خبریں بھی تعاقب کرتی ہیں

نصرت جاوید  بدھ 2 جولائی 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کسی رپورٹر کو بیٹھے بٹھائے کوئی بہت بڑی خبر اسے درست ثابت کرنے والی دستاویزات کے پلندے سمیت مل جائے تووہ پنجابی فلموں میں دکھائے جانے والے جٹ کی طرح ’’وحشی‘‘ بن جاتا ہے۔ بطور رپورٹر میری زندگی کے پہلے دس برسوں میں مجھے اس حوالے سے ’’وحشی‘‘ بن جانے کے کئی مواقع ملے۔ پھر یوں ہوا کہ میرے چند انتہائی معتبر ساتھیوں نے مجھ سے استادانہ شفقت سے یہ پوچھنا شروع کردیا کہ خود کو پھنے خان نوعیت کا رپورٹر سمجھتے ہوئے میں نے کبھی اکیلے میں اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ لوگ کوئی بہت بڑی خبر پھوڑنے کے لیے دستاویزات کے پلندے سمیت مجھ سے ہی کیوں رجوع کرتے ہیں۔ ’’تم میں ایسی کون سی گیدڑ سنگھی پائی جاتی ہے؟‘‘

ایسے سوالات کا کوئی فوری اثر تو نہ ہوا مگر تنہائی کے لمحوں میں اکثر میرے ذہن میں ان کی بازگشت ضرور کھد بدکرنا شروع کردیتی۔ بتدریج اس حقیقت کو ماننا ہی پڑا کہ شیر کی طرح رپورٹر کو اپنا شکار خود کرنا چاہیے۔ سوالات کسی بھی موضوع پر آپ کے اپنے ذہن میں اٹھیں تو بالکل جائز اور اس کے بعد پیشہ ورانہ تقاضا بنتا ہے تو صرف اتنا کہ آپ کے ذہن میں آنے  والے سوالات کا متعلقہ موضوع سے جڑے تمام ممکنہ فریقین سے رابطہ کرنے کے بعد صرف سچ کو ڈھونڈا جائے۔

اسلام آباد ویسے بھی بڑا ظالم شہر ہے۔ یہاں دُنیا بھر میں مشہور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کئی نمایندے بھی رہائش پذیر ہیں۔ ان کے بڑے بڑے گھر ہیں جن کے شاہانہ ڈرائنگ روموں میں روزانہ کاروباری اور ریاستی امور سے تعلق رکھنے والی بڑی بڑی ہستیاں سورج ڈھلنے کے بعد سے رات گئے تک آتی جاتی رہتی ہیں۔ ایسے طاقتور اور کھلے دل والے میزبانوں کو مجھ ایسے دو ٹکے کے رپورٹر کو ’’نصرت بھائی، نصرت بھائی‘‘ کی عاجزانہ گردان کرتے ہوئے اپنے ہاںمدعو کرنے کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ امریکا والے ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ There is no free lunch in the USA۔

اصل یہ بات ہے کہ اربوں کروڑوں روپوں کا کوئی بہت بڑا ٹھیکہ یا دھندا ہوتا ہے۔ اس کے حصول کے لیے فرانس، جرمنی، جاپان وغیرہ وغیرہ کی بڑی بڑی کمپنیاں کئی مہینوں سے دن رات ایک کیے ہوتی ہیں۔ پھر یہ ٹھیکہ اس مرحلے میں پہنچ جاتا ہے جسے Shortlistingکہا جاتا ہے۔ آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ بالآخر دو یا تین مخصوص کمپنیوں میں سے کسی ایک کو یہ کام ملے گا۔ عام طور پر فرض یہ بھی کرلیا جاتا ہے کہ کمپنی بالآخر وہ کامیاب ٹھہرے گی جس نے سب سے کم قیمت کی بولی لگائی ہے۔ اس موقعہ پر وہ کمپنیاں جنہوں نے ذرا زیادہ قیمت لگائی ہوتی ہے یہ بات ثابت کرنے کو متحرک ہوجاتی ہیں کہ اصل میں سب سے کم نرخ بتانے والے کا مال میٹریل ’’دونمبر‘‘ کا ہے۔

اسی ’’دونمبری‘‘ کی وجہ سے اسی کمپنی کو فلاں فلاں ملک نے بلیک لسٹ بھی کر رکھا ہے۔ کسی کمپنی کو ’’دونمبر‘‘ ثابت کرنے والی کہانی کچھ اتنی بھی غلط نہیں ہوتی۔ اسے کسی بھی عدالت میں ثابت کرنے کے لیے مناسب دستاویزات بھی موجود ہوتی ہیں۔ میرے جیسا رپورٹر ان ہی دستاویزات کو دیکھ کر ’’وحشی‘‘ بن جاتا ہے اور اپنے غریب ملک کے ’’قومی سرمایے‘‘ کو بچانے کے لیے میدانِ جنگ میں کود پڑتا ہے۔ ہمارے لوگوں کو غیبت ویسے بھی بہت اچھی لگتی ہے۔ رپورٹر کا کام لہذا اس وقت مزید آسان ہوجاتا ہے اگر Shortlistہونے والی کمپنی کا کوئی پاکستانی نمایندہ کسی وزیر شذیر کا قریبی رشتے دار یا دوست بھی رہا ہو۔ ’’کرپشن‘‘کی ایک بھرپور کہانی بن جاتی ہے اور رپورٹر کی واہ واہ۔

اپنے حصے کی ’’واہ واہ‘‘ میں کافی کرواچکا ہوں۔ اسی لیے ان دنوں گوشے میں قفس کے آرام سے دبکا اپنے حصے کی دہی کھاتا رہتا ہوں۔ مگر جیسے کچھ لوگوں کے ماتھے پر ایک مقبول محاورے کے مطابق ’’حرام لکھا‘‘ ہوتا ہے، کوئی بہت ہی بڑی خبر نجانے کیوں گویا تعاقب کرتے ہوئے مجھ تک خود بخود پہنچ جاتی ہے۔

اس لمبی تمہید کے بعد ’’مُکدی گل‘‘یہ ہے کہ افتخار چوہدری صاحب جن دنوں سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر1میں بیٹھے پورے ملک میں تھرتھلی مچا رہے تھے تو مجھ سے ایک صاحب نے رابطہ کیا۔ میں انھیں جانتا بھی نہیں تھا لہذا تفصیلی تعارف کے بعد انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ ایک بہت بڑی خبر چھپوانے نہیں بلکہ ’’رکوانے‘‘ کے لیے مجھ سے ملنا چاہ رہے ہیں۔ بڑی عاجزی سے میں نے انھیں سمجھایا کہ کوئی نہ کوئی خبر چلادینا تو شاید اب بھی میرے بس میں ہے مگر خبر ’’رکوانا‘‘ میرے مرتبے سے بہت ہی اوپر والوں کے نصیب میں لکھا گیا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں میڈیا بہت ہی آزاد اور مستعد ہوچکا ہے۔ اگر کوئی واقعی بڑی خبر ہے تو ایک نہ ایک دن کسی نہ کسی اخبار یا ٹیلی وژن نیٹ ورک پر آکر رہے گی۔ فون پر یہ سب کچھ سمجھانے کے بعد اپنے تئیں میں نے اس بڑی خبر سے جند چھڑا لی۔

مگر چند ہی دنوں بعد میرے بھائیوں جیسے ایک دوست نے مجھ سے رابطہ کیا اور تنہائی میں ان سے جلد از جلد ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں ان کے ہاں پہنچا تو بڑی پریشانی اور رازداری برقرار رکھنے کے بارہا عہد لینے کے بعد انھوں نے میرے سامنے ایک بڑی موٹی فائل رکھ دی۔ وہ فائل ارسلان افتخار کے بارے میں تھی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا تو ایک چٹ پٹی کہانی بنانے کے اس فائل میں تمام امکانات موجود پائے۔ مگر میرے دوست نے پارسائی فروشی کے حوالے سے معروف ایک بہت بڑے صحافی کا نام لے کر بتایا کہ یہ فائل اس کے پاس کئی دنوں سے موجود ہے۔

مسئلہ اب یہ ہے کہ اس صحافی تک پہنچنے کا کوئی ایسا ذریعہ بتایا جائے جو اسے یہ کہانی لکھنے سے باز رکھ سکے۔ فروغ پارسائی کے علم بردار اس صحافی کا نام سن کر میں صرف مسکرا دیا اور بس اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ اس فائل کو اس صحافی تک پہنچانے والے کے کچھ اپنے مقاصد رہے ہوں گے۔ معاملہ دو ہاتھیوں کے درمیان جنگ کی صورت بنتا نظر آرہا ہے اور مجھے اس جنگ کو رکوانے یا اس پر تیل چھڑک کر بڑھکانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وجہ اس کی وہی گوشے میں قفس کے آرام سے دبک کر اپنے حصے کی دہی کھاتے رہنا ہے۔ بہرحال بالآخر وہی فائل جو مجھے دکھائی گئی تھی بھونچال کی صورت ایک بڑی خبر بن کر پوری دنیا کے سامنے آگئی۔ پھر ’’پسرنوح‘‘ اور “Don” وغیرہ کے ٹی وی ڈرامے شروع ہوگئے۔

حاصل وصول مگر آخر میں کچھ نہ ہوا۔ صرف چند صحافیوں کو اس پورے قضیے کے نتیجے میں ہزار ہا طعنے ملے۔ ان طعنوں سے تنگ آکر میرے چند بہت ہی پیارے ساتھی ’’ارسلان کے ابو‘‘سے اپنے اور دوسرے نیک نام صحافیوں کے لیے Good Conductکے سرٹیفیکیٹ لینے پہنچ گئے۔ قصہ تمام ہوا۔ ارسلان افتخار مگر اب پھر خبروں میں گج وج کر واپس لوٹ آئے ہیں۔ ریکوڈک ہے اور وہاں کی زمین کی تہوں میں چھپا پتہ نہیں کتنا سونا اور دیگر قیمتی معدنیات وغیرہ۔ 18ویں ترمیم ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر مالک کی ساری سیاست بلوچستان کے ’’ساحل اور دیگر وسائل‘‘ کو Sons of Soilکے لیے بچانے کی نظر ہوئی ہے۔ وہ جانیں اور ان کا کام۔ میرے لیے تو گوشے میں قفس والی دہی بہت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔