکومت پر تنقید کرتے ہوئے، میڈیا آؤٹ لیٹس عوامی عدم اطمینان کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور سیاسی رہنماؤں کو جوابدہ ٹھہرا سکتے ہیں، اس طرح حکومتوں کو شہریوں کے ’مفادات اور خواہشات کو نظر انداز کرنے سے روک سکتے ہیں۔

آمرانہ نظام تنقید برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر آپ کسی آمرانہ نظام کے حامل ملک میں رہتے ہیں اور حکومت پر تنقید کرنے کی ہمت رکھتے ہیں تو آپ کو قید یا موت کا خطرہ ہے ۔ آمرانہ نظام کے برعکس، جمہوری رہنما انتہاپسندی اور جبر پر یقین نہیں رکھ سکتے۔ انھیں شہریوں کو قائل کرنا چاہیے کہ نمایندہ جمہوریت بہترین نظام ہے۔اس تاریخی انتخابی سال کے اختتام تک، ہمارے پاس جمہوری پارٹیوں کے بارے میں واضح معلومات ہو جائیں گی،کہ اکیسویں صدی کو جمہوریت پسندوں یا خواہشمند آمروں کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا۔

برطانیہ کے حالیہ عام انتخابات امید کی کرن پیش کرتے ہیں۔اس بات کا یقین کرنے کے لیے یہی کامی ہے کہ لیبر پارٹی نے صرف 33.8 فیصد ووٹ حاصل کیے لیکن وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی، اس کے سیاسی مینڈیٹ کے بارے میں سوالات اٹھائے سکتے ہیں ۔لیکن کنزرویٹو پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم رشی سونک نے انتخابی نتائج پر اختلاف کیے بغیر انھیں قبول کیا اور اپنے جانشین کئیراسٹارمر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، لبرل جمہوریت میں ایسے سیاسی اصولوں اور قدروں کی توقع کی جاتی ہے ۔

یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ برطانوی میڈیا نتائج کی توجہ نتائج کو متنازعہ بنانے یا سنسنی خیز پر نہیں ہے بلکہ برطانوی میڈیا کی زیادہ تر توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ٹوریز کو دوبارہ منظم اور دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے کیا حکمت عملی بنانی چاہیے ۔ بہرحال ایک زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسٹارمر کی حکومت برطانیہ کے بہت سے معاشی مسائل سے نمٹنے کے قابل ہو جائے گی ۔آیا حکومت ٹیکس میں اضافے یا اضافی قرض اٹھائے بغیر برطانیہ کی بگڑتی ہوئی عوامی خدمات کی ترقی اور مرمت کر سکتی ہے ۔

یہ مسئلہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں ہے۔ چونکہ لبرل جمہوریتیں کمزور معاشی ترقی سے دوچار ہیں، ان کی حکومتیں عوامی خدمات کو بہتر بنانے اور گھریلو آمدنی کو بڑھانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں ۔ یہ پاپولسٹ سیاست دانوں کے لیے سادہ حل کا وعدہ کرکے اور تارکین وطن کو قربانی کا بکرا بنا کر حمایت حاصل کرنے کے لیے زرخیز زمین بناتا ہے۔

فرانس کے اسنیپ الیکشن کا حیران کن نتیجہ، جس میں میرین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی قومی ریلی بائیں بازو کے نیو پاپولر فرنٹ اور صدر ایمانوئل میکرون کے سینٹرسٹ اینسبل کے پیچھے تیسرے نمبر پر رہی، محتاط امید کی بنیاد پیش کرتا ہے ۔اگرچہ بائیں بازو کی چونکا دینے والی فتح کے نتیجے میں اعتدال پسند اتحاد کے بجائے سیاسی گڑبڑ ہو سکتی ہے، لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانسیسی جمہوریت پہلے کے تصور سے کہیں زیادہ لچکدار ہو سکتی ہے۔

لیکن جمہوری طرز حکمرانی کا مستقبل بالآخر امریکا کے آیندہ صدارتی انتخابات کے نتائج پر منحصر ہو سکتا ہے۔یہ تشویشناک ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ دو بزرگ امیدوار شاید ہی اس کی عکاسی کرتے ہیں جو امریکا کو پیش کرنا ہے ۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہیں، نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے کہ وہ انتخابی نتائج صرف اس صورت میں قبول کریں گے جب وہ جیت جائیں گے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ممکنہ طور پر مجرمانہ رویے کے ساتھ اب وہ ایک انتہائی سیاسی سپریم کورٹ کے تحفظ سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں، ایسے میں امریکا کو قانون کی حکمرانی کے لیے ایک معیاری علمبردار سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

امریکا میں گزشتہ ماہ میں ہونے والے صدارتی مباحثے میں صدر جو بائیڈن کی تباہ کن کارکردگی نے ان کی ذہنی یکسوئی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن میں شکست دینے کی صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ ڈیموکریٹس کے اندر بھی اس حوالے سے  باتیں ہوئی ہیں۔

ایک جانب امریکا اور برطانیہ جیسی لبرل جمہوریتیں ان مسائل سے لڑ رہی ہیں جنھیں وہ کبھی آسانی سے حل کرتی آرہی تھیں ۔ دوسری طرف چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن سے لے کر ان کے نظریاتی ساتھی ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربن تک بڑے اطمینان اور خاموشی سے یہ سب دیکھتے ہیں ۔ اگر جمہوری رہنما اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کے ممالک غیر لبرل ڈیماگوگس کے خلاف مزاحمت کریں ، تو انھیں اپنی بیان کردہ اقدار پر قائم رہنا چاہیے اور جوابدہ حکمرانی، وسیع پیمانے پر مشترکہ خوشحالی، اور اعلیٰ معیار کی عوامی خدمات فراہم کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔