مُلا عمر کی طاقت کاراز

اسلم خان  جمعـء 21 ستمبر 2012
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

آج کے افغانستان میں قیام امن اور اتحادی افواج کے محفوظ انخلاء کے لیے ایک شخص ناگزیر ہو چکا ہے۔ ملا عمر مجاہد، کل کا مجاہد اور آج کا مفرور دہشت گرد —- افغانستان میں امن کی کنجی اس کے ہاتھ میں ہے۔

وہ امن جس کی تلاش میں امریکی اب دُنیا بھر کی خاک چھان رہے ہیں کہ قدرتی وسائل سے مالا مال افغانستان اُن کے لیے سونے کی چڑیا بن چکا ہے جہاں وہ ہر قیمت پر امن چاہتے ہیں لیکن انھیں کوئی معتبر ضامن نہیں مل رہا۔ رُوپوش ملا عمر گذشتہ دس برس سے بڑی کامیابی کے ساتھ اتحادی افواج کے خلاف عَلم جہاد بلند کیے ہوئے ہیں۔

گزشتہ دس سال سے روپوش ملا محمد عمر کی اصل طاقت کیا ہے ،یہ بات، یہ رازذہین امریکیوں کو سمجھ نہیں آ رہا ، افغانوں کی غالب اکثریت ایک روپوش رہنما کی قیادت پر کیسے متفق ہے اور امن کی کنجی ملا عمر کی مٹھی میں کیسے بند ہے؟اس پر اسرار معاملے کا تعلق سُنی اکثریت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے فلسفہ ِبیعت سے ہے۔

بیعت کی شرعی حیثیت اور اہمیت کے بارے میں سطحی علم رکھنے والے اس اخبار نویس کو کمانڈر جلال الدین حقانی نے حقائق سے آگاہ کیا تھا۔ کون جلال الدین حقانی؟ جناب والا، کوئی اور نہیں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی، آج امریکا کا سب سے مطلوب ملزم۔ طالبان حکومت میں سرحد ی امور کے وزیر اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف جلال الدین حقانی۔

جن کے خوست میں قائم مرکز میں اس خاکسار کو چند ہفتے گذارنے کا موقع ملا تھا۔ یہ امریکی حمایت یافتہ جہاد افغانستان کا سنہرا دور تھا۔ ہم سرخ فوج کو دریائے آمو کے اُس پار دھکیلنے کے لیے سر دھڑکی بازی لگا رہے تھے۔ مدتیں بیت گئیں، سیاہ بال سفید ہوئے، وقت کے ساتھ ساتھ جوش و خروش مدہم پڑنے لگا، جہاد افغانستان کے علاقائی اور عالمی زاویے آشکار ہوئے تو پتہ چلا کہ سِر ے سے یہ کوئی جہاد نہیں تھا۔

عالمی طاقتوں کی بالادستی کی جنگ میں ہم امریکی پیادے تھے۔ حقائق کی بے رحم دھوپ نے سب خواب، سب خیال پریشان کر دیے اور یہ اخبار نویس امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے فلسفے اور عالمی جہاد کی برکات کے دل فریب نعروں اورخوش کن ترانوں کو بھلا کر روٹی روزی کے چکر میں پڑ گیا اور زندگی کا دھارا فطری رفتار سے بہنے لگا۔

ایک دہائی قبل جمعہ،19 اکتوبر 2001کو فجر کی نماز کے بعد خلاف معمول میرا فون جاگ اُٹھا۔ دوسری طرف کوئی اجنبی کھردرے لہجے میں پوچھ رہا تھا آپ کون ہو؟ تصدیق کے بعد کہ وہ مطلوب شخص سے ہی مخاطب ہے بلا تمہید کہنے لگا ’’کماندان صاحب نماز جمعہ کے بعد تمہارے گھر چائے پینا چاہتا ہے‘‘ کون کماندان؟ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا، اس نے وضاحت کی، تفصیل بتلائی۔ کماندان! شاید پشتو میں کمانڈرکوکہتے ہیں۔

کامل 14 برس بعد اچانک میرا کمانڈر، اپنے پیدل سپاہی (Foot Soldier) کو شرفِ باریابی بخش رہا تھا۔ وہی جلال الدین حقانی جس کی شان میں امریکی صد ریگن قصیدے پڑھتا تھا۔ جس نے وائٹ ہائوس مدعو کر کے اُسے آزاد دُنیا کا محافظ اور آزادی کا سپاہی قرار دیا تھا۔ لیکن وہی جلال الدین آج امریکا کا مفرور ملزم اور دہشت گرد ہے۔ جس کی زندہ یا مردہ گرفتاری کے لیے لاکھوں ڈالر انعام مقرر ہے۔

یہ وقت کی کرشمہ سازی ہے کہ کبھی کبھار دوست دشمن اور دشمن دوست بن جایا کرتے ہیں۔ انھی تفکرات کے ہجوم میں گھرا، خوشی اور غم کی متضاد کیفیات سے دوچار، یہ غریب اخبار نویس تذبذب کا شکار تھا۔ دن چڑھے اپنے مہمان کے اہلکاروں سے رابطہ کیا۔ عرض کی میں خود کمانڈر صاحب کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہونا چاہتاہوں۔

وہ زحمت نہ کریں۔ اوہام اور خدشات کی یلغار تھی۔ سوچ رہا تھا کہ اگر پاکستانی خفیہ اداروں نے میرے گھر پر دھاوا بول دیا تو کیا ہو گا اگر امریکیوں کو حقانی صاحب کے بارے میں ہوا لگ گئی تو ان کی سلامتی کی ضمانت کون دے گا، رابطہ کار نے واضح کر دیا کہ کمانڈر صاحب کی سلامتی کی ذمے داری مجھ پر عائد نہیں ہو گی۔

مجھے صرف ریکارڈنگ کے لیے (Two Way Sound System ) والے پروفیشنل وڈیو کیمروں کا انتظام کرنا ہو گا۔ ابھی بے لگام اور مادر پدر آزاد نیوز چینلز کا آغا ز نہیں ہوا تھا۔ جہاں نوآموز، نیم خواندہ اور نا تجربہ کار لونڈے لپاڑے سر شام سیاستدانوں کو مرغوں کی طرح لڑاتے اور اپنی ریٹنگ بڑھاتے ہیں۔ برادرم آصف خاں سے شناسائی تھی، اس مشکل کا بتایا تو انھوں نے لمحوں میں حل پیش کر دیا۔

راز داری اس کھیل کا جزو اعظم تھی۔ شبیر فوٹو گرافر ایک مقامی روزنامے میں میرے ساتھ رہا تھا۔ اُسے راز داری سے گھر پر آنے کو کہا۔ اس دن میں حقیقی معنوں میں خوف اور احساس خوف سے آشنا ہوا۔ ایک ہی سوچ نے مفلوج کر رکھا تھا کہ اگر کچھ غلط ہو گیا، کوئی انہونی ہو گئی تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔ جس کے بعد فیصلہ کیا کہ چند اخبار نویس دوستوں کو زحمت دوں تا کہ احساس ذمے داری کا کچھ بوجھ ہلکا ہو سکے۔

نجی شعبے میں کام کرنیو الے خبررساں اداروں سے شہرت پانے والے جاوید قریشی، سندھی اخبار نویس ریاض شاہد اور سیاست کی بھینٹ چڑھ جانے والے ماضی کے شاندار رپورٹر عظیم چوہدری سمیت متعدد دوستوں کو پُر تکلف چائے ( Hi-Tea ) پر ایک اہم مہمان سے غیر رسمی ملاقات کی دعوت دی۔ جلال الدین حقانی کا عملہ میرے گھر کی ریکی کر چکا تھا کیونکہ جب انھیں راستے کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو انھیں پہلے سے سب علم تھا۔

وقت مقررہ پر جلال الدین حقانی اپنے بیٹے سراج اور چند دیگر افراد کے ہمراہ تشریف لائے۔ مدتیں بیت چکیں لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وفاقی دارالحکومت کا ایک اُبھرتا ہوا صنعتکار، جو اب وزارت داخلہ کا اہم منصب دار اور پارلیمان کا رُکن بن چکا ہے۔ اُن کے ہمراہ تھا۔

حقانی صاحب نے چند لمحے خوست کے مرکز کی یادیں تازہ کیںکہ شائستہ کلام افغان اسی طرح اپنے میزبانوں کی توقیر کرتے ہیں اور پھر بتانا شروع کیا کہ وہ افغان عبوری انتظامیہ کے وزیر خزانہ ہدایت امین ارسلا سے مذاکرات کے لیے اسلام آباد آئے تھے اور اب سہ روزہ ناکام مذاکرات کے خاتمے پر وہ واپس جا رہے تھے لیکن وہ پاکستان کی سر زمین پر امریکا کے خلاف باضابطہ گوریلا جنگ شروع کرنے کا اعلان کرنا چاہتے تھے۔

جس کے لیے اُنہیں مدتوں بعد اپنا یہ بھولا بسرا سپاہی یاد آیا تھا۔ جس کے ہاتھ میں اب بندوق نہیں، قلم تھا۔ پاکستان کے کثیر الاشاعت انگریزی اخبارکا وقایع نگار خصوصی جو بیک وقت مشرق وسطی کے سب سے بڑے اخبار ’’ گلف نیوز‘‘ کے لیے بھی کام کر رہا تھا۔

جلال الدین حقانی نے بتایا کہ کٹھ پتلی انتظامیہ نے انھیں تین ولایتوں (صوبوں) کا مکمل انتظام اور افغان فوج کا سربراہ بنانے کی پیش کش کی ہے ’’میرے پاس انکار کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیںتھا‘‘ پس معذرت کر لی۔ آپ نے ایسا کیوں کیا، روشن مستقبل، طاقت اور اختیار، آخر آپ اور کیا چاہتے ہیں؟ بوڑھے اور جہاں دیدہ گوریلا کمانڈر نے شائستہ اور نرم لہجے میں جواب دیا۔

صرف اپنے رب کی رضا، توشہ آخرت اور شافع محشر ﷺ کے دربار میں سرخروئی چاہتا ہوں، بوڑھا آدمی ہوں اور کتنے برس جی لوں گا، میں آخر ِشب، اپنی آخرت کیوں خراب کروں۔ (امیر المومنین ملا عمر) محمد عمر کے ہاتھ پر کی گئی شرعی بیعت کیسے توڑوں، میں واپس جا رہا ہوں، سفاک امریکیوں سے لڑنے۔ میں نے دنیا سے منہ موڑ لیا ہے، اب آخرت میری منزل ہے۔

دُنیا کا فکر تمہارے جیسے نوجوان کریں اور پھر اپنے جواں سال بیٹے سراج الدین حقانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’میں نے سراج کو اپنے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ یہ اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے میں کلی طور پر آزاد ہے اور پھر انھوں نے شرعی بیعت کے اسلامی فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے انکشاف کیا کہ سوویت سرخ فوج کے خلاف جہاد کے دوران مُلا محمد عمر میری کمان میں عام سپاہی کے طور پر لڑا تھا۔

پھر وقت بدلا، حالات تبدیل ہوئے اور میں نے محمد عمر کے دست حق پرست پر شرعی بیعت کر لی جو آخری سانس تک موثر رہتی ہے۔ جس کو منسوخ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج قرار پاتاہے۔ اب ا س بیعت سے میںکیسے انکار کر سکتا ہوں۔

یہ بیعت میری اور محمد عمر کی زندگی میں ختم نہیں ہو سکتی۔ اس کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ میں یا محمد عمر اپنے قدموں سے پھر جائیں، مرتد ہو جائیں، اسلام سے منہ موڑ لیں۔ ہم یہ کیوں کریں گے۔ میں جا رہا ہوں، آخری سانس تک امریکیوں سے لڑنے کے لیے، یہ میرا حتمی فیصلہ ہے۔

انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ اُسامہ بن لادن سمیت افغان شہریت حاصل کرنے والے تمام عرب جنگجو ئوں نے بھی ملا محمد عمر کی بیعت کر رکھی ہے۔ گفتگو کا یہ حصہ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ تھا۔ آج آپ سے شیئر کر رہا ہوں کہ گزشتہ ایک دہائی میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔

شرعی بیعت کی یہ فلاسفی ملا محمد عمر مجاہد کی اصل طاقت ہے جس کی عالم فاضل امریکی دانشوروں اور ان کے اتحادیوں کی سمجھ نہیں آتی۔ باضابطہ انٹرویو کے آغاز سے پہلے جلال الدین حقانی نے بتایا کہ ہم اُن سے انگریزی میں سوال کریں گے اور وہ عربی میں جواب دیں گے۔

سچی بات یہ ہے کہ فوری طور پر اس کی منطق سمجھ نہیں سکا تھا۔ بعد میں جب ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے دو گھنٹے پر محیط یہ انٹرویو خرید لیا تو بوڑھے دانشمند کی حکمت عملی سمجھ میں آئی کہ عربی ایک مسلمہ عالمی زبان ہے جس سے انگریزی میں ترجمہ معمول کی بات ہے جب کہ اُردو کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ یہ اُن کا آزاد دُنیا سے آخری رابطہ تھا۔

وہی جلال الدین حقانی—– آج امریکیوں کو سب سے مطلوب دہشت گرد ہیں ابھی کل ہی تو حقانی نیٹ ورک کے تمام اثاثے منجمد کیے گئے ہیں۔ ان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈالا گیا ہے۔

ماضی کی درخشندہ یادوں کے بھنور میں اُلجھا تو بے اختیار ایک دوسرے افغان ’’دہشت گرد‘‘ گل بدین حکمت یار یاد آئے جنہوں نے وقتی مصالح اور زمینی حقائق کے برعکس ملا محمد عمر کی شرعی بیعت سے انکار کر دیا تھا اور ان کی اس حق گوئی کی وجہ سے افغان مزاحمتی تحریک کو ناقابل فراموش نقصان پہنچا لیکن حکمت یار چٹان کی طرح ڈٹ گئے۔

کہتے ہیں کہ افغانستان تضادات کی سر زمین ہے جہاں پر امریکی سب سے مطلوب دہشت گرد حقانی نیٹ ورک سے کھلی جنگ کے باوجود اِن سے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھاتے ہیں جب کہ جدید تعلیم یافتہ انجنیئرگل بدین حکمت یار آج بھی شرعی بیعت کے فلسفے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں——– وہی شرعی بیعت جو مُلا محمد عمر کی اصل طاقت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔