- لاہور سے قدیم اور لاکھوں مالیت کے قیمتی مجسمے جاپان اسمگل کرنے کی کوشش ناکام
- ہم نے طویل جنگ کا انتخاب کیا ہے جو دشمن کیلئے مہنگی اور تکلیف دہ ہوگی، ابو عبیدہ
- ایف بی آر کو ریاست کے ملکیتی اداروں کو جاری کردہ ریکوری نوٹس واپس لینے کی ہدایت
- پاکستان چینی شہریوں اوراداروں کی حفاظت کیلیے موثر اقدامات کرے، چینی وزارت خارجہ
- ن لیگ کے ساتھ الائنس کا پیپلزپارٹی کو سیاسی نقصان ہوا، گورنر پنجاب
- لبنان میں پھنسے پاکستانیوں کو غیرملکی پرواز سے وطن لانے کا فیصلہ
- کراچی واقعے کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے، وزیراعظم کی یقین دہانی
- ایف آئی اے کی کارروائی؛ جعلی دستاویزات پر سفر کرنے والامسافر گرفتار
- اسرائیلی جارحیت کا ایک سال: کراچی میں سیکڑوں مقامات پر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی
- اسلام آباد سے گرفتار خیبرپختونخوا کے اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری
- کراچی کا پارہ 3 ڈگری بڑھ گیا، کل 39 تک جانے کا امکان
- رانی پورزیادتی و ہلاکت کیس؛ ’’ ہمیں دھمکایا گیا اور ڈرا کر صلح نامہ پر دستخط کرائے‘‘ والدین
- سائٹ میں نئی بھرتیوں سے متعلق اطلاعات غلط ہیں،ایم ڈی
- مودی سرکار فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے؛ راہول گاندھی
- پنجاب حکومت کا لاہور میں 7 سے 9 نومبر یوتھ فیسٹیول کرانے کا اعلان
- اسرائیل میں غزہ پر حملوں کی تقریب پر حماس کے راکٹ حملے؛ تصاویر وائرل
- کراچی؛ بیوی نے فائرنگ کرکے شوہر کو قتل کردیا
- نوکری کے لیے بھیجی گئی درخواست 48 برس بعد واپس موصول
- ایم این اےسہیل سلطان کیخلاف ریفرنس،اسپیکر کا کارروائی کیلیےالیکشن کمیشن کو خط
- یواے ای؛ دفتر میں خاتون ساتھی کا گال چھونے پر ملازم پر 10 ہزار درہم جرمانہ
پاکستان کے ویران میدان اور اولمپکس میں نمائندگی
آبادی ہے بائیس کروڑ (کم و بیش)، ملک ہے دنیا میں ایک ایٹمی طاقت، خطے کی جغرافیائی ساخت کے حوالے سے بھی بہت زیادہ اہمیت ہے، تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بھی ہیں (اپنی دانست میں)، لیکن عالمی دنیا میں اس کے باوجود ہم وہ مقام حاصل نہیں کر پارہے جو ہمیں کرنا چاہیے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم عالمی سطح پر شناخت کے حوالے سے اہم لوازمات نظر انداز کرتے جارہے ہیں۔
پوری دنیا اولمپکس مقابلوں کے بخار میں مبتلا ہے، اور یقیناً ایسا ہونا بھی چاہیے کیوں کہ ہر ملک کی شناخت اور پہچان کے حوالے سے یہ مقابلے اہم ہیں۔ چند لاکھ کی آبادی والے ممالک بھی ان مقابلوں میں بہترین کارکردگی دکھا کر اپنی پہچان عالمی دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن کم و بیش بائیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک یعنی وطن عزیز پاکستان میں صرف سات ایسے ہیرے سامنے آئے جنہوں نے اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اور میں سلام پیش کرتا ہوں ان ساتوں ایتھلیٹس کو جنہوں نے کم از کم کوشش تو کی اور انہیں کوشش کے نمبر ضرور ملنے چاہئیں۔
میڈل کی واحد امید ارشد ندیم رہ گئے تھے۔ جنھوں نے اپنی بھرپور کوشش سے جویلین تھرو میں نہ صرف پاکستان کے لیے گولڈ میڈل حاصل کیا، بلکہ ایک نیا ریکارڈ بنانے میں بھی کامیاب رہے۔
لیکن ہم ہار جانے والے ایتھلیٹس پر طنز کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ ہم نے یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کیا کہ اس نہج تک معاملات پہنچے کیوں؟ کیا وجوہات ہیں کہ ہم مسابقت کی دوڑ میں اتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔ یا شاید ایک صحت مند معاشرہ ہماری ترجیح ہی نہیں۔ اور نہ ہی عالمی دنیا میں ایک مثبت تشخص ہماری پہچان ہے۔ ہم پوری دنیا میں صرف ایک بھکاری کے طور پر ہی اپنی پہچان پہ خوش ہیں کہ کم از کم کچھ مل تو جاتا ہے۔
ہم کھیلوں کے معاملے میں اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وائلڈ کاڑد انٹری پر بھی خوشی سے بغلیں بجاتے ہیں، جب کہ بنیادی طور پر یہ بھی بھیک کی ہی ایک شکل ہے۔ پوری قوم کی دعائیں ارشد ندیم کے ساتھ تھیں اور انھوں نے قوم کو مایوس بھی نہیں کیا۔ لیکن کیا صرف ایک جیولین ہی ایسا ایونٹ ہے جس میں فائنل راؤنڈ تک پہنچنا بس ہماری کامیابی ہے؟
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک، اور وسائل سے مالا مال دھرتی نے آج تک گرمائی اولمپکس میں صرف تین گولڈ میڈل جیتے ہیں، وہ بھی قومی کھیل ہاکی میں۔ اور آج ہمارا یہ قومی کھیل جس حال میں ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ اذلان شاہ ہاکی کپ کی کارکردگی کو اس لیے بھی موضوع بحث نہ لائیے گا کہ تین مرتبہ کی اولمپک چیمپئن، چار مرتبہ کی ورلڈ چیمپئن، آٹھ مرتبہ ایشین گیمز چیمپئن، تین دفعہ ایشیا کپ، تین دفعہ ہی چیمپئنز ٹرافی، کی کارکردگی کے آگے ایک اذلان شاہ ہاکی کپ کی رنر اپ کی سیڑھی تک پہنچ پانا ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
بورے والا، وہاڑی اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں ہاکی کے میدانوں کی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ س کے علاوہ صرف دس ہاکی اسٹیڈیمز ہیں جن میں سے اکثر پر آسٹروٹرف کی صورتحال مخدوش ہے۔ ہاں لیکن پاکستان ہاکی فیڈریشن میں اقتدار کےلیے رسہ کشی پورے عروج پر رہتی ہے۔ حاصل کردہ دس میڈلز میں سے مزید پر قسمت کی دیوی تب مہربانی ہوئی جب 1956 میں عبدالخالق نے سلور میڈل حاصل کیا۔ اس کے علاوہ ریسلر بشیر احمد، 88 میں حسین شاہ، اور اس کے علاوہ نیرو چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ کبھی کوئی سوئمر وائلڈ کارڈ پر انٹری مار دیتا ہے اور کبھی کوئی ایتھلیٹ۔ بس ہماری کھیلوں کی اتنی سی کہانی ہے۔ اور بات جہاں تک ارشد ندیم کی ہے، وہ ایک عالمی معیار کی جیولین کےلیے در بدر ہوتے رہے اور بمشکل اس کا انتظام ہوسکا۔
ہم نے پاکستان میں کرکٹ کو کرتا دھرتا بنا لیا ہے۔ جب کہ آج تک اولمپکس میں حکمرانی رکھنے والے اہم ممالک میں سے چین میں کرکٹ کا وجود ابھی طفل مکتب تک کا ہے شاید اور انکل سام کے حوالے سے اب کرکٹ کے بچونگڑے تگڑے ہورہے ہیں۔ یعنی دنیا دیگر کھیلوں کو اپنی پہچان بنا رہی ہے جن پر اخراجات بھی کم آتے ہیں اور کم جگہ پر ان کی تربیت کا بھی اہتمام ہو سکتا ہے۔ مثال ٹیبل ٹینس کی ہے، کتنی جگہ اور سرمایہ چاہیے آپ کو؟ ایک ایتھلیٹس کا میدان اچھا ہر شہر میں ہو تو سوچیے، ہیمر تھرو، جیولین تھرو، جمناسٹک، تائی کوانڈو، کراٹے، والی بال، ہینڈ بال، رننگ، ڈسکس تھرو، اسکواش، ٹینس اور اس جیسے کتنے ہی مزید کھیل ہیں جن کے لیے ایک اسٹیڈیم میں جگہ مہیا ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم نے کرکٹ میدانوں کے علاوہ کسی میدان کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔
ہم نے ان کھیلوں کی طرف آج تک توجہ ہی نہیں دی جن پر بہت کم محنت اور لاگت سے ہم زیادہ تمغے جیت سکتے تھے۔ بلکہ ہماری امیدیں صرف ہاکی سے رہیں اور اب تو ہاکی کو بھی نافرمان بیٹے کی طرف گھر سے نکال کر بس سارا لاڈ کرکٹ ٹیم کےلیے ہے۔
گرمائی یا سرمائی اولمپکس میں ایسے ایسے ممالک کے نام سامنے آتے ہیں جو ہم نے سنے ہی پہلی دفعہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم پانچواں آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک ہونے کے باوجود مین راؤنڈ سے پہلے ہی بوریا بستر سمیٹنے کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ اور ایسے ایسے کھیل دیکھنے کو ملتے ہیں اولمپکس میں کہ ہم نے پہلے دیکھے ہی نہیں ہوتے لیکن ہم کرکٹ کی دنیا سے باہر آنے کو تیار نہیں۔
اس مرتبہ اولمپکس مقابلوں میں 32 کھیلوں میں میڈل کی جنگ ہورہی ہے۔ اور پاکستان کی کتنے کھیلوں میں نمائندگی ہے؟ آپ سوچیں گے تو لمحہ فکریہ آپ کا متنظر ہوگا۔ اور ان تمام کھیلوں کےلیے کتنی سہولیات چاہئیں، اس کےلیے بھی بس اتنا کہنا مناسب ہوگا کہ ایک کرکٹ ٹیم ختم کر دیجیے تو سارے کھیلوں کا خرچ نکل آئے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔