سیاست دانوں کا Sleeper Cell

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  جمعرات 3 جولائی 2014
aamir.liaquat@express.com.pk

[email protected]

چلیے یہ تو اور بھی اچھی بات ہے کہ ہماری پاک افواج نے 2010ء میں ہی دہشت گردوں کے شکار کے لیے منصوبہ تیار کرلیا تھا، اِ س میں’’دوسری جانب‘‘ سے اس قدر بحث مباحثے اور تلملانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر سیاسی قیادت نے فوج کا دست و بازو بننے میں ’’روایتی ہچکچاہٹ‘‘ کا مظاہرہ کیا تو یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں!… ہمارے یہ ’’معصوم صفت سیاست دان‘‘ عموماً اقتدار تک رسائی کے لیے فوج کے سہارے کو’’آسمانی اشارے ‘‘ سمجھتے ہیں،بوٹوں کی چاپ کو عوامی اُمنگوں کی آواز گردانتے ہیں، جذبات میں آکر اُسے وقت کی پکار کا نام عطا کرتے ہیں اور آخر میںنوشتہ ٔدیوار کا راگ الاپتے ہوئے73ء کے آئین کی دیوار میں ’’عبوری‘‘ مگر ’’ضروری‘‘ ترامیم کر کے خود ہی نقب لگاتے ہیں اور پھرموقع دیکھتے ہی نقاب اوڑھ کر شاہراہِ دستور کے ’’پیچھے‘‘ سے نکل جاتے ہیں…

البتہ جب قومی سلامتی،ملکی وقار یا دفاع کے معاملات درپیش ہوتے ہیں تو اِن کی جمہوری اقدار کی ’’شب بیداری‘‘ کے عظیم لمحات شروع ہوجاتے ہیں…یہ اُسی طرح کے ’’اچھے مسلمان‘‘ بن جاتے ہیں جس طرح ہم سب رمضان المبارک میں مسلمانوں کی طرح ایک دوسرے کا خیال کرنا شروع کردیتے ہیں،یوں ہی ایسے کہ جیسے رمضان المبارک میں مساجد بھر جاتی ہیں اِسی طرح دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے خلاف ABCجماعتیںAPCبُلا کرجمہوریت کے دفاع کے لیے متحد و منظم ہوجاتی ہیں…

کوئی بُرا نہ مانے مگر ادب سے عرض کروں گا کہ اِس وقت بھی ’’پردے کے پیچھے‘‘ یہی کچھ ہورہا ہے …جمہوریت کی بقا کے نام پر آمریت کے ’’سابق نامی حامی‘‘ یوں بڑھ چڑھ کر گفتگو فرما رہے ہیںکہ گویااُنہوں نے ’’انتخابی راہ گذاروں‘‘ کے علاوہ کبھی کوئی راستہ استعمال کیا ہی نہ ہو!!…اسلام آباد میں براجمان کچھ ’’اُلو کٹ‘‘ لاہورمیں ’’گلو بٹ‘‘ اُتار دیتے ہیں تو کبھی طیارے کو طوفان سمجھ کر رخ موڑنے کی کوششیں کرتے ہیں تاکہ ’’خبریں‘‘ کچھ اور بنیں اور فوجی کامیابیاں ’’ایسی بریکنگ نیوز‘‘ کے عقب میں گہنا کر رہ جائیں…اور جب اِس پر بھی بس نہیں چلتا تو آئی ڈی پیز کے درد، مصائب، آلام، تکالیف اُنہیں اپنے دکھوں سے زیادہ محسوس ہونے لگتے ہیں…

آنسو بہاتی تحریریں، چیختے مبصرین اور تڑپتے تجزیہ نگار فوجی آپریشن کے ’’مضر اثرات‘‘ پر دن و رات (معاذ اللہ) عبادات کی طرح لکھتے اور بولتے رہتے ہیں…اب کچھ نہیں ملا تو جناب اطہر عباس کے بیان کو لے کر ایک نئی مہم کا آغاز کرنے کی عجیب کوششیں کی جارہی ہیں…ریٹائرڈ افسران کو ’’ذمے داری‘‘ کا سبق پڑھانے والے کیا مجھ جیسے ناقص علم رکھنے والے کی رہنمائی فرما سکتے ہیں کہ اُنہوں نے خود کتنی مرتبہ ’’ذمے داری‘‘ کا مظاہرہ کیا؟…

ایک بڑے منصب پر فائز ہونے کے باوجود وہ مشکل حالات میں اکثر ’’غائب‘‘ ہوجاتے ہیں، جب بھی کچھ اِرشاد فرماتے ہیں ، اُن تمام الفاظ کا خمیر سختی اور تُرشی سے تیار ہوتا ہے، ہرو قت ناراض رہنا اُن کی عادت بن چکی ہے …’’مذاکرات‘‘ کے بے سُرے تاروں کو چھیڑنے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اور اب جب کہ پاک افواج پہاڑوں،غاروں اور بیابانوں میں انسانیت کے قاتلوں کا شکار کررہی ہے تو اِن ’’جَل کُکڑوں‘‘ کو یکایک فوج کے وقار اور ذمے دارانہ رویوں کا خیال یوں ہی آگیا جس طرح ساحر لدھیانوی کے دل میں’’کبھی کبھی ‘‘  خیال آیا کرتا تھالیکن وہ تو خیر سے سمجھ دار بھی تھے اِسی لیے آخر میں کہہ گئے تھے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ تُو ’’غیر ‘‘ہے مگر یوں ہی ،کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ‘‘…

انتہائی عاجزی کے ساتھ ملتمس ہوں کہ جناب من! فوج کو اپنا کام کرنے دیجیے گوکہ آپ کو اُن کی رہنمائی کرنا چاہیے تھی لیکن آپ نے ’’امن‘‘ کے نام پر ’’جنگ‘‘ کرنے والوں کو سانس لینے کے ’’مہینے ‘‘ فراہم کیے…اُنہیں مجتمع ہونے کا موقع نہیں بلکہ مواقع دیے اور چونکہ وہ فطرتاً ستم گر،پیشہ ور اور اغیار کی گودوں سے اُچھل کر ہم پر حملہ آور ہونے کی لذت کے طلب گار ہیں اِسی لیے کوئی بھی لمحہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے…اِن سفاکوں کو جب اور جہاں کارروائی کے ’’اِشارے‘‘ ملتے ہیں یہ لمحوں کی تاخیر نہیں کرتے اور نہتے پاکستانیوں پر یا تو ٹوٹ پڑتے ہیں یا اپنے باطل نظریات کو جسم کے اندر بھر بھر کے پھٹ جاتے ہیں۔

لہٰذا میں آپ کی شاہانہ طبیعت کی بارگاہ میں ملتجی ہوں کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کے بیان پر پیچ و تاب کھانے کے بجائے پوری قوم کو ایک مدت سے جو غم کھائے جارہا ہے کم از کم اُس میں شریک ہو کر ہی کچھ محسوس کر لیجیے…اپنی تراکیب اور تدابیر سے آپ کے ’’بڑوں‘‘ نے دھیان بھٹکانے کی ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ لی…بعض اِدارے’’ اپنا کر‘‘آ پ کے ’’اپنوں‘‘ نے اداریے تک لکھوا لیے لیکن فرزندانِ دھرتی کا ٹکا سا جواب آپ سب ہی کو مل چکا ہے کہ ہم سب اپنی فوج کے ساتھ ہیں اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اپنے جوانوں کا ساتھ دیں گے…بہت ہوچکا،مذاکرات کے نام پر کئی ڈرامے اسٹیٹ اسٹیج کر چکی ہے لیکن اب اُنہیں مٹانے کا وقت ہے جو اِ س وطن ہی کو مٹانے کے درپے ہیں…شدت،جبر اور تسلط کے جراثیم درحقیقت اُس ’’پاک وردی‘‘ کو دیکھ کر ہی بھاگتے ہیں جس پر نشانِ حیدر سجتا ہے …

یہ آخری لڑائی ہے، یہ آخری موقع ہے …جو شریک نہیں ہیں وہ دُور رہیں تو بہتر ہے ،اور جو ساتھ دے رہے ہیں اُن پر تنقید کرنے کے بجائے خاموشی بہترین ’’توبہ ‘‘ ہے…رمضان المبارک کے مقدس اور متبرک مہینے میں یہ جہاد اپنے اختتام کو ضرور پہنچے گا اورمیرا ایمان ہے کہ اُن تمام ابن الوقتوں کی اُمیدوں پریقینا اوس پڑے گی جنھوں نے جمہوریت کی بقا کے نام پر پاکستان کی افواج کے خلاف ایکSleeper Cell چلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی…سیاست دانوں کے اِس Sleeper Cellکا پردہ ضرور چاک ہوگا اور وہ تمام چہرے سامنے آجائیں گے جنھیں دہشت گردوں کے ’’آمنے‘‘ بیٹھ کر زیادہ سکون ملتا تھا…!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔