پاکستانی نژاد آصف مرچنٹ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے میں ملوث نہیں، وائٹ ہاؤس

ویب ڈیسک  بدھ 7 اگست 2024
تفتیش کے دوران کوئی ثبوت نہیں ملے کہ وہ ٹرمپ کو قتل کرنے کی سازش کر رہے تھے، ترجمان وائٹ ہاؤس

تفتیش کے دوران کوئی ثبوت نہیں ملے کہ وہ ٹرمپ کو قتل کرنے کی سازش کر رہے تھے، ترجمان وائٹ ہاؤس

 واشنگٹن: ترجمان وائٹ ہاؤس نے تردید کی ہے کہ پاکستانی نژاد آصف مرچنٹ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر حال ہی میں ہونے والے قاتلانہ حملے میں ملوث ہیں۔

عالمی خبر رساں کے مطابق وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جین پیئر نے پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ آصف مرچنٹ پر فرد جرم ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے پر عائد کی گئی۔

ترجمان وائٹ ہاؤس کیرین جین پیئر نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے تفتیش کے دوران کوئی ثبوت نہیں ملے کہ وہ ٹرمپ کو قتل کرنے کی سازش کر رہے تھے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے الزام میں پاکستانی شہری پر فرد جرم عائد

خیال رہے کہ امریکی اخبار نے ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے اور اس کی منصوبہ بندی کا تعلق پاکستانی نژاد آصف مرچنٹ سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ عدالت میں 46 سالہ آصف مرچنٹ پر امریکا میں 3 طرح کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا ہے جن میں ریلیوں میں افراتفری مچانا، انٹیلی جنس ڈیوائسز، راز چرانا اور کسی سیاسی شخصیت کو قتل کرنے کے لیے اجرتی قاتل سے رابطہ کرنا شامل ہیں۔

تاہم عدالتی دستاویز میں اُس سیاسی شخصیت کا نام درج نہیں جو کہ ممکنہ طور پر سیکیورٹی خدشات کے باعث خفیہ رکھا گیا ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق آصف مرچنٹ کو12 جولائی کو اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ امریکا چھوڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔

کسی فلمی اسٹوری کی طرح اس کا ڈراپ سین ہوا تھا۔ آصف مرچنٹ نے اپنے منصوبے کے لیے جس شخص سے رابطہ کیا تھا اس نے امریکی انٹیلی جنس کو بتادیا۔

پھر امریکی انٹیلی جنس ادارے کے خفیہ اہلکار اجرتی قاتلوں کے بھیس میں آصف مرچنٹ سے ملاقات کرتے ہیں اور قتل کی منصوبہ بندی بھی طے کرتے ہیں۔

دوران گفتگو جیسے ہی امریکی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کو اندازہ ہوتا ہے کہ آصف مرچنٹ واپس جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اُسے ایئرپورٹ جانے سے قبل ہی دھر لیا جاتا ہے۔

آصف مرچنٹ کی ایک فیملی ایران میں بھی ہے اور وہ شام بھی آتا جاتا رہتا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ آصف مرچنٹ سے یہ کام کون کروا رہا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔