رمضان اورمنافع خوری کی لت

رئیس فاطمہ  بدھ 2 جولائی 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

مبارک ہو! رمضان پوری آب و تاب اور توانائی سے ہمیشہ کی طرح پھر شروع ہوگیا ہے۔ ہر طرف اس کے بابرکت جلوے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ٹی وی چینلنز کیسی کیسی پرنور شخصیات آنکھوں میں عقیدت کا پانی لیے نعمتوں کے گلہائے رنگا رنگ بکھیرتی نظر آتی ہیں۔

اخبارات میں زکوٰۃ، خیرات، صدقات کے عطیے کے حصول کے لیے بڑے بڑے اشتہارات، بڑے بڑے اداروں اور لوگوں کی جانب سے لگے بھی دیکھے جاسکتے ہیں، بازار جگمگا رہے ہیں، تاجروں اور منافع خوروں کی لاٹری نکل آئی ہے کہ شیطان مردود اس ماہ مقدس میں قید کردیا جاتا ہے۔ لیکن اس شیطان مردود کی کارروائیاں اپنے بھائی بندوں کے لیے مسلسل جاری رہتی ہیں بالکل اسی طرح جیسے انتہائی طاقت ور، خوفناک، خطرناک مجرم جہل کی سلاخوں کے پیچھے سے دہشت گردی کا پورا نیٹ ورک جیل خانے کے افسران اور عملے کی ملی بھگت سے چلاتا ہے۔

کیا کہنے ہیں ’’رمضان فیسٹیول‘‘ کی فیوض و برکات کے۔ ہر طرف خوشحالی ہے، اس منافع بخش فیسٹیول سے پہلے، گرما جو چالیس روپے کلو بک رہا تھا، یکایک 80 روپے کلو ہوگیا، یہی حال دیگر پھلوں اور اشیائے خورونوش کا ہے کہ قیمتیں یک دم آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں لوگ قیمت پوچھ کر حیران پریشان آگے بڑھ جاتے ہیں، پھل فروش مسکرا کر کہتا ہے ’’بھائی! خرید نہیں سکتے تو پوچھتے کیوں ہو؟ تمہاری تو اوقات ہی نہیں ہے کچھ خریدنے کی کہ تم تنخواہ دار ہو، مڈل کلاس کے ہو۔‘‘

جب خریدار پھل فروش کی عیارانہ مسکراہٹ کے اندر چھپے طنز کے نشتر کو محسوس کرتا ہے تو بے انتہا کہہ اٹھتا ہے ’’ٹھیک ہے بھائی! پاکستان تمہارے جیسے منافع خوروں ہی کے لیے تو بنا ہے۔‘‘ دو چار کھری کھری اور بھی سنا دیتا ہے۔ تب پھل فروش تیر کی طرح سیدھا ہوجاتا ہے اور مسکین لہجے میں کہہ اٹھتا ہے ’’بھائی! ناراض نہ ہو، ہم کیا کریں؟ پولیس والے دن میں تین مرتبہ ہر ٹھیلے سے سو سو روپے لے کر جاتے ہیں، یعنی ہر ٹھیلے والا روزانہ 300 روپے پولیس کو بھتہ دیتا ہے تاکہ وہ ہمیں معروف شاہراہوں اور چوراہوں کے پاس ٹھیلا لگانے دیں، اس لیے ہم مہنگا بیچنے پہ مجبور ہیں۔‘‘

نظیر اکبر آبادی وہ پہلے ہندوستانی شاعر تھے جن کی شاعری اپنی مٹی سے جڑی تھی۔ خصوصاً ان کی وہ نظمیں جو ہولی، دیوالی، عید، بقر عید، میلوں، موسم اور عام آدمی کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک نظم ہے ’’برسات کی بہاریں‘‘۔ اس کا ٹیپ کا بند ہے

کیا کیا مچی ہیں یاروں‘ برسات کی بہاریں

بس اس میں برسات کی جگہ ’’رمضان‘‘ رکھ لیجیے اور اس طرح پڑھیے:

کیا کیا مچی ہیں یاروں ’’رمضان‘‘ کی بہاریں

تو مفہوم رمضان فیسٹیول کا اور بھی واضح ہوجاتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ اس مہینے میں جتنی ذخیرہ اندوزی، چوربازاری، منافع خوری اور غیر معیاری اشیا کی فروخت ہوتی ہے اس کی مثال کسی اور جگہ نہیں ملتی کیونکہ یہ برکتوں کا مہینہ ہے۔ لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ اس ماہ کی برکتیں تمام کی تمام صرف منافع خوروں اور بہروپیوں ہی کی جیبوں میں کیوں جاتی ہیں؟ اور تو اور حکومت بھی ہمیشہ عوام کی جیبوں پر ہی ڈاکہ ڈالتی ہے کبھی زلزلہ اور سیلاب سے متاثرین کے لیے، کبھی قرضہ اتارنے اور ملک سنوارنے کے لیے، کبھی کسی اسپتال کی تعمیر کے لیے، کبھی بے گھر افراد کی بحالی کے لیے اور اس دفعہ آئی ڈی پیز کی مدد کے لیے۔

ہمیشہ عوام ہی سے مدد کی اپیل کی جاتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے خاندانوں کی بحالی میں مصروف رہتی ہیں۔ پنکچر لگانے والے موجود رہیں تو غم کاہے کا۔ پوری قوم کے لیے فلاحی پروگراموں میں وقت اور پیسہ برباد کرنے کے بجائے ’’بازار غلاماں‘‘ میں نیلام ہونے والوں کو منہ مانگی قیمت پہ خرید کر خود بھی مال بناؤ اور انھیں بھی فیض پہنچاؤ کہ جب سے زبانوں پہ مہر لگی ہے سچ کہنا اور لکھنا گردن زدنی ٹھہرا ، تو عام آدمی کی تکلیف کا خیال کون کرے اور کیوں کرے؟

کرسمس کے موقعے پر امریکا، برطانیہ اور کینیڈا میں 50فیصد سے لے کر 75 فیصد تک رعایتی سیل لگتی ہے تاکہ کوئی بھی عیسائی کرسمس منانے سے محروم نہ رہ جائے اپنے پاکستانی جو وہاں آباد ہیں۔ دسمبر ہی کے مہینے میں خریداری کرتے ہیں کہ وہاں یہ پابندی نہیں ہے کہ کرسمس کی رعایتی سیل صرف مسیحی برادری کے لیے ہے۔ پاکستانی اپنے استعمال کی تمام اشیا کی خریداری دسمبر ہی میں کرتے ہیں، ان میں بھارتی اور دیگر ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔ بھارت میں ہندو دکاندار رمضان المبارک میں کھانے پینے کی اشیا سستی کردیتے ہیں، صرف جائز منافع ہی وصول کرتے ہیں۔

اور ادھر ہم ہیں کہ بظاہر ہرطرف رمضان کی بہاریں ہیں لیکن ذرا اس عام آدمی سے پوچھیے جو آٹھ سے دس گھنٹے کام کرتا ہے۔ مہینے پہ تنخواہ لیتا ہے۔ اس کے نصیب میں رمضان کی برکتیں ہیں نہ عید کی بہاریں۔ اس کے دن رات تو کولہو کے بیل کی طرح ہیں۔ اوپر سے آئے دن کی ہڑتالیں اور سوگ، سرکاری ملازم کو تو اختیاری چھٹی (Casual-Leave) کی سہولت حاصل ہے لیکن نجی اداروں میں ایک تو ہر وقت ملازمت سے نکالے جانے کا ڈر اور دوسرے ہڑتالوں کے دوران تنخواہ کی کٹوتی کی تلوار گردن پہ لٹکتی رہتی ہے۔ ابھی تو مقدس مہینہ شروع ہوا ہے۔ عید تک کیسی ہوش ربا گرانی ہوگی؟ کیسی دہشت گردی ہوگی، اس کا تصور اس سے کیجیے کہ مسجدوں میں نمازیں، بندوق برداروں کی حفاظت میں ادا کی جا رہی ہیں۔ گویا تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والے اب کلاشنکوف کے سائے میں سربسجود ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔