(خیالی پلاو) - اپنا کاروبار

اسامہ جمال  جمعـء 4 جولائی 2014
ہمارا یہ نیا کاروبارروزانہ کھلتا ہے پروان چڑھتا ہے مارکیٹ میں اپنی دھاک بٹھاتا ہے اور پھر شام ڈھلتے ہی بند ہوجاتا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ہمارا یہ نیا کاروبارروزانہ کھلتا ہے پروان چڑھتا ہے مارکیٹ میں اپنی دھاک بٹھاتا ہے اور پھر شام ڈھلتے ہی بند ہوجاتا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

اگر یہ کہا جائے کہ انسانی زندگی خواب کے آنے اور جانے سے بھری پڑی ہے تو یقینی طور پر غلط نہیں ہوگا۔ کہیں کوئی اچھی نوکری کا خواب دیکھتا ہے تو کوئی اچھی گاڑی کا، یہ تو وہ خواب ہیں جو ہم سے بیشتر دیکھتے ہیں، باقی خواب تو دیگر بھی ہیں جو اکثر غیر شادی شدہ دیکھتے ہیں، جی ، اگر آپ بھی غیر شادی ہیں تو میری نامکمل بات کو سمجھ گئے ہونگے کہ میں شادی کے خواب کی ہی بات کررہا ہوں مگر افسوس کہ یہ خواب اچھی نوکری اور اچھی گاڑی کے بغیر مکمل ہونے سے کتراتا ہے۔

لیکن فی الوقت میں اِن تینوں میں سے کوئی خواب نہیں دیکھ رہا کیونکہ اچھی نوکری موجود ہے، گاڑی ابا جی کی ہے ہاں البتہ بیگم موجود نہیں اورابھی میں  ایسا کوئی خواب دیکھنے کے موڈ میں بھی نہیں ہوں۔  میرا خواب کچھ مختلف ہے اور آپکو لازمی طور پر معلوم ہوجائے گا مگر شرط یہ ہے کہ اُس کے لیے آپ کو میرا پورا بلاگ پڑھنا ہوگا۔

شام ڈھلتے ہی دفتر سے عارضی نجات حاصل کرنے کی خوشی منانے اوراپنے دن بھر کی بھڑاس نکالنے کے لئے ہم سب دوست جنہیں عام الفاظ میں نوکر حضرات بھی کہا جاتا ہے،  اپنے والد صاحب کی جان توڑ محنت سے حاصل کردہ پھل یعنی ’ابُو کی موٹر کار‘ میں فرّاٹے بھرتے اور اے سی کی ٹھنڈی حوا کے ساتھ اپنے باس کو کوستے ایک شیشا بار پے پناہ لیتے ہیں جو ہمارا روز کامعمول ہے۔

ایک دوسرے کی دن بھر کی کار گزاری کی داستان اورہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا حساب کتاب لگانے کے بعد ہم میں سے ایک نو کر’ اپنا کاروبار‘ شروع کرنےکا ارادہ سامنے رکھتا ہے اور سارے نوکر دن بھر اپنے باس اور دیگر منیجر حضرات کے بارہا  یاد دلائی گئی اوقات کو پسِ پُشت ڈال کر سب نوکرکاروبار کے آغاز کے لیے  ڈیولپر اور تجربہ کار انوسٹر کی حیثیت سے سامنے آجاتے ہیں اور  اپنے اپنے دماغ کے فتور، معاف کیجیے گا میرا مطلب ہے اپنے ‘fool proof ideas’ کی گٹھری کھولتے ہیں اور پھرہر نوکر اپنے اندر کے بل گیٹز، سٹیو جابز، منشا اور ٹاٹا کو گھسیٹ کے باہر نکالتے ہیں اور شیشے کے ہر کش کے ساتھ ایک نیا کاروبارکھلتا ہے پروان چڑھتا ہے مارکیٹ میں اپنی دھاک بٹھاتا ہے اور جیسے ہی شیشے کا پائپ دوسرے نوکر کے ہاتھ میں جاتا ہہ وہ بالکل نئے سرے سے ایک نیا اور منفرد کاروبارکھول لیتا ہے گویا کے شیشے کا پائپ شمعِ محفل کا کردار ادا کر ررہا ہوتا ہے یہاں اِس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم سب اِنتہائی سنجیدگی کے ساتھ اِس پوری ‘brain storming activity’ میں حِصّہ لیتے ہیں اور ہر کاروبار کے ائیڈیا کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو لعن تعن کرنا بھی نھیں بھولتے ہیں کہ آج تک ہم نے یہ کام شروع کیوں نھیں کیا اور دوسروں کی غلامی کیوں کر رہے ہیں۔

یہ سِلسِلہ اِس ہی طرح جاری رہتا ہے یہاں تک کے امّی کا فون آجاتا ہے اور پھر چندہ کر کہ بمشکل شیشے کا بل ادا کیا جاتا ہے اور سب کو گھر جا کے کھانا کھانے میں ہی آفیت نظر آتی ہے کیوں کہ اب چاہے ٹاٹا ہو یا بل گیٹز کسی کی جیب اِس بات کی اِجازت نھیں دیتی کہ وہ روزانہ ہوٹل کے کھانے کا بل کا بوجھ برداشت کرسکے آخر سب نوکر جو ٹھہرے۔

بس اِس ہی کے ساتھ محفل اِس بات پے ختم ہوتی ہے کہ اپنا کاروبار ضرور کریں گے ورنہ صرف نوکری سے تو اپنا اور اپنی مستقبل کی نسل کا گزارہ ناممکن سا نظر آتا ہے، اور  پھر ہم اپنی کار شیشہ بار سے نکالتے ہیں اور گھر آجاتے ہیں کیونکہ اگلی صبح پھر نوکری کے لیے دفتر جو پہنچنا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔