شمالی وزیرستان سے کردستان تک

نصرت جاوید  بدھ 2 جولائی 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جی ہاں بات ہے رسوائی کی مگر سچ ہے تو صرف اتنی کہ انگریز بڑا کائیاں تھا۔ تجارت کی غرض سے خطرناک سمندری سفر کے ذریعے ایک بار سورت تک پہنچا تو پھر اپنے اقتدار و اختیار کو بڑھاتا ہی چلا گیا۔ 1857میں مغلیہ سلطنت کی آخری نشانی کو  رنگون بھیج دینے کے بعد وہ اگلے نوے برسوں تک ان علاقوں کا مختارِ کل بھی بن گیا جو آج پاکستان کہلاتے ہیں۔ فوجی قوت سے کہیں زیادہ کارگر اس کی انتظامی صلاحیتیں تھیں۔

گزشتہ تین دنوں سے لیفٹیننٹ Reynell G Taylorکی ڈائری پڑھ رہا ہوں جو باضابطہ روزنامچوں کی صورت وہ 1847 سے 1848 کے درمیان بنوں سے لاہور میں برطانوی وائسرائے کے بٹھائے ریذیڈنٹ کو بھیجا کرتا تھا۔ عمر اس کی ان دنوں 25 سال سے زیادہ نہ تھی۔ مگر ذمے اس کے بنوں شہر کو قابو میں لانا اور اس کے اِرد گرد تمام زمینوں اور ان پر آباد کاشتکاروں کا مکمل اندراج کر کے ان سے مالیہ وصول کرنا تھا۔ شمالی وزیرستان سے قربت کی وجہ سے اس علاقے میں امن و امان کے حوالے سے بڑے سنگین مسائل موجود تھے۔ دن رات کی سامراجی لگن سے اس نے ان سب کا علاج مگر دریافت کر ہی لیا۔

30 مئی 1848 کو جب اسے اس پوسٹ کو چھوڑنے کا حکم ملا تو اپنی آخری رپورٹ میں اس نے بڑے فخر سے سرکار کو بتایا کہ اس کی مسلسل کوششوں کے سبب ’’گزشتہ چار مہینوں میں بنوں میں ایک بھی قتل نہیں ہوا… بنوں میں اب کوئی شہری اپنے پاس ہتھیار نہیں رکھتا اور نہ ہی انھیں حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے… ہمارے سپاہی دو یا تین کی ٹکڑیوں میں دور دراز کے گائوں تک چلے جاتے ہیں اور انھیں اپنے ان دوروں کے درمیان کسی بھی ناخوش گوار واقعہ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔‘‘

سامراجی ظلم و ستم کے خلاف کوئی بھاشن دینا ہو تو میرے جیسے ایک زمانے کے ’’سامراج دشمن ترقی پسند‘‘ کو بھاری بھر کم اصطلاحیں منہ زبانی یاد ہیں۔ بڑھاپے کے قریب آ کر عقل مگر کچھ ٹھکانے لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ تاریخ پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی عادت بھی پڑ جاتی ہے اور اس حوالے سے پریشانی کچھ اور زیادہ کہ اسلام کے نام پر یا مکمل اسلامی نظام کے اطلاق کی خاطر ایک ملک بنانے کے 67 سال بعد بھی ہم انتشار کی کیفیات سے چھٹکارا کیوں نہ حاصل کر پائے۔ ریاستِ پاکستان کو شمالی وزیرستان میں اپنی عمل داری کو ثابت کرنے کے لیے اب ’’ضربِ عضب‘‘ کی ضرورت آن پڑی ہے۔

اس آپریشن کی تیاری میں مدد دینے کے لیے 5 لاکھ کے قریب افراد اب تک بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان بے سر و سامانی کی صورت پہنچ چکے ہیں۔ موسم بہت گرم ہے اور مہینہ رمضان کا شروع ہو چکا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے تئیں ان پناہ گزینوں کی ہر ممکن امداد کرنے کو تیار ہونے کے دعوے کر رہی ہیں۔ مگر اپنی انتظامی مشینری کی صلاحیتوں کا ہمیں خوب اندازہ ہے۔ مخیر پاکستانیوں کو ان پناہ گزینوں کی مدد کے لیے ہر صورت آگے بڑھنا ہو گا۔ مخیر حضرات کو مگر آفتوں میں گھرے افراد کی مشکلات کا پوری طرح اندازہ ہی نہیں۔ ٹی وی کھولو تو ساری خبریں ’’سانحہ لاہور‘‘ پر مرکوز دکھائی دیتی ہیں۔

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اس سانحے کا انقلابی طریقے سے بدلہ لینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں اس سانحے کے بارے میں سچ کو ڈھونڈنے کے بعد ذمے داروں کے تعین کے لیے جو کمیشن بنا ہے اس پر علامہ صاحب کو اعتماد نہیں۔ ان کے دُکھوں کے مداوے کے لیے اتوار کو ان کی دعوت پر کئی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اکٹھا ہوئے۔ علامہ صاحب کے ذاتی کرشمے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ ان کی بلائی کانفرنس میں اپنے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم کے نمایندگان بھی انھیں جذباتی کمک پہنچانے کو موجود تھے۔ شیخ رشید صاحب کی انقلابی گھن گرج اور گجرات کے چوہدری برادران کی سیاسی بصیرت نے مل کر بالآخر ایک مشترکہ اعلامیہ تیار کروا دیا ہے۔

مقصد اس اعلامیے کا شہباز شریف کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے کسی نہ کسی طرح سبکدوش کروانا ہے تا کہ علامہ صاحب کو ’’انصاف‘‘ مل سکے۔ 14 اگست کو ویسے بھی عمران خان کی سونامی نے اسلام آباد آ کر دمادم مست قلندر کرنا ہے۔ بات جب شہباز شریف کے استعفیٰ اور عمران خان کے دمادم مست قلندر کی چل نکلے تو ٹی وی والوں کو ریٹنگ کے لیے بنوں جانے کی زحمت اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قادری، عمران خان اور مسلم لیگ نون کے نمایندوں کو اپنے ٹاک شوز میں بلوائو۔ ان کو اُکسا کر ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالنے پر مجبور کرو۔ اسکرینوں پر رونق لگ جائے گی۔ شمالی وزیرستان سے آئے پانچ لاکھ انسانوں کا کیا ہو گا؟  ’’ہو  رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘۔

’’ضربِ عضب‘‘ کے دوسرے مرحلے میں اب گھر گھر تلاشی لینے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی جان لیوا معرکے بھی برپا ہوں گے۔ انھیں اسکرینوں پر دکھانے کا مگر کوئی بندوبست نہیں۔ آئی ایس پی آر کی جاری کردہ اطلاعات اور کچھ Stock Footages  ہیں۔ انھیں دکھائیے اور گزارہ کیجیے۔ میڈیا آزاد اور مستعد ہے۔ علامہ قادری صاحب کی رچائی کانفرنس کو Live Cuts  کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ دکھا چکا ہے۔ مزید کیا کرے۔ رپورٹروں کی جانوں سے کہیں زیادہ قیمتی کیمرے ہوا کرتے ہیں۔ انھیں شمالی وزیرستان لے جانے کا رسک کیوں لیں؟

شمالی وزیرستان میں گزشتہ کئی برسوں سے جو کچھ ہو رہا ہے اسے ویسے بھی ہم نے ’’کسی اور کی مسلط کردہ جنگ‘‘ ہی بتا کر اپنے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ ’’کوئی اور‘‘ تو اب اس سال کے آخر میں افغانستان سے ہر صورت نکل جانے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ اس سے پہلے اس نے عراق کے سلسلے میں بھی یہی کچھ کیا تھا۔ وہ چلا گیا ہے اور اب تقریباََ ایک صدی کے انتظار کے بعد مسلمانوں کو خلافتِ عثمانیہ کے بعد عراق کے شہر تکریت سے خلیفہ ابوبکر البغدادی کے نمودار ہونے کی خبر ملی ہے۔ افغانستان اور ’’خراسان‘‘ ملا عمر کی صورت اپنا امیر تو 1990کے اختتام تک دریافت کر چکے تھے۔

اللہ کے فضل سے وہ امیر المومنین ابھی تک حیات ہیں۔ امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے رخصت ہو گئیں تو نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی اللہ نے چاہا تو دوبارہ منظرِ عام پر آ جائیں گے۔ آئیے انٹرنیٹ کھول کر اپنے اپنے فیس بک اور ٹویٹر اکائونٹس پر جائیں اور غلط سلط اُردو یا انگریزی زبان میں اس امریکی بلکہ دراصل یہودی منصوبے پر سیاپا فروشی کریں جس نے عالمِ اسلام کو چھوٹے چھوٹے اور ایک دوسرے سے متحارب ممالک میں تقسیم کر دینے کا عزم کر رکھا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے تو اب برسرِ عام کردستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر تسلیم کرنے کے خیال کو پذیرائی بخش دی ہے۔ یاد رہے کہ کردستان نام کا ملک بن گیا تو صرف عراق کا ایک الگ ہوا خطہ نہ ہو گا۔ کرد ایران میں بھی ہیں اور ترکی میں بھی۔ شام میں بسے کردوں کی سب سے بڑی پہچان صلاح الدین ایوبی ہیں۔ آئیے ان سب کا ذکر کریں۔ شمالی وزیرستان سے آئے پانچ لاکھ پاکستانیوں کا کیا ہو گا؟ آپ کو بتایا نہیں: ’’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔