- گورنر ہاؤس میں جشن عید میلادالنبیﷺ کی مناسبت سے نعت خوانی کا پروگرام
- ایران نے تحقیقی سیٹلائٹ چمران-1 کامیابی کے ساتھ لانچ کر دیا
- جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک ہی روز میں منکی پاکس کے تین مشتبہ کیسز رپورٹ
- فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیلی منصوبے کی حمایت نہیں کریں گے، متحدہ عرب امارات
- چیمپیئنز ون ڈے کپ: پینتھرز نے ڈولفنز کو 50 رنز سے ہرادیا
- پاک بھارت تعلقات ،مکالمہ اور امن کے امکانات
- کراچی: مل میں سر پر وزنی چیز گرنے سے محنت کش جاں بحق
- کراچی: فائرنگ کے واقعات میں بچہ جاں بحق، دو بھائی زخمی
- مصطفیٰ کمال کا تحریک انصاف کو ایم کیو ایم کے نقش قدم پر چلنے کا مشورہ
- کراچی میں فینسی نمبر پلیٹ اور سیاہ شیشے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا حکم
- لاہور، پولیس اہلکاروں کے قتل اور درجن سے زائد وارداتوں میں ملوث اشتہاری ملزم گرفتار
- پارلیمان کے تقدس کیلئے ضروری ہے ملکی و عوامی مفاد میں قانون سازی ہو، وزیراعظم
- پنجاب کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی روک تھام کیلیے اقدامات کا فیصلہ
- وفاقی پولیس سیکیورٹی کے نام پر شہریوں کوتنگ کرنے لگی
- کراچی: ڈاکوؤں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار زخمی
- سندھ حکومت نے پیدائش کے اندراج کی سہولت مفت فراہم کرنے کی منظوری دے دی
- ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ میں آئینی عدالت قائم کی جائے گی، اسحاق ڈار کی تصدیق
- موسلا دھار بارش کے بعد تاج محل کی چھت ٹپکنے لگ گئی
- سندھ کابینہ نے مفت برتھ سرٹیفکیٹ فراہم کرنے کی منظوری دیدی
- آئینی ترمیم، حکومت اور پی ٹی آئی کی فضل الرحمان کو حمایت کیلیے منانے کی کوششیں
غذا میں موجود مضر صحت چکنائی کو 2فیصد تک محدود کیا جائے، ماہرین
اسلام آباد: پاکستان کی سول سوسائٹی نے پالیسی سازوں اور قانون سازوں پر زور دیا ہے کہ پاکستان بھر کے تمام غذائی ذرائع میں صنعتی طور پر پیدا شدہ ٹرانس فیٹی ایسڈز کی مقدار کل چربی کے 2 فیصد تک محدود کی جائے۔
صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹی ایسڈ نقصان دہ ہیں جو عام طور پر بہت سے پروسیسڈ کھانوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں سالانہ دو لاکھ سے زائد امراض قلب سے ہونے والی اموات سے منسلک ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں عالمی سطح پر ہونے والی خاطر خواہ پیش رفت پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن ساتھ ہی پاکستان سمیت پیچھے رہ جانے والے خطوں میں فوری اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
جی ایچ اے آئی کے کنٹری کوآرڈینیٹر منور حسین نے پاکستان میں ریگولیشن کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ثبوت واضح ہیں کہ ٹرانس فیٹس کی ہماری خوراک میں کوئی جگہ نہیں ہے، ہمارے شہریوں کی صحت خطرے میں ہے اور یہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنی خوراک سے ان نقصان دہ مادوں کو ختم کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ بہترین طرز عمل کی پالیسیوں کو نافذ کرے۔ مفاد عامہ کو ہمیشہ اولین ترجیح دی جانی چاہیے اور اپنے شہریوں کی صحت کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی وائی سی اے) کے ڈائریکٹر کمیونیکیشنز اینڈ ایڈووکیسی افشار اقبال کا کہنا تھا کہ عوام کو ٹرانس فیٹس کے خطرات سے آگاہ کرکے اور سخت قوانین کی وکالت کرکے ہم سالانہ ہزاروں زندگیاں بچا سکتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اگرچہ پیش رفت ہوئی ہے لیکن 2025 کی توسیع شدہ مدت تک عالمی سطح پر ٹرانس فیٹس کے خاتمے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ پاکستان 2023 کی ٹائم لائنز پوری کرنے میں ناکام رہا لیکن اب اس ہدف میں نمایاں کردار ادا کرنے کا ایک انوکھا موقع ہے، سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشی ایٹوز، پاکستان (سی پی ڈی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد نے مل کر کوشش کرنے پر زور دیا۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کو ’’کم پابندیوں‘‘ کے زمرے میں رکھا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحت عامہ کو آئی ٹی ایف اے کے خطرات سے بچانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جن ممالک نے ٹرانس فیٹس کو موٴثر طریقے سے ختم کیا ہے ان کی کامیابی کی کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ نہ صرف قابل حصول ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔
پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی بہترین پریکٹس پالیسیوں کو اپنانے کے لیے تمام کھانے پینے کی اشیاء کے لیے معیاری قواعد و ضوابط بنانے کی ذمہ دار ہے۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں نے نیشنل ریگولیٹری باڈی سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ تاخیر کا ہر دن پاکستان میں خوراک میں آئی ٹی ایف اے کے استعمال سے منسلک بیماریوں کی وجہ سے لوگوں کی پریشانیوں اور اموات کا باعث بنتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔