- آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کریں گے تو قسط جاری ہوگی، وزیر مملکت خزانہ
- پی ٹی آئی کے 6 گرفتار ایم این ایز کہاں ہیں؟ آئی جی اسلام آباد نے جواب جمع کرادیا
- پی ٹی آئی کے 12 رہنماؤں، کارکنوں کیخلاف مقدمہ درج
- خالصتان رہنما قتل سازش؛ امریکی عدالت نے بھارت مشیر قومی سلامتی کو طلب کرلیا
- بی آر ٹی پشاور کے کنٹریکٹرز اور نیب کے درمیان عدالت سے باہر تصفیہ
- کراچی میں بھائی نے غیرت کے نام پر بہن،بہنوئی کو قتل کردیا
- سابق ایرانی صدر رفسنجانی کی بیٹی 2 سال بعد جیل سے رہا
- وزیراعلی کے پی کیخلاف اثاثہ جات کیس میں نیب کو جواب جمع کرنے کا حکم
- ڈیوڈ وارنر 'ڈان' بن گئے، بڑی لالی پاپ، گن کیساتھ تصاویر وائرل
- پشاور میں پیزا ڈیلیوری بوائے سے واردات، ویڈیو سامنے آگئی
- اسلامک اسکالر مولانا طارق جمیل نے بال لگوا لیے
- آئی پی ایل 2024؛ کھلاڑیوں کی ڈرافٹننگ کب ہوگی؟
- نواب شاہ میں بھائی نے 2 بہنوں کو کرنٹ لگا کر قتل کردیا
- سابق صدر عارف علوی آج امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن سے ملاقات کرینگے
- لاہور میں پی ٹی آئی کا جلسہ، پولیس کا 9 مئی ملزمان کی گرفتاری کا فیصلہ
- قومی کرکٹر کے گھر بیٹی کی پیدائش
- ووٹوں کے سامنے 45 فارم کی کوئی اہمیت نہیں، چیف جسٹس
- جسٹس طارق محمود جہانگیری کو تبدیل کرنے کا الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار
- قومی ترانے پرکھڑے نہ ہونے پر پاکستان نے افغان قونصل جنرل کی وضاحت مسترد کردی
- کراچی کے مسائل اور سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی
پاور سیکٹر میں اسٹرکچرل اصلاحات کے نفاذ کیلئے 8 رکنی ٹاسک فورس تشکیل
اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پاور سیکٹر میں اسٹرکچرل ریفارمز کے نفاذ کے لیے وفاقی وزیر بجلی و پانی اویس احمد خان لغاری کی سربراہی میں 8 رکنی ٹاسک فورس تشکیل دے دی گئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی وزیر بجلی اور پانی اویس احمد خان لغاری کی سربراہی میں ٹاسک فورس تشکیل دینے کا مقصد پاور سیکٹر کا مالی بوجھ کم کرنا، ایک مؤثر اور پائیدار مسابقتی پاور مارکیٹ کا قیام ممکن بنانا ہے۔
ٹاسک فورس کے چیرمین وفاقی وزیر بجلی و پانی سردار اویس احمد خان لغاری کے علاوہ شریک چئیرمین وزیر اعظم کے مشیر برائے بجلی محمد علی اور لیفٹیننٹ جنرل محمد ظفر اقبال نیشنل کوآرڈینیٹر ہوں گے، سیکریٹریٹ گروپ کے گریڈ 21 کے افسر سید زکریا علی شاہ، سمیت نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی، سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی، پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان(ایس ای سی پی) سے ایک ایک رکن ر ٹاسک فورس کا حصہ ہوگا۔
اعلامیے کے مطابق ٹاسک فورس اپنے امور انجام دینے کے لیے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر سے کسی بھی ماہر کا انتخاب کرنے کی مجاز ہوگی، ٹاسک فورس مقامی یا بین الاقوامی مشاورتی فرموں، بینکرز، قانونی مشیروں، چارٹرڈ اکاؤنٹنسی فرموں یا کسی دوسری تنظیم یا فرد سے ریکارڈ اور معلومات یا مدد حاصل کرنے کی مجاز ہوگی۔
پاور سیکٹر میں اسٹرکچرل ریفارمز کے ٹی او آرز بھی دیے گئے ہیں، ٹاسک فورس پاور سیکٹر کو مالی اور آپریشنل لحاظ سے عملی طور پر پائیدار بنانے کے لیے اقدامات اور سفارشات بھی دے سکے گی، ٹاسک فورس مؤثر اور مائع پاور مارکیٹ ڈیزائن کی ترقی کی نگرانی کرسکے گی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ ٹاسک فورس کے مینڈیٹ میں صلاحیت کی ادائیگیوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کا جائزہ لینا اور تجویز کرنا بھی شامل، بعض پلانٹس بند کرنا اور مناسب سمجھنے پر دیگر ضروری اقدامات کرنا بھی ٹاسک فورس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
ٹاسک فورس کا کام میں ملک میں مختلف آئی پی پیز کے سیٹ اپ لاگت سے متعلق معاملات کا جائزہ لینا اور ان کو درست کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا طریقہ تجویز کرنے کے لیے غلط طریقوں، طریقہ کار کی کمزوریوں اور ریگولیٹری خلا کی نشان دہی کرنا بھی شامل۔
آئی پی پیز کے مختلف پیرامیٹرز، شرائط و ضوابط کے ساتھ ساتھ تعمیل کا جائزہ لینا بھی ٹاسک فورس کا منڈیٹ ہوگا، متعلقہ سرکاری ایجنسیوں، اداروں کے ساتھ دستخط شدہ معاہدے اور توانائی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ اسٹاک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کی سفارش کرنا بھی ٹاسک فورس کی ذمہ داری ہے۔
اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ٹاسک فورس کا کردار حقائق کی تلاش تک محدود نہیں ہوگا اور ٹاسک فورس اپنی سفارشات پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے بھی ذمہ دار ہوگی تاہم وفاقی حکومت ٹاسک فورس کے لیے بجٹ مختص کرنے سمیت مکمل تعاون فراہم کرے گی۔
ٹاسک فورس قیام کے ایک ماہ کے اندر عمل درآمد پلان کے ساتھ سفارشات مرتب کرکے وزیر اعظم کو پیش کرنے کی پابند ہوگی، پاور ڈویژن ٹاسک فورس کو نوٹیفائی کرے گا۔
مذکورہ ٹاسک فورس کو سپورٹ اسپیشل سیکریٹری برائے پاور ڈویژن فراہم کرنے کے پابند ہوں گے جو ٹاسک فورس کے سیکریٹریٹ کے سربراہ بھی ہوں گے، ٹاسک فورس وزارت توانائی کے ساتھ مؤثر رابطہ کاری اور مشاورت برقرار رکھے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔