حکومت کا مثبت اقدام

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 10 اگست 2024
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ریاست کے ایک ستون نے لاپتہ افراد کے معاملے کی سنگینی کو محسوس کر ہی لیا۔ وفاقی کابینہ کے گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو فی کس 50 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاپتہ افراد کا کمیشن گزشتہ ایک دہائی سے کام کر رہا ہے جب کہ اپنے گزشتہ دور میں وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ میں شامل تمام جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل کمیٹی بنائی تھی۔

نگراں حکومت نے لاپتہ افراد کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے ایک اور کمیٹی قائم کی تھی۔ اس کمیٹی کی سفارشات قبول کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے خاندان کے افراد کو فی کس 50 لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔ وزیر قانون نذیر تارڑ نے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کونسلٹینٹ اینڈ لیگل ریزولیشن کے تحت یہ امداد دی جائے گی۔ وزیر قانون نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وہ گمشدہ خاندانوں کے دکھ میں شریک ہیں۔ سابقہ پی ڈی ایم حکومت میں وزیر قانون کی قیادت میں اس بارے میں قائم ہونے والی کمیٹی کو بتایا گیا کہ انکوائری ایکٹ کے تحت جو کمیشن بنا ہے، اس کمیشن کے پاس 12269 لاپتہ افراد کا ڈیٹا ہے۔

ایک ہزار مقدمات جو پانچ سال سے زیادہ عرصے سے زیرِ التواء ہیں، ان کو حل کیا جائے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ لاپتہ افراد کے خاندان کا سربراہ زندہ ہے تو نادرا سے اس کا قانونی سرٹیفکیٹ حاصل کیا جائے گا۔ وفاقی کابینہ نے اس تجویز کو بھی منظور کرلیا کہ حکومت ہر دو سال بعد لاپتہ افراد کے معاملے کا جائزہ لے گی۔

ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو سب سے پہلے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور اقتدار میں سنجیدگی سے لیا گیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے چند افراد کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس کمال منصور عالم کی قیادت میں لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے کمیشن قائم ہوا تھا۔ 2010میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم ہوا۔ اس کمیشن کی کارکردگی پر اعلیٰ عدالتوں کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور لاپتہ افراد کے لواحقین نے سخت اعتراضات کیے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 2018 میں میر سجاد کے مقدمے میں لاپتہ افراد کی تعریف کرتے ہوئے رولنگ دی تھی کہ سرکاری ایجنسی کسی شہری کو لاپتہ کرے تو وہ لاپتہ شخص کہلائے گا۔ انھوں نے دورانِ سماعت یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ مل سکتا ہے۔ اس رولنگ کی گونج ایک لاپتہ صحافی مدثر ناروکے اغواء کے مقدمے کی سماعت کے دوران سنائی دی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اخترکیانی نے لاپتہ کشمیری شاعر کے مقدمے میں جو فیصلہ سنایا ، حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی مگر وہ مسترد ہوگئی۔

سندھ ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے گزشتہ 2 برسوں کے دوران لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کے لیے متعدد حکم نامے جاری کیے مگر یہ معاملہ ہنوز التواء کا شکار ہے۔ یورپی یونین نے پاکستان کی برآمدات کو GSP+ کا اسٹیٹس برقرار رکھنے کے لیے پاکستان میں انسانی حقوق کے معیارکو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات تجویزکیے ہیں۔ ان میں کسی ایک شہری کو لاپتہ قرار دینے کو فوجداری جرم قرار دینے اور قانون سازی کا معاملہ بھی شامل تھا۔

سابقہ دور میں قومی اسمبلی میں شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے قانون کا مسودہ منظورکیا گیا، یہ مسودہ منظوری کے لیے سینیٹ گیا۔ سینیٹ میں اس مسودے کو حتمی شکل دینے کی کارروائی تکمیل کے قریب تھی کہ اس وقت کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اچانک بتایا کہ اس قانون کا مسودہ لاپتہ ہوگیا ہے۔ یہ مسودہ واپس تلاش نہ ہوسکا۔ موجودہ حکومت نے اس بارے میں پیش رفت کی مگر عملی طور پر یہ مسودہ قانون نہیں بن سکا۔ وفاقی کابینہ کا لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کا اعلان اگرچہ مثبت قدم ہے اور ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر لاپتہ افراد کے معاملے میں کہیں نہ کہیں ریاست کے کردار کو تسلیم ضرورکیا گیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نامی تنظیم بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے ایک تحریک چلا رہی ہے۔ بولان میڈیکل یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے والد عبد الغفار لانگھو قلات کے رہنے والے تھے، وہ واپڈا میں ملازم تھے اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ نامعلوم افراد 2006میں انھیں اٹھا کر لے گئے تھے، وہ کچھ عرصہ بعد واپس آگئے۔ 2009 میں جبری طور پر لاپتہ کر دیے گئے اور 2011 میں ان کی مسخ شدہ لاش کہیں سے ملی تھی۔

اس وقت ماہ رنگ پانچویں جماعت کی طالبہ تھی، ان کی دیگر ساتھیوں کے قریبی عزیز بھی برسوں سے لاپتہ ہیں۔ بلوچستان کی مزاحمتی تحریک میں سرگرم عمل بعض کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس صدی کے آغاز سے سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب عورتوں کو بھی اغواء کر کے لے جانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، ان افراد کا برسوں پتہ نہیں چلتا۔ کچھ عرصے پہلے تک لاپتہ افراد میں سے کچھ کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف شہروں اورکراچی کے مضافاتی علاقوں سے برآمد ہوتی تھیں مگر چند برسوں سے یہ سلسلہ تھم گیا ہے، مگر اعلیٰ عدالتوں کے احکامات کے باوجود سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

چند سال قبل ایک نوجوان لاپتہ ہوا، اس کی مسخ شدہ لاش ملی۔ اس نوجوان کا باپ ماما قدیر نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی اورکراچی سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا۔ ان کے ساتھ سیمی بلوچ اور دیگر خواتین شامل تھیں۔ بین الاقوامی میڈیا نے اس مارچ کو خوب کوریج دی تھی۔گزشتہ سال ڈاکٹر ماہ رنگ اور ان کی خواتین ساتھیوں نے اسلام آباد تک تقریباً ایک ہزار میل پیدل مارچ کیا جس کی بناء پر لاکھوں بلوچ گھروں کو آئے۔ اب پھر 28 جولائی سے ڈاکٹر ماہ رنگ نے گوادر سے مارچ کا فیصلہ کیا۔

اس احتجاج میں بڑی تعداد میں افراد شامل تھے۔ حکومت نے اس مارچ کو روکنے کے لیے اقدامات کیے مگر یہ احتجاج ہوا، صوبہ میں کشیدگی بڑھ گئی۔ لاپتہ افرا دکا مسئلہ صرف بلوچستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تینوں صوبوں سے لوگ لاپتہ ہوئے ہیں۔ راولپنڈی کی مسز جنجوعہ گزشتہ 20 برس سے اپنے لاپتہ شوہرکی بازیابی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ پنجاب کے شہر منڈی بہاؤ الدین کے رکن قومی اسمبلی حاجی امتیازکا مقدمہ بھی جبری گمشدگی کے افراد کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ حکومت نے لاپتہ افراد کے رشتے داروں کو معاوضہ دینے کا تو ایک مثبت فیصلہ کیا ہے مگر اس مسئلے کو مکمل طور پر حل ہونا چاہیے، یہ معاملہ پاکستان کا بیرونی دنیا میں امیج متاثر کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔