- پاکستان میں آن لائن،ڈیجیٹل مالی لین دین میں اضافہ
- وفاق نے 18 ویں ترمیم پرعمل شروع کردیا، ساری وزارتیں ختم کردیں، وزیراعلیٰ سندھ
- 2024 کا نوبل امن انعام ؛ جاپان کی انسدادِ جوہری بم کی تنظیم کے نام
- عمران خان کی بہن سے ملاقات پر پابندی کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
- پیٹرول پمپس، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا منافع مزید بڑھانے کی سمری تیار
- الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر لیگل وِنگ سے رائے طلب کرلی
- اراکین پارلیمنٹ کو اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے کیلیے حتمی تاریخ دیدی گئی
- پی ٹی سی ایل نے پاکستان میں اب تک کا تیز ترین انٹرنیٹ لانچ کردیا
- اربوں کا فراڈ؛ معروف بلڈر، اہلیہ اور ایس بی سی اے کے افسران گرفتار
- کے پی کے گرفتار سرکاری ملازمین کی رہائی کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست
- نمبرز پورے ہیں تاہم حکومت تمام جماعتوں سے مشاورت چاہتی ہے، بلاول بھٹوزرداری
- کے پی ہاؤس ڈی سیل نہ کرنے پر ڈائریکٹر سی ڈی اے کیخلاف توہین عدالت کی درخواست
- آئینی ترامیم پر مشاورت؛ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ختم، ڈیڈلاک برقرار
- ضلع کچھی میں سی ٹی ڈی کی کارروئی، فتنتہ الخوارج کے 3دہشتگرد ہلاک
- پی سی بی نے نئی سلیکشن کمیٹی تشکیل دیدی
- انتظار پنجوتھہ کہاں ہیں کچھ پتا نہیں چلا، اسلام آباد پولیس کا عدالت میں بیان
- بچوں کے جائیداد کیلئے تشدد پر والدین کی پانی کے ٹینک میں کود کر خودکشی
- آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کب تک ہوگا کچھ نہیں کہہ سکتے، فضل الرحمان
- کراچی کے جنوب مشرق میں ہوا کا کم دباؤ؛ ساحلی علاقہ متاثرہونے کا امکان نہیں
- شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے ہٹائے جانے کا امکان
بیروزگاری کی دلدل میں دھنستا بھارت
وجے منکر نے اپنی بہن سے 300 روپے ادھار لیے اور مہاراشٹر ریاست میں ناسک شہر کے قریب اپنے آبائی قصبے سے بھارت کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی تک 200 کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے شدید بارشوں کا مقابلہ کیا۔ 28 سالہ کامرس گریجویٹ ایک ایٔر لائن کی ملازمت کے لیے انٹرویو میں شرکت کر رہا تھا۔ لیکن اسے ابتدائی طور پر انٹرویو کی تفصیلات کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔
وہ بتاتا ہے ’’ممبئی پہنچنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ کام ہوائی جہازوں میں کارگو لوڈنگ اور ان لوڈ کرنا تھا۔ اس کے لیے گریجویٹ ڈگری کی بھی ضرورت نہیںتھی۔یہ جان کر مجھے شدید مایوسی ہوئی کیونکہ میرا ممبئی آنا بیکار گیا۔ میں ورکر کی نوکری کرنے کو تیار نہ تھا۔میں نے تو نوکری کے انٹرویو کے لیے اپنے کپڑے استری کرانے کی خاطر ایک دوست سے 20 روپے ادھار لیے تھے۔‘‘
وہ بھیگتا ہوا گھر واپس آیا اور سخت مایوسی محسوس کر رہا تھا۔ لیکن وجے غم وغصہ محسوس کرنے والا تنہا نوجوان نہیں تھا، تقریباً 25 ہزار دیگر درخواست دہندگان نے جاب فیٔر کو خالی ہاتھ چھوڑ دیا، کیونکہ مقامی حکام زیادہ ہجوم کی وجہ سے انٹرویو نہیں لے سکے اور صرف ان کے درخواست فارم جمع کیے گئے۔وجے منکر کانپتی ہوئی آواز میں کہتا ہے: ’’میں اب دو سال سے زیادہ عرصے سے بے روزگار ہوں… میں نے ہر چھوٹے سے چھوٹا موقع پانے کی کوشش کی لیکن اب تک کوئی اچھی مستقل ملازمت نہیں مل سکی۔‘‘
شدید بحران
وجے ان لاکھوں بھارتی نوجوانوں میں سے ایک ہے جو بھارت میں بے روزگاری کے شدید بحران کے دوران کام تلاش کرنے کے لیے دن رات جدوجہد کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے بھارتی حکومت کی کوششیں ناکافی ہیں۔حالیہ ماہ فروری میں’’74‘‘ لاکھ سے زیادہ درخواست دہندگان نے ریاست اتر پردیش کی پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے 60 ہزار نوکریوں کی خاطر مقابلہ کیا۔ دیگر ہندوستانی ریاستوں سے بھی حالیہ برسوں میں اسی طرح ملازمت کی درخواستوں کے زبردست رش کی اطلاع ملتی ہے۔
وسط جولائی میں سالانہ بجٹ کے اعلان کے دوران نریندر مودی حکومت نے روزگار کی تخلیق اور کارکنوں کی مہارتوں کو فروغ دینے کے لیے 24 ارب امریکی ڈالر کے خصوصی پیکج کی نقاب کشائی کی۔ یہ اقدامات اسی طرح کی دیگرسرکاری اسکیموں میں سرفہرست ہیں جن کا مقصد اگلے پانچ سالوں میں بے روزگاری کم کرنا ہے۔مگراپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت کی تجاویز اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کافی حد تک آگے نہیں بڑھیں۔
غلط اعدادوشمار
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2022-2023 ء میں بھارت میں بے روزگاری کی شرح3.2 فیصد تھی۔ لیکن بہت سے ماہرین اقتصادیات کو حکومت کے اعداد و شمار پر شک ہے۔آزاد مرکز برائے مانیٹرنگ انڈین اکانومی تھنک ٹینک نے اندازہ لگایا ہے کہ گزشتہ ماہ بے روزگاری کی شرح 9.2 فیصد تھی۔’’بے روزگاری ملک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔‘‘ پی چدمبرم، سابق وزیر خزانہ اور انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے اپوزیشن لیڈرکہتے ہیں۔’’روزگار کے حوالے سے حکومت کا ردعمل بہت کمزور ہے اور اس کے ذریعے ملک بھر میں بے روزگاری کی سنگین صورتحال پر بہت کم اثر پڑے گا۔‘‘ انہوں نے بجٹ کے بعد کی ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا۔
حالیہ عام انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی زبردست انتخابی مہم کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے بھارت میں ملازمتوں کی کمی نے اس شکست کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پہ بھارت کی پس ماندہ ریاستوں مثلاً اترپردیش میں پھیلی بیروزگاری کے باعث عوام نے بی جے پی کو ووٹ نہ دے کر اپنا غصہ نکالا۔جبکہ مودی اور ان کی ٹیم روایتی ہتھیار لے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے لگی۔ یہ ہتھیار مگر حالیہ الیکشن میں مودی جیسے انتہا پسند ہندو لیڈروں کے زیادہ کام نہیں آ سکا۔
عدم استحکام کا نشانہ
تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ بھارت ہی نہیں ہر ملک میں اگر عوام کی مشکلات سے بے خبر بے حس حکومت بے روزگاری کا عفریت کم کرنے کے لیے مضبوط اقدامات متعارف کرانے میں ناکام رہتی ہے تو اس سے بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔نئی دہلی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن ڈیولپمنٹ کے سینٹر آف ایمپلائمنٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر روی سریواستو کہتے ہیں کہ بھارت میں بے روزگاری کے بحران کے کئی اہم پہلو ہیں۔یہ بحران بڑھتا چلا جا رہا ہے اور مودی جنتا اسے قابو کرنے میں ناکام ہے۔ خاص طور پہ اعلی تعلیم یافتہ لڑکے لڑکیوں اور خواتین میں پھیلتی بیروزگاری ممکنہ طور پر دھماکہ خیز مسئلہ بن سکتا ہے۔ اور مودی سرکار اس مسئلے کی سنگینی و شدت کا اندازہ لگانے میں فی الحال ناکام رہی ہے۔ یہ مسئلہ بڑھتا چلا گیا تو بھارت کو سیاسی و معاشرتی طور پر عدم استحکام کا نشانہ بنا سکتا ہے۔
یہ یاد رہے کہ بھارت کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد ہو چکی۔اس آبادی میں 40 فیصد سے زیادہ باشندوں کی عمر 25 سال سے کم ہے۔یہی وجہ ہے، اب ہر سال ستر اسّی لاکھ نوجوان لڑکے لڑکیاں ملازمت کے بازار میں داخل ہو رہے ہیں۔ گو ملک کی معیشت میں اس سال 7۔2 فیصد کی صحت مند ترقی متوقع ہے، مودی انتظامیہ کے لیے نئے روزگار کی تخلیق ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ بھارت میں ملازمتوں کے کم مواقع پیدا کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ حکومت کے وسائل کا ایک اہم حصہ محنت پر مبنی شعبوں (labour-intensive sectors)کے بجائے سرمایہ پر مرکوز (capital-focused) شعبوں میں زیادہ لگتا ہے۔
ماہرین نے ملک بھر میں تخلیق ہونے والی ملازمتوں کے سرکاری اعداد و شمار کی صداقت پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ جیسا کہ یہ دعویٰ کہ بھارت نے اپریل 2023 ء تا مارچ 2024 ء کے درمیان تقریباً 47 لاکھ ملازمتیں پیدا کیں۔ اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ان گیارہ مہینوں میں پچھلی چار دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ سالانہ ملازمتیں تخلیق ہوئیں۔
حکومت کا طریقہ مشکل و پیچیدہ
جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں معاشیات کے سابق پروفیسر ارون کمار کا کہنا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح کا تعین کرنے کے لیے حکومت کا طریقہ مشکل و پیچیدہ ہے۔’’آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کی تعریف یہ ہے کہ اگر آپ مارکیٹ میں کمائی نہیں کر رہے ، تو آپ بے روزگار ہیں۔ حکومت ہند کہتی ہے کہ جو بھی کام کر رہا ہے، وہ ملازم ہے ،چاہے آپ کمائی نہ کر رہے ہوں۔‘‘
بھارت میں افرادی قوت کی تعداد 58 کروڑ سے زیادہ ہے اور ان میں سے بیشتر ’’غیر دستاویزی معیشت‘‘ (informal sector) میں کام کرتے ہیں۔ ارون کمار کہتے ہیں’’حکومتی پالیسیاں سب غلط ہیں۔ اس وقت بیشتر بے روزگاری غیر دستاویزی معیشت ہے۔ لیکن مودی حکومت نے پریشان حال غیر دستاویزی معیشت کے مسائل حل کرنے کے بجائے منظم شعبے(دستاویزی معیشت) کو فروغ دینے پر اپنی زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔‘‘
جے این یو میں معاشیات کے پروفیسر پروین جھا کا بھی کہنا ہے کہ موجودہ اور پچھلی حکومتیں ملازمت کے بھارتی بازار میں دیرینہ مسائل سے نمٹنے میں ناکام رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے : “یہ بے روزگاری کا ایک طویل المدتی ادارہ جاتی (structural)بحران ہے … ہم 1980 ء کی دہائی سے ‘بے روزگاری کی ترقی’ (jobless growth)کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے پاس سرکاری ملازمتوں میں بھی کمی آ گئی۔ بحران بہت گہرا ہے جبکہ اقتدار میں رہنے والوں نے ڈیٹا کا غلط استعمال کیا ہے۔”
مودی حکومت کو اب اپنے تیسرے دور میں بھارت میں ملازمتوں کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں بہتر کارکردگی نہ دکھانے کے باعث وزیراعظم مودی اب ماضی کی نسبت کمزور ہو چکا۔اس نے اتحادی پارٹیوں کی شراکت سے حکومت بنائی ہے۔لہذا اسے اتحادیوں کے مفادات کا خیال بھی رکھنا ہو گا ورنہ وہ حکومت کے لیے کوئی بھی مشکل کھڑی کر سکتے ہیں۔
دیہی بھارت پیچھے رہ گیا
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نئی حکومت کو دیہی اکثریت پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دیہات میں مقیم بھارتی عوام نے ملک کی تیزی سے بڑھتی جی ڈی پی سے دولت مندوں جیسا فائدہ نہیں اٹھایا۔ وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے سابق رکن، رتھن رائے کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے، مسٹر مودی کا یہ تیسرا دور ہے جو انہیں ایک دیرپا میراث چھوڑنے کے خیال میں مبتلا کر دے گا ۔لہذا وہ عوام کی معاشی خوشحالی کے لیے کچھ کرنے کی طرف ’’مائل‘‘ ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاںمسٹر مودی کی میراث کہے گی کہ وہ ماضی میں واضح طور پر ناکام رہے۔
یہ واضح رہے کہ اپنے اقتدار کے دس سالہ دور میں وزیراعظم مودی نے بیشتر سرکاری خزانہ سرکاری ادارے مضبوط کرنے اور ریل پٹڑیاں، شاہرائیں، بندرگاہیں اور پل بنانے پر صرف کیا ہے۔حکومت نے بڑی کمپنیوں کو ٹیکس مراعات بھی دیں ۔برآمدات میں مینوفیکچرنگ کو ترجیح دینے کے لیے مقامی برآمدی کمپنیوں کو سبسڈی (مراعات)دینے کی اسکیمیں شروع کی گئیں۔ اس معاشی حکمت عملی سے بھارت کی متزلزل میکرو اکانومی مستحکم ہوئی اور اس کی اسٹاک مارکیٹوں میں اضافہ ہوا ۔منفی پہلو یہ ابھرے کہ مملکت میں قوم کے سبھی افراد کی کمائی منصفانہ نہیں رہی…شہروں میں مقیم شہری تو معاشی سرگرمیوں کے باعث پہلے کی نسبت خوشحال و امیر ہو گئے مگردیہات میں بستے کروڑوں بھارتی اس ترقی کے ثمرات سے محروم رہے۔
مثال کے طور پہ معاشی بحران کے باوجود بھارتی شہروں میں کاروں کی فروخت بڑھی ہے ۔ گویا بھارتی شہریوں کے پاس روپیہ موجود ہے۔مگر دیہی بھارت میں تنخواہیں جمود کا شکار ہیں، گھریلو بچت میں کمی آئی ہے اور اچھی تنخواہ والی ملازمتیں ان کی پہنچ سے دور ہیں۔بھارت کا علاقائی عدم توازن بھی شدید ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک کی اکثریت آبادی شمالی اور مشرقی بھارت میں رہتی ہے جہاں فی کس آمدنی نیپال سے بھی کم ہے، اور صحت، اموات اور متوقع عمر کی شرح غریب افریقی ملک، برکینا فاسو سے بھی بدتر ہے۔
ان گھمبیر حالات دس میں سے نو بھارتی معاشی ماہرین اب کہتے ہیں کہ مودی کے تیسرے دور میں دائمی بے روزگاری حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انتخابات کے بعد کے سروے سے پتا چلتا ہے کہ دس میں سے سات بھارتی باشندے انتہائی امیروں پر مزید ٹیکس لگانے کی حمایت کرتے ہیں اور دس میں سے آٹھ ماہر معاشیات کا خیال ہے کہ قومی معاشی ترقی کی رفتار اطمینان بخش نہیں۔
زراعت کی زبوں حالی
سچ یہ ہے کہ بھارت میں ملازمتوں کا بحران روز بروز زیادہ سنگین ہو رہا ہے۔ شمالی مثال کے طور پر شمالی بھارت کے زرعی مراکز میں سفر کرتے ہوئے واضح طور پہ محسوس ہوتا ہے کہ وہاں مقیم اکثر دیہاتیوں کی قسمت شہروں میں رہنے والوں کے بالکل برعکس ہے۔شمالی ریاست اتر پردیش کا شہر، مظفر نگر بھارتی دارالحکومت دہلی سے بمشکل چند گھنٹوں کے فاصلے پر ہے۔ جدید ترین شاہراہ کو چھوڑ کر جو وسیع و عریض کھلے میدانوں سے گزرتی ہے، صاف لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا خطّہ ہے جسے ملک کے چمکدار معاشی عروج نے بڑی حد تک نظرانداز کر دیا۔
سشیل پال کا خاندان کئی نسلوں سے بہرہ آسا نامی گاؤں کے میدانی علاقوں میں کھیتی باڑی کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کھیتی باڑی مشکل کام ہے اور اس میں منافع بھی کم ملتا ہے۔ پال نے پچھلے دو انتخابات میں حمایت کرنے کے باوجود اس بار مسٹر مودی کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا کسانوں کی آمدن دوگنا کرنے کا وعدہ صرف اتنا ہی رہ گیا …ایک وعدہ۔
’’میری آمدنی اس دوران کم ہو گئی ۔مال اور مزدوری کے اخراجات بڑھ گئے لیکن فصل سے میری آمدن میں اضافہ نہیں ہو سکا۔‘‘ پال اداسی سے کہتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ مودی حکومت نے حالیہ انتخابات سے قبل گنے کی خریداری کی قیمتوں میں صرف معمولی اضافہ کیا۔’’میں جو بھی پیسہ کماتا ہوں، وہ اپنے بیٹوں کی اسکول اور کالج کی فیس ادا کرنے میں لگ جاتا ہے۔ ایک بیٹا انجینئر بن چکا لیکن دو سال سے اسے نوکری نہیں ملی۔‘‘ اس نے آزردگی سے بتایا۔
سشیل پال کے کھیت کے قریب ہی لب سڑک ایک فرنیچر ورکشاپ واقع ہے۔اس میں تیار کردہ فرنیچر برآمد ہوتا تھا۔ مگر پچھلے پانچ سال میں اس کے کاروبار میں 80 فیصد کمی آ چکی کیونکہ کوویڈ وبا کے بعد عالمی آرڈر ملنا بند ہو گئے۔ورکشاپ کا مالک، رجنیش تیاگی کہتا ہے:’’برآمد کم ہونے کے بعد میں نے اپنا مال سستے داموں مقامی آبادی کو پیش کر دیا۔ مگر شدید مہنگائی کی وجہ سے دیہاتیوں میں قوت خرید نہیں رہی۔اس لیے میرا فرنیچر اب بہت کم بکتا ہے اور میری آمدن بھی بہت سکڑ چکی جس کے باعث میں پریشان ہوں۔‘‘
رجنیش نے مزید کہا ’’بھارت میں کھیتی باڑی کی معیشت گر رہی ہے۔زراعت کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ کسانوں پر چڑھے قرضے اور ان میں پھیلتی بے روزگاری ہے۔ان مسائل کی وجہ سے بھارت کی دیہی آبادی میں کچھ خریدنے کی سکت نہیں رہی‘‘۔مسٹر تیاگی کا کاروبار مائیکرو انٹرپرائزز کی ایک وسیع کائنات کی نمائندگی کرتا ہے جو بھارتی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ، انڈیا ریٹنگز کا تخمینہ ہے کہ 2015 ء سے 2023 ء کے درمیان 63 لاکھ انٹرپرائزز بند ہو چکے ، جس سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ غیر رسمی ملازمتیں بھی ختم ہو گئیں۔
اس کے برعکس معاشی ماہرین کے مطابق بھارت کی سٹاک مارکیٹ میں درج پانچ ہزار کمپنیوں کے منافع میں 2018 ء سے 2023 ء کے درمیان تیزی سے 187 فیصد اضافہ ہوا جو ٹیکسوں میں کٹوتیوں کی وجہ سے مذید بڑھ گیا۔ یوں بھارتی حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے دولت مند تو مذید امیر ہو گئے جبکہ متوسط اور نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے کاروباروں کو مہنگائی اور بڑھتے اخراجات کی وجہ سے بندش کا سامنا کرنا پڑا۔
ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ بھارت میں بیروزگاری دور کرنا اور دیہات میں خوشحالی لانا اس وقت مسٹر مودی کے لیے سب سے بڑے چیلنج ہیں۔اگر مودی سرکار ان چیلنجوں کو پچھاڑ نہ سکی تو ممکن ہے کہ اگلا الیکشن ہار جائے۔بھارتی کمپنی، اے ایس کے پرائیویٹ ویلتھ کے سی ای او اور منیجنگ ڈائریکٹر ،راجیش سلوجا کا کہنا ہے کہ غربت میں کمی حکومت کے بجٹ ایجنڈے میں شامل ہو گی اور مضبوط محصولات اور ٹیکس وصولیوں کو دیکھتے ہوئے ایسا “مالی ریاضی کو پریشان کیے بغیر” کیا جا سکتا ہے۔
اصل چیلنج
ماہرین اقتصادیات مگر متنبہ کرتے ہیں کہ عوام کو زیادہ نقد رقم دیناحقیقی اصلاحات کا ایک ناقص متبادل ہے۔ تقریباً 80 کروڑ بھارتی پہلے ہی مفت اناج پاتے ہیں اور کچھ ریاستیں اپنی آمدنی کا تقریباً 10 فیصد فلاحی اسکیموں پر خرچ کرتی ہیں۔اصل چیلنج یہ ہے کہ مودی حکومت کس طرح لاکھوں بیروزگار افراد کو افرادی قوت میں شامل کرے اور کمائی کی صلاحیت بڑھانے کے منصوبے بنائے۔
انڈیا ریٹنگز کے پرنسپل اکانومسٹ سنیل کمار سنہا کہتے ہیں’’ غیر دستاویزی معیشت سکڑ جانے کے منفی اثرات روزگار پیدا کرنے پر پڑتے ہیں۔ لہذا ایسی سرکاری پالیسی بنانے کی اشد ضرورت ہے جو رسمی اور غیر رسمی ،دونوں معاشی شعبوں کے بقائے باہمی کی اجازت دے سکے۔‘‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو ٹیکسٹائل اور ایگری فوڈ پروسیسنگ جیسے شعبوں میں کم درجے کی محنت سے بھرپور مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ گھریلو مانگ کو پورا کیا جا سکے۔
سب سے بڑے بھارتی بینک، ایس بی آئی کے ماہرین اقتصادیات نے تجویز دی ہے کہ پیداوار سے منسلک مراعات میں توسیع کی جائے جو مسٹر مودی نے چھوٹے کاروباری اداروں کو برآمدات پر مبنی شعبوں کے لیے پیش کی ہیں۔وہ کہتے ہیں’’ جب ہم مینوفیکچرنگ کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہم پوش لوگوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ہم سپر کمپیوٹر کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ ایپل آئے اور یہاں چند آئی فون بنائے۔ لیکن یہ وہ چیزیں نہیں جو ہندوستان کی 70 فیصد آبادی استعمال کرتی ہے۔ ہمیں وہ چیزیں پیدا کرنی چاہیں 70 فیصد آبادی استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اگر کوئی اس ملک میں 200 روپے کی قمیصیں بنانے کے قابل ہو اورمال کو امپورٹ نہ کرے تو اس سے مینوفیکچرنگ کو فروغ ملے گا۔
ڈیویڈنڈ زون
جب ایک ملک میں کام کرنے کی عمر کی آبادی کا حصہ بہت کم عمر اور بوڑھے لوگوں سے بڑھ جائے، تو وہ ’’ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ زون‘‘(demographic dividend zone)کے نام سے جانا جاتا ہے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت اس زون میں ہے اور امید ہے کہ مزید ایک دہائی تک اس زون میں رہے گا۔ یہ زون کئی فائدے رکھتی ہے مگر بھارت میں بیروزگاری کی موجودہ حالت زار بھارتیوں کو ان فوائد سے محروم کر سکتی ہے۔
آئی ایل او کے مطابق بھارتی نوجوانوں کی آبادی 2036 ء تک کم ہو کر 23 فیصد ہو جائے گی جو کہ 2021 ء میں 27 فیصد تھی۔ اقتصادی سروے 2018-19ء کا کہنا ہے کہ بھارت میں ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ زون 2041 ء کے آس پاس عروج پر ہو گا جب کام کرنے والی عمر کا گروپ کل آبادی میں بھارت کا 59 فیصد ہو جائے گا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
بھارت کے لیے مذکورہ بالا خبر اچھی ہے اور بری بھی۔ اس ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کا مطلب ہے کہ لاکھوں مزید نوجوان کام کریں اور معیشت کو ایندھن دیں گے۔ لیکن یہ ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ حاصل کرنے کے لیے قوم کو اسی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔سادہ لفظوں میں بھارت کو ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ سے فائدہ اٹھانے کے لیے ستر اسی لاکھ نوجوانوں کے لیے پیداواری روزگار پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو ہر سال لیبر فورس میں شامل ہو رہے ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت آبادی کے لحاظ سے یہ فائدے کھو رہا ہے کیونکہ بھارتی نوجوانوں کی بے روزگاری ناقابل قبول حد تک زیادہ ہے۔بھارتی نوجوان ملک کی کل بے روزگار آبادی کا تقریباً 83 فیصد حصہ ہیں۔ ہر تیسرا نوجوان نہ تو تعلیم حاصل کر رہا ہے اور نہ ہی ملازمت کر رہا ہے۔ بدتر یہ کہ ان کے پاس مہارت پر مبنی تربیت نہیں ہے۔
ماہرین خبردار کر رہے کہ بھارت جیسے بڑے ممالک اگر اپنے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی امنگیں پورا کرنے کے لیے روزگار کے خاطر خواہ مواقع پیدا نہیں کر سکے تو یہ عمل لامحالہ ان ملکوں میں معاشی جمود پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔اس کے علاوہ روزگار یا مصروفیات کے بغیر نوجوانوں کی اتنی بڑی آبادی بلاشبہ سماجی بدامنی کا باعث بنے گی، جیسا کہ واضح طور پر کیرالہ جیسی باھرتی ریاستوں میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں زمینی رقبے کے مقابلے آبادی کی کثافت بہت زیادہ ہو چکی۔ گویا نوجوانوں کی زیادہ تعداد سے بھارت کئی فائدے اٹھا سکتاہے ۔مگر انھیں ملازمتیں نہ ملیں تو جلد یا بدیر یہ ملک کروڑوں بیکار نوجوانوں کی فرسٹریشن اور غصّے کی وجہ سے معاشرتی انتشار ، بدامنی اور فساد کی آماج گاہ بن جائے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔