- پاکستان میں آن لائن،ڈیجیٹل مالی لین دین میں اضافہ
- وفاق نے 18 ویں ترمیم پرعمل شروع کردیا، ساری وزارتیں ختم کردیں، وزیراعلیٰ سندھ
- 2024 کا نوبل امن انعام ؛ جاپان کی انسدادِ جوہری بم کی تنظیم کے نام
- عمران خان کی بہن سے ملاقات پر پابندی کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
- پیٹرول پمپس، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا منافع مزید بڑھانے کی سمری تیار
- الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر لیگل وِنگ سے رائے طلب کرلی
- اراکین پارلیمنٹ کو اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے کیلیے حتمی تاریخ دیدی گئی
- پی ٹی سی ایل نے پاکستان میں اب تک کا تیز ترین انٹرنیٹ لانچ کردیا
- اربوں کا فراڈ؛ معروف بلڈر، اہلیہ اور ایس بی سی اے کے افسران گرفتار
- کے پی کے گرفتار سرکاری ملازمین کی رہائی کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست
- نمبرز پورے ہیں تاہم حکومت تمام جماعتوں سے مشاورت چاہتی ہے، بلاول بھٹوزرداری
- کے پی ہاؤس ڈی سیل نہ کرنے پر ڈائریکٹر سی ڈی اے کیخلاف توہین عدالت کی درخواست
- آئینی ترامیم پر مشاورت؛ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ختم، ڈیڈلاک برقرار
- ضلع کچھی میں سی ٹی ڈی کی کارروئی، فتنتہ الخوارج کے 3دہشتگرد ہلاک
- پی سی بی نے نئی سلیکشن کمیٹی تشکیل دیدی
- انتظار پنجوتھہ کہاں ہیں کچھ پتا نہیں چلا، اسلام آباد پولیس کا عدالت میں بیان
- بچوں کے جائیداد کیلئے تشدد پر والدین کی پانی کے ٹینک میں کود کر خودکشی
- آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کب تک ہوگا کچھ نہیں کہہ سکتے، فضل الرحمان
- کراچی کے جنوب مشرق میں ہوا کا کم دباؤ؛ ساحلی علاقہ متاثرہونے کا امکان نہیں
- شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے ہٹائے جانے کا امکان
یکم اگست آئین کا عالمی دن
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یکم اگست 2024 ء کو آئین کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے واضح رہے کہ ہمار ا آئین 1973 ء بھی 14 اگست 1973 ء سے نافذالعمل ہوا تھا اور گذشتہ سال یعنی2023 ء کو ہم نے اپنے آئین کی 50 ویں سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی تھی اور بلوچستان یونیورسٹی میں صوبے کی بارہ یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کے درمیان ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے آئین کے موضوع پر ایک تقریری مقابلہ بھی منعقد ہوا تھا جس کے مصنفین میں راقم الحروف اور معروف دانشور شاعر سرور جاوید شامل تھے ۔
آئین کی بلوچستان کے اعتبار سے اہمیت یہ ہے کہ 1935 ء قانون ِ ہند کے بعد جب 1956ء کا پارلیمانی آئین اور 1962ء کے صدراتی آئین ملک میں نا فذالعمل ہوئے تو اِن تینوں دساتیر میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ حاصل نہیں تھا ۔ 1970 ء کے عام انتخابات آزادی کے بعد ملک کے پہلے انتخابات تھے جو پارلیمانی طرز کی نئی دستور ساز اسمبلی کے لیے منعقد ہو رہے تھے ۔
صدر جنرل یحییٰ خان نے 25 مارچ 1969 ء کو صدر محمد ایوب خان کے استعفیٰ کے بعد اقتدار سنبھالا، 1962 ء کا صدارتی آئین منسوخ کر کے مارشل لا نافذ کیا، صدر یحیٰی خان نے لیگل فریم ورک LFO نافذ کیا ، 28 نومبر1969ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ملک میں آئندہ عام انتخا بات 15 اکتوبر1970 ء کو ہوں گے اور اِن انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی اپنے پہلے اجلاس سے 120 دن کے اندر اندر نیا پارلیمانی آئین بنائے گی اور اگر یہ نئی منتخب اسمبلی نیا پارلیمانی آئین 120 دن کے اندر نہ بنا سکی تو اسمبلی تحلیل کر دی جا ئے گی اور نئے سرے سے انتخابات ہوں گے بہر حال اکتوبر 1970 کے انتخابات کے بعد فوراً قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہو سکا اور سیاسی بحران پید اہوا، جو جلد ہی شدت اختیار کرتا چلا گیا جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا۔
20 دسمبر 1972 ء کو نامزد وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو جن کی پاکستان پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل تھی، نیویارک سے فوراً بلوا کر صدر مملکت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر اقتدار اُن کے سپرد کر دیا۔ اُنہوں نے 17 اپریل1972 ء کو ایک عبوری پارلیمانی آئین نافذ کر کے ملک میں پارلیمانی طرز حکومت کو شروع کیا اور بلوچستان جس کو اگرچہ 1970 ء ہی میں صوبہ کا درجہ دیا گیا تھا اور صوبہ کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل ریاض حسین کو نئے صوبے بلو چستان کا پہلا گورنر بنا دیا گیا۔ عبوری آئین 1972 ء کے نفاذ کے بعد بلوچستان میں پہلے وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی نیپ اور جمعیت علما اسلام کی پہلی منتخب مخلوط صوبائی حکومت قائم ہوئی جب کہ قومی سطح پر 1973 ء کے آئین کی تشکیل یا آئین سازی کا عمل شروع ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو نے محمود علی قصوری کی سر براہی میں 25 رکنی آئین ساز کمیٹی بنا دی جس میں ممتاز علی بھٹو، غلام مصطفی جتوئی، عبدالحفیظ پیر زاد، سید قاسم علی شاہ، ڈاکٹر مس اشرف خاتون، غلام مصطفی کھر، ڈاکٹر غلام حسین، بیگم نسیم جہاں، ڈاکٹر مبشر حسین ملک، ملک محمد اختر، معراج خالد ، مولانا کوثر نیازی، خورشید حسن میر، شیخ محمد رشید ، مفتی محمود، میر غوث بخش بزنجو، خان عبدالقیوم خان ، محمد حنیف خان، پروفیسر غفور احمد، احمد نورانی، نعمت اللہ خان شنواری، سردار شو کت حیات خان اور میاں ممتاز دولتانہ شامل تھے ۔
آئین 1973 ء پر اتفاق ہوا اور تمام پارلیمانی جماعتوں کے دس رہنماؤں نے دستخط کر دیئے گئے ۔ دستخط کرنے والوں میں چیرمین پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جماعت کی جانب سے دستخط کئے، قیوم مسلم لیگ کی طرف سے عبدالقیوم خان نے ، نیشنل پارٹی کی جانب سے میر غوث بخش بزنجو اور ارب سکندر خان نے جمعیت علما اسلام کے مولانا مفتی محمود نے، کونسل مسلم لیگ کی جانب سے سردار شوکت حیات نے، جمعیت علماء پاکستان کے مولانا شاہ محمد نورانی نے ، جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد نے، قبائلی علاقوں کی جانب سے میجر جنرل جمال داد خان نے اور آزاد اراکین کی جانب سے سردار شیر باز مزاری نے دستخط کر دئیے۔
10 اپریل1973 ء کوقو می اسمبلی میں حاضر 128 اراکین میں سے 125 اراکین نے آئین 1973 ء کی منظوری دے دی، پھر اسمبلی کے137 ممبران نے آئین 1973 ء کے اصل مسودے پر دستخط کئے، یہ ایک یادگار موقع تھا پھر اراکین قومی اسمبلی 15 میل لمبے جلوس میں ایوان صدر پہنچے، جہاں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کے مسودے بطور صدر مملکت پاکستان دستخط کر دئیے اور 31 توپوں کی سلامی کے ساتھ ہفتہِ جشن آئین 1973 ء کی تقریبات کا اعلان ہوا، بدقسمتی سے بلوچستان میں سردار عطااللہ مینگل کی مخلوط صوبائی حکومت کو صرف نو مہینوں میں غیر جمہوری انداز میں فارغ کر دیا پھر 5 جولائی 1977ء میں صدر جنرل ضیاء الحق نے مارشل نافذ کر کے 1973 ء کے آئین کو منسوخ تو نہیں کیا البتہ اس آئین کو معطل کر دیا پھر 1985 ء میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد محمد خان جونیجو وزیراعظم بننے اور 30 دسمبر1985 ء کو 8 سال 6 مہینے بعد 1973 ء کا آئین بحال کیا گیا۔
اس کے بعد 12 اکتوبر1999 کو جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے پر 1973 ء کا آئین پھر معطل کیا گیا اور 3 سال 16 دن بعد 16 نومبر 2002 ء جب میر ظفر اللہ خان جمالی وزیر اعظم منتخب ہوئے تو 1973 ء کا آئین بحال کیا گیا، تیسری مرتبہ صدر جنرل پروز مشرف نے آئین کو 3 نومبر2007 ء کو معطل کر دیا مگر صرف ڈیڑھ ماہ بعد 15 دسمبر2007 ء کو آئین بحال کرنا پڑا، اگست 1973 سے اب تک 1973 ء کے آئین میں 26 ترامیم ہوئیں اور بیشتر ترامیم صرف چوبیس گھنٹوں میں ہوئیں، 7 آئینی ترامیم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں ہوئیں ، میاں محمد نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنےاور اِن کے اداور میں 8 ترامیم ہوئیں ، وزیر اعظم محمد خان جونیجو 1985 ء سے1988 ء تک وزیراعظم رہے اور اِن کے دور میں 3 ترامیم ہوئیں۔
عمران خان اور شاہد خاقان عباسی کے ادوار میں دو ، دو ترامیم ہوئیں، میر ظفر اللہ خان جمالی کے دور میں ایک ترمیم ہوئی، اِن تمام ترامیم میں 8 ویںترمیم جو صدر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوئی او ر 17ویں ترمیم جو صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئی سب سے زیادہ متنازعہ تھیں ایک یادگار آئینی ترمیم تیسری آئینی ترمیم ہے جو 12 اپریل 1975 ء میں ہوئی جس میں منکرین ختم ِنبوت قادیانیوں مرزائیوں کو اقلیت قرار دیا گیا، یہ آئینی ترمیم 130 اراکین یعنی دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ ووٹوں سے منظور ہوئی اس کے علاوہ 18 ویں آئینی ترمیم کو یادگار تصور کیا جاتا ہے یہ ترمیم 8 اپریل2010 ء کو منظور ہوئی تھی ۔ 292 ووٹ 18 ویں ترمیم کے حق میں آئے اور کوئی بھی ووٹ مخالفت میں نہیں آیا ۔ صدر کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کر دیئے گئے اور مستقبل میں مارشل لا کو روکنے کے اقدامات کر دیئے گئے ، صوبائی خود مختاری دی گئی، سروسز چیف کی تعیناتی کے اختیارات واپس لے لیئے گئے، صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھا گیا۔
آئین یا قانون کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ’’قانون دراصل اجتماعی اصولوں پر مشتمل ایک ایسا نظام ہوتا ہے جس کو کسی ادارے عموماً حکومت کی جانب سے کسی معاشرے کو منظم کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے اور اسے معاشرے پر لاگو کرنے یا نافذ کر نے کے لیے ( جب اور جتنی ضرورت پڑے ) ریاستی طاقت کو استعمال میں لایا جاتا ہے اور اس پر اس معاشرے کے اجتماعی رویوں کا دارو مدار ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر اگر آئین اور آئین سازی کا تاریخی پس منظر دیکھیں تو اقوام متحدہ کے چارٹر نے بھی جس سے استفادہ کیا ہے وہ حمورابی قوانین یا آئین ہے۔حمورابی 1792 تا 1750 قبل مسیح قدیم بابل (عراق) کے پہلے شاہی خاندان کا چھٹا بادشاہ تھا، حمورابی اپنی فتوحات کے مقابلے میں تاریخ انسانی میں آئین اور قوانین کی وجہ سے مشہور ہے، اُس نے اٹھارویں صدی قبل مسیح یعنی تقریباً چار ہزار سال پہلے قانونی، آئینی اور اخلاقی ضابطہ دنیا کو دیا۔
حمورابی کا آئین 282 قوانین پر مشتمل ہے ۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے اختتام اگست1945سے چند روز پہلے اقوام متحدہ کا چارٹر مرتب کرتے وقت حمورابی کو یاد کیا گیا اور چارٹر کا آغاز اس سے ہوا، اگر چہ یونان اور روم کی تہذیبوں نے بھی آئین سازی کے اعتبار سے بہت کچھ کیا مگر نبی کریم ﷺ کا آخری خطبہ حج انسانی تاریخ میں اخلاقی ، معاشرتی ارتقا انسانیت اور امن کے لیے سب سے اہم دستاویز ہے، اس کے بعد ’عمر لاز‘(حضرت عمرؓ کے طرز حکمرانی سے اخذ کئے جانے والے قوانین) یعنی قوانین جو آج یورپ میں قوانین کے نصاب کا حصہ ہیں اہم ہیں، اس کے بعد آئین سازی کی تاریخ میں اہم آئینی دستا ویز Magna Carta میگنا کارٹا ہے اس کے ذریعے برطانوی عوام نے 1215 ء میں رنی میڈ کے مقام پر اپنے بادشاہ کو مجبور کر دیا کہ بادشا ہ یہ تسلیم کرے کہ وہ قانون سے بالا تر نہیں ہے اس کے ذریعے برطانوی ہاوس آف لارڈز نے بادشاہ کے بہت سے اختیارات لے لیے اور یوں لارڈز کی مشاورت نے سلطنت کے امور کو زیادہ بہتر طور پر کامیابی سے چلایا۔
میگنا کارٹا ہی وہ قانونی دستاویز تھی جس سے ایک جانب برطانیہ مذہبی انتہا پسندی اور خانہ جنگیوں سے بچ گیا جس کا بدترین شکار فرانس اور جرمنی ہوئے تو دوسری جانب اسی میگنا کارٹا کا ارتقا تھا کہ رفتہ رفتہ حقوق اور آئینی اختیارات ہاوس آف کامن یعنی عوامی ووٹوںسے منتخب پارلیمنٹ کو منتقل ہوئے اور اسی لیے برطانیہ دنیا میں جمہوریت کی ماں کہلایا اور باوجود اس کے کہ وہاں روائتی انداز کی بادشاہت بھی قائم ہے اور عوام اس بادشاہت کو دل سے تسلیم کرتے اور اپنا قومی وقار جانتے ہیں، برطانیہ کی بادشاہت کے بارے میں مصر کے آخری بادشاہ فارق کا یہ تاریخی قول ہے کہ دنیا میں آخر میں صرف پانچ بادشاہ ہوں گے چار تاش کے بادشاہ اور ایک برطانیہ کا بادشاہ ہو گا یہاں اِن سطور کا مقصد یہ ہے کہ آئین اگر عوامی جذبات اور امنگوں کی صحیح ترجمانی کرے تو اس سے بادشاہت کو بھی استحکام مل سکتا ہے۔
اگرچہ برصغیر میں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں آئین کا بنیادی ڈھانچہ 1935 ء کے قانون ہند ہی کا ہے، اِس میں بھی کئی قوانین تو 1875 ء کے ہیں جو انگریز نے خود اپنے مفاد میں 1935 ء کے قانونِ ہند میں شامل کئے تھے، اس قانون ہند 1935 ء کی تشکیل ہندوستان کی پارلیمنٹ میں نہیں ہوئی تھی ہاں یہ ضرور ہے کہ جب یہ نیا قانون بنایا جانا تھا تو برطانیہ کی پارلیمنٹ کے اراکین نے ہندوستان کے دورے کئے اور خصوصاً گانگریس کے نہرو، گاندھی اور قائد اعظم سے ملاقاتیں اور مشورے بھی کئے ، پھر لندن میں تین گول میز کانفرنسیں بھی ہوئیں اور اس کے بعد برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کے لیے 1935ء قانون ہند کو منظور کر لیا اور اس قانون کے تحت ہی 1937ء میں ہندوستان گیارہ صوبوں میں انتخابات ہوئے یہی وہ انتخابات تھے جس میں مسلم لیگ کو کانگریس کے مقابلے میں بڑی شکست ہوئی تھی اس کے ایک سال بعد علامہ محمد اقبال21 اپریل1938 ء کو انتقال کر گئے جنہوں نے 1930 ء مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کرتے ہوئے انگریزوں سے ایک آزاد ملک پاکستان کا مطالبہ کر دیا۔
1937 ء کے انتخابات کے بعد کانگریس نے گیارہ میں سے نو صوبوں میں اپنی حکومتیں بنائیں اور باقی دو صوبوں میں وہاں کی مقامی سیاسی جماعتو ں کے ساتھ مخلوط حکومتیں بنائیں مگر اِن حکومتوں نے مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت سے کام لیا، اِن کو انتقام کا نشانہ بنایا اسی زمانے میں دوسری جنگ عظیم کے آثار پید ا ہونے لگے تو کانگریس نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور انگریزوں پر زور دیا کہ وہ یہ وعدہ کریں کہ اقتدار کانگریس کے حوالے کریں 1939 ء میں جب جنگ شروع ہوئی تو کانگریس نے دباؤ میں بے پناہ اضافہ کر دیا اور وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا، 1940 ء میں مسلم لیگ نے لاہور میں اپنے اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی، اس قرارداد کو اُس وقت قرارداد لاہور کہا گیا جس میں باقاعدہ پاکستان کا مطالبہ کر دیا۔
اگست 1945 ء میں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو 1935 ء ہی کے قانون ِہند کی بنیاد پر ہندوستان میں انتخابات کروائے گئے، 1935 ء کے قانون کے مطابق انتخابات جداگانہ بنیادوں پر ہوتے تھے یعنی 30 فیصد مسلم آبادی تھی اس لیے مرکزی اسمبلی کی 100 نشستوں میں سے 30 نشستیں مسلم نشستیں تھیں اور اِن پر صرف مسلمان امیدوار کھڑے ہو سکتے تھے، چاہے وہ کانگریس کے ٹکٹ پر کھڑے ہوں یا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر اور صوبوں میں یہ نشستیں صوبوں میں ہندو مسلم آبادیوں کے تناسب پر تھیں ۔ قیام پاکستان پر 1935 ء کے قانونِ ہند کی بنیاد پر غیر منقسم ہندوستان کے آخری انتخابات 1945-46 ء کے موسم سرما میں منعقد ہوئے جس کے نتائج کے مطابق مرکزی اسمبلی کی تیس کی تیس مسلم نشستیں مسلم لیگ نے حاصل کر لیں اور صوبوں میں مسلم لیگ کو 90 فیصد کامیابی حاصل ہوئی ، انتخابات کے فوراً بعد آزادی سے قبل پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم بنے اور کابینہ میں اہم وزیرداخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل اور وزیر خزانہ نوابزادہ لیاقت علی خان ہوئے۔
آزادی کے تناظر میں اگر ہم برصغیر میں آئین یا دستور سازی کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو آخری گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن جو ہندوستان کی تقریباً 540 ریاستوں کے وائسرائے ( نائب بادشاہ) بھی تھے ، اُنہوں نے3 جون 1947 ء کو اعلان آزادی ہند کر دیا، اب یہ ہندوستان ،بھارت اور پاکستان دو ملکوں میں تقسیم ہونا تھا اور تقسیم اور آزادی کے بعد آئینی اختیارات کے اعتبار سے اب مسائل درپیش تھے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اب نئے حالات میں 1935 ء کے قانون ِ ہند میں ترمیم کی ضرورت تھی، چونکہ 1935 ء کا آئین برطانیہ کی پارلیمنٹ نے بنایا تھا اور اس میں ترمیم کا اختیار بھی برطانیہ کی پارلیمنٹ نے اپنے پاس رکھا تھا اس لیے 1935 ء کے آئین میں ہندوستان کی تقسیم اور دونوں ملکوں کی آزادی اور اِن ملکوں میں آئین اور قوانین کے نفاذ کے لیے برطانیہ کی پارلیمنٹ نے 18 جولائی1947 ء کو یعنی آزادی سے 27 دن قبل قانون آزادیِ ہند کے عنوان سے ترمیم کی جس میں ہندوستان کی تقسیم کا فارمولہ یہ تھا کہ مسلم اکثریت آبادی کے علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریت کے علاقے بھارت میں شامل ہو نگے جبکہ ہندوستان میں مو جود تقریباً540 ریاستوں کے بارے میں کہا گیا کہ اِن کے نوابین ، راجے مہا راجے ، اپنی عوام کی مرضی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور بھارت دونوں میں سے اپنی ریاست کی قربت، کو دیکھتے ہوئے دونوں ملکوں یعنی پاکستان یا بھارت میںشامل ہو ں گے۔
آزادی کے ایک سال تک یہی قانون ہند دونوں ملکوں یعنی بھارت اور پا کستان کا آئین رہے گا اِن دونوں ملکوں کی حیثیت نو آبادیات کی سی ہو گی اور اس دوران 1935 ء کے قانون ہند میں اگر ضروری ترمیم کرنی ہوئی تو اس کا اختیار دونوں ملکوں کی پارلیمنٹ کی بجائے گورنر جنرل کو ہو گا، ایک سال بعد دونوں ملک اگر چاہیں تو اپنا آئین بنا لیں یا 1935 ء کے قانون ِ ہند ہی کو آئین کے طور پر نافذ العمل کر یں یا اس قانونِ ہند میں ترامیم کر کے بطور آئین اپنا لیں، بھارت نے دو سال بعد اپنا آئین بنا لیا، پاکستان میں 1956 ء کے آئین کے نفاذ تک 1935 ء کا قانون نافذالعمل رہا جس میں برطانیہ کے بادشاہ یا ملکہ سے وفاداری کا حلف لیا جاتا تھا، یوں نواب زادہ لیاقت علی خان ، خواجہ ناظم الدین ، محمد علی بوگرا اور چوہدری محمد علی ایسے وزراء اعظم تھے جنہوں نے اسی وفاداری کا حلف اٹھایا تھا، چوہدری محمد علی کے دور میں جب 1956 ء کا آئین نافذ ہو گیا تو چوہدری محمد علی پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے برطانوی بادشاہت سے وفاداری کا حلف 1956 ء کے آئین کے حلف کے بعد ترک کر دیا، اِن کے بعد حسین شہید سہروردی ، ابراہیم اسماعیل چندریگر اور فیروز خان نون 1956 ء کے پارلیمانی آئین کے تحت وزیراعظم ہوئے ۔
ہمارے ہاں قومی سیاست میں آئین اور آئین سازی کی بہت اہمیت رہی ہے مگر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم از کم ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز اور بعض مر تبہ اچھے خاصے فورمز پر بہت سی شخصیات آئین کی آرٹیکلز اور دفعات کا حوالہ غلط انداز میں دیتے ہیں یا اس کے حوالہ جات میں ابہام پیدا کر دیتے ہیں ،اب اس کی پرکھ یا جانچ کے لیے پھر آئین کی پوری کتاب کو کھولنا پڑتا ہے، ان تما م مشکلات کو ہمارے پیارے دوست ملک کے مایہ ناز محققّ دانشور براڈکاسٹر محمد عاطف نے چار پانچ سال کی متواتر محنت سے حل کر دیا ہے ، محمد عاطف کا تعلق بلوچستان سے ہے ،کوئٹہ میں اپنی تعلیم یعنی ایم اے ماس کمیو نیکیشن بلوچستان یونیورسٹی سے کیا پھر معروف اور بڑے قومی اخبارات میں ریسرچ جرنلزم کیا ،گجرات یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کیا۔
اب بہاولپور یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن ہی میں پی ایچ ڈی مکمل کر رہے ہیں، اُنہوں نے پاکستان کے آئین 1973 ء کو ڈیجییٹلائز کیا ہیِ،آئین ِ پاکستان کا ڈیجیٹل ورژن آئین پاکستان کا ارد ومسودہ تلاش کی چار مختلف سہولتوں کے ساتھ اس ویب لنک کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں جو یوں دی گئی ہیں http://cop.uob.edu.pk/urdu.html اسی طرح انگلش میں http;//cop.uob.edu.pk/cop/english.html پر آپ بغیر کسی معاوضے کے مفت صرف ایک کلک پر آئین سے متعلق کسی بھی آرٹیکل یا دفعہ کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں اس کے لیے محمد عاطف نے لنک بھی دئیے ہیں، محمد عاطف کی اس کاوش کو اس سال عالمی سطح پر آئین کا عالمی دن منا نے والے ادارے دی انٹرنیشنل بوندیس بریف سوسائٹی The International Bundesbrief Society نے عالمی یوم آئین کے موقع پر اس کے منتظمین نے پاکستان سے محمد عاطف کو Global Network Ambassadors for World ،، نے آئین کے عالمی دن2024 Constitution Day کے لیے اپنا سفیر بنایا ہے۔
محمد عاطف کا ذہن بہت خلاّق ہے ہمیشہ کچھ نہ تخلیقی اندا ز سے اور اچھوتا سوچتے ہیں اور نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ عمل کر کے خودکو منواتے بھی ہیں مگر بہت انکساری سے کام لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے اور اہم کام کئی کئی برس کی مسلسل محنت کے ساتھ کیئے مگر اب تک اِن کو کوئی صدارتی ایوارڈ نہیں ملا، اِن کی جانب سے ایک اور اہم کام ریڈ پاکستان کے لیے تحریری اور صوتی لغت ہے جو اُنہوں نے سات آٹھ برس کی مسلسل محنت کے بعد ترتیب دی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی شخص تلفظ اور ادائیگی کو درست اور معیاری بنا سکتا ہے جہاں تک تعلق ڈیجیٹل آئین کا تعلق ہے تو یہ کارنامہ عاطف نے بلوچستان یونیورسٹی کے تعاون سے کیا اور سینٹ آف پا کستان نے ان کے اس کام کو بہت سراہا ہے اس بار عالمی یوم آئین پر اِن کے اس کام کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی ہے جو پاکستان کے لیے بھی ایک اعزاز ہے ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔