دیکھیں کون ہنستا اور کون روتا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 2 جولائی 2014

سوئیٹر کی ساخت بڑی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے اون کو اس طرح سلائی کے ذریعے بُنا جاتا ہے کہ دیکھنے والا لاجواب ہو جاتا ہے۔ بچپن میں سوئیٹر بُنتے دیکھنے کا مشاہد ہ بڑا دلچسپ لگتا تھا سوئیٹر بظاہر بہت مضبوط دکھائی دیتا ہے آپ اسے جتنا چاہیں کھینچ لیں اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا یہ الگ بات ہے کہ آپ پر فرق پڑ جائے۔

آپ اس کے ساتھ ہر قسم کی دھینگا مُشتی کر سکتے ہیں لیکن جیسے ہی صرف ایک اون کا دھاگہ اس میں نکلتا ہے پھر اس کو مکمل ادھڑ جانے سے کوئی نہیں روک سکتا اسی طرح سے حکومتیں ہوتی ہیں جو بظاہر تو بہت مضبوط دکھائی دے رہی ہوتی ہیں لیکن وہ بھی صرف ایک اون کی دھاگے کے ادھڑنے پر کٹکی ہوتی ہیں جیسے ہی ایک دھاگہ ادھڑ ا مضبوط سے مضبوط حکومت دھڑ سے چاروں خانے چت ہو جاتی ہے حکومت کا دھاگہ اس کی غلطی ہوتا ہے۔ جی ہاں صرف ایک غلطی سے مضبوط حکومتیں گھر چلی جاتی ہیں کیونکہ اس ایک غلطی کو صحیح کرنے کے لیے وہ دوسر ی غلطی کرتے ہیں پھر تیسر ی پھر چوتھی اور پھر لگا تار غلطیوں پہ غلطیاں۔ اور اس کے بعد ختم شد ان کا مقدر بن جاتاہے۔

سیاست، حکومت اور زندگی میں کبھی بھی غلطی کی گنجا ئش نہیں ہوتی کیونکہ آپ دراصل شیشوں پر چل رہے ہوتے ہیں ذرا سا پائوں بہکا اور شیشہ آپ کے پائوں کے اندر ہوتا ہے اور جب آپ اس کو نکالنے کے لیے نیچے جھکتے ہیں تو آپ کبھی بھی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اور دھڑام سے شیشوں کے اوپر اوندھے منہ گر جاتے ہیں اور اپنے سارے بدن کو زخمی کر لیتے ہیں کہتے ہیں جھوٹ بول کر جیتنے سے بہتر ہے کہ سچ بول کر ہار جائیں۔

جرمنی کا ایک آدمی 25 سال کی عمر میں زندگی سے اتنا بیزار ہو گیا کہ سوائے خودکشی کے اسے کوئی اور ذریعہ نجات نہ سوجھا اسے محبت میں ناکامی ہوئی تھی اس نے خود کشی کا ایک باوقار طریقہ اختیار کیا جس کا ذکر جرمنی کی تاریخ میں بھی آتا ہے۔ جرمنی کے ایک بادشاہ اوتو نے ایک لڑائی میں شکست کھائی تو اپنا خنجر دل میں گھونپ کر خودکشی کر لی تھی جرمنی کے اس 25 سالہ نو جوان نے ایک خوبصورت دستے والا چمکتا دمکتا خنجر خریدا اور رات کو اپنے پاس رکھ کر لیٹ گیا کہ لیٹے لیٹے خنجر اپنے دل میں اتار لے گا اس نے خنجر کی نوک دل کے مقام پر رکھی تو اس کی ہمت جواب دے گئی کہ وہ خنجر اپنے دل میں اتنا گہرا نہیں اتار سکے گا کہ وہ مرجائے وہ دراصل موت سے ڈر گیا تھا۔

اس نے خنجر پھینک دیا اور ساتھ مایوسیاں بھی ذہن سے نکال پھینکیں اور زندہ رہنے کا تہہ کر لیا وہ زندہ رہا اور علم و ادب کی دنیا میں اتنا مشہور ہو ا کہ ساری دنیا میں شہرت پائی اس کا نام گو ئٹے تھا۔ اگر وہ خودکشی کر لیتا تو وہ اسی رات گمنام مر جاتا اور آج زندہ نہ ہوتا اس ’’اگر‘‘ نے گوئٹے کا بہت ساتھ دیا لیکن بد قسمتی سے ہم گوئٹے کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے۔

اگر قائداعظم کا انتقال جلد نہ ہوتا تو ظا ہر ہے آج ہمیں جن عذابوں جن حالات اور جن سیاست دانوں کا سامنا ہے وہ بالکل نہ ہوتے بلکہ ہم بالکل یکسر حالات و واقعات میں ترقی، خوشحالی، آزادی، روشن خیالی کے دامن میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہوتے نہ قرار داد مقاصد منظور ہوئی ہوتی جس نے ہماری نظریاتی سر حدوں میں بارودی سرنگ کا کام کیا نہ ہی غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے ذہنی و جسمانی مریض طاقت حاصل کر سکتے تھے۔ نہ ہی ایوب خان مارشل لاء لگا سکتے تھے اور نہ ہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن سکتا تھا نہ ابن الوقتوں، مفاد پرستوں اور انتہا پسندوں کی چاندی ہو سکتی تھی۔

ظاہر ہے اگر قائد اعظم کو وقت مل جاتا تو ادارے مضبوط و مستحکم ہو چکے ہوتے اور حقیقی جمہوریت پروان چڑھ چکی ہوتی ہمارے رویے اور سو چ و فکر جمہوری ہو چکی ہوتی۔ معاشرے میں برداشت، رواداری، سماجی و معاشی انصاف کا بول بالا ہوتا۔ اور سیاست دانوں میں میچورٹی اور اس پائے کی عقل و دانش ہوتی جو ہمیں جو دیگر جمہوری ممالک کے سیاست دانوں میں نظر آتی ہے۔ پاکستان کے لوگ ایک قوم میں تبدیل ہو چکے ہوتے لیکن افسو س صد افسوس اس اگر نے ہمارا کبھی بھی ساتھ نہیں دیا ہم قسمت کے تو مارے ہیں لیکن اس اگر کے مارے ہوئے زیادہ ہیں آج جب ہم ملک کے حالات پر نظریں دوڑاتے ہیں تو نظر یں شرمندہ ہو جاتی ہیں اور جب ہم اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا حال دیکھتے ہیں اور ان کی عقل و دانش سوچ و فکر کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو عقل مارے حیرت کے دنگ رہ جاتی ہے۔

اگر ملک میں جمہوری کلچر فروغ پا لیتا اور ہمارے روئیے اور سو چ جمہوری ہو گئے ہوتے اور عوام کی عدالت کو سب سے بڑی عدالت تسلیم کر لیا جاتا اور ا س کے فیصلوں کا سب احترام کر رہے ہوتے ملک میں تمام فیصلے میرٹ پر ہو رہے ہوتے تو آج جو سیاست دان بڑے بڑے اعلیٰ عہدوں اور مرتبوں پر براجمان ہیں ان میں سے ایک بھی آپ کو نظر نہیں آ رہا ہوتا کیونکہ یہ سب کے سب حضرات کونسلر بننے کے لائق اور قابل بھی نہیں ہیں۔ دنیا کے بر خلاف جس طرح سے اعلیٰ عہدوں اور رتبوں کی بے حرمتی پاکستان میں ہو رہی ہے اس کی دنیا میں مثال ملنا ناممکن ہے۔

لیکن یہ صرف ایک سچ ہے دوسرا سچ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام قائد اعظم کی جلد وفات کے بعد سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھتے رہے خاموش، لا تعلق اور بت بنے رہے اس کا فوری جواب یہ دیا جا سکتا ہے طا قت کے سامنے عوام نے خاموشی اور لاتعلقی میں ہی اپنی خیر اور عافیت جانی تو معاف کیجیے گا تماشائیوں، خاموش رہنے والوں اور گونگے، بہرے اور اندھے بنے رہنے والوں کے حقوق نہیں ہوا کرتے، وہ ہمیشہ بے اختیار، مفلس، لاچار، غریب، بدحال اور غلام ہی رہتے ہیں اگر دنیا بھر کے لوگوں کی ہماری جیسی ہی سو چ ہوتی تو دنیا بھر کے تمام خو شحال اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کا بھی وہ ہی حال ہوتا جو آج ہمارا حال ہے ۔

اگر سیاست دان، بیوروکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دار، مجرم ہیں تو ساتھ ساتھ خاموش تماشائی، لاتعلق بنے عوام بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں۔ دوسروں پر الزامات لگا کر ہم خود بری الزمہ ہرگز نہیں ہو سکتے صرف رونے سے دہائیاں دینے سے خود ترستی سے ہم اپنے خلاف بنے مقد مے میں بری نہیں ہو سکتے، اکثریت کی خا موشی اور لا تعلقی کی وجہ سے ہی ایک چھوٹی سے اقلیت ملک کے وسائل پر قابض ہو گئی ہے۔ پاکستان برے لوگوں کی وجہ سے برا نہیں ہے بلکہ شریف لوگوں کی خا موشی کی وجہ سے برا بنا ہوا ہے۔

سقراط کہتا ہے کہ مصیبتیں اور بیماریاں اتنی خطر ناک نہیں ہوتیں جتنی بزدلی اور کم ہمتی کی وجہ سے نظر آتی ہیں ملک کی اکثریت جب تک اپنی خاموشی نہیں توڑے گی اور لا تعلقی ختم نہیں کریگی اس وقت تک آپ کے اور میرے نصیب بدلنے والے نہیں ہیں۔ اسے اپوزیشن کی خوش قسمتی کہیں یا حکمرانوں کی بدقسمتی سچ یہ ہے کہ حکمران غلطیوں پر غلطیاں کر رہے ہیں وقت تیز ی سے ان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے ملک کے عوام پردہ گرنے کی منتظر ہیں۔ دیکھیں آخر ی سین کے بعد کون ہنستا ہے اور کون روتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔