دکھ جھیلے بی فاختہ……

نصرت جاوید  جمعـء 4 جولائی 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

آپ سے کیا پردہ۔ بچپن سے جوانی کی دہلیز تک پہنچتے ہی مجھے ’’انقلاب‘‘ کی لت لگ گئی تھی۔ ’’جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اُچھالے جائیں گے‘‘ کو دیکھنا لازم سا دِکھنا شروع ہو گیا تھا۔ خاص طور 1970ء کی دہائی کے آغاز کے ان دنوں میں جب ہر انسان روٹی، کپڑا اور مکان مانگ رہا تھا اور مال روڈ لاہور پر ’’جہیڑا واہوے اوہی کھاوے (جو ہل چلائے وہی فصل اٹھائے وغیرہ)‘‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ ’’انقلاب‘‘ مگر نہ آیا۔ پاکستان دو لخت ضرور ہو گیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت جس نے ایک ’’نئے پاکستان‘‘ کی تعمیر شروع کر دی۔

مارچ 1977ء کے قریب پہنچ کر اندازہ ہوا کہ ’’نیا پاکستان‘‘ روٹی، کپڑا اور مکان نہیں چاہتا۔ اس کے نو ستارے ہیں جو باہم ملکر اسلام کے نام پر بنائے گئے اس ملک میں نظام مصطفیٰ ؐکا مکمل نفاذ چاہتے ہیں۔ سڑکوں پر آنسو گیس، پولیس فائرنگ اور پھر کرفیو کے کئی بار نفاذ کے متواتر مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ مگر نظام مصطفیٰؐ کے بجائے 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق تشریف لے آئے۔ انھوں نے اسلام تو مکمل طور پر نافذ نہ کیا مگر پاکستان کے تمام مالی اور فکری وسائل کو افغان جہاد کو تیز تر کرنے کے لیے ضرور وقف کر دیا۔ سوویت یونین جیسی سپر طاقت کو انھوں نے افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

افغانستان کے بعد جہادیوں نے تاجکستان اور ازبکستان تک پہنچنا تھا۔ مگر یہود و ہنود نے سازش کر دی۔17 اگست 1988ء ہو گیا اور پھر پورے دس سال تک محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں اپنی اپنی باریاں لیتی رہیں۔ قوم کو مزہ نہ آیا تو ان کی روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے کے لیے بالآخر جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کا سافٹ  (Soft) انقلاب برپا کر کے نچلی سطح سے True and  not Sham  جمہوریت کی عمارت کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ ابھی وہ اس عمارت کی تعمیر مکمل نہ کر پائے تھے کہ 2007ء ہو گیا۔ کالے کوٹوں کے لشکر سڑکوں پر آ گئے۔ ’’ریاست ہو گی ماں کے جیسی‘‘ ہمارا قومی نعرہ ہوگیا۔

یہ نعرہ لگاتے لگاتے بالآخر ہم نے ایک دن نواز شریف کو اپنے ماڈل ٹائون لاہور والے گھر سے پولیس کے ناکے توڑ کر اسلام آباد کی جانب موجِ زن دیکھا۔ وہ لیکن جب گوجرانوالہ پہنچے تو انھیں جنرل کیانی کا فون آ گیا۔ ’’ارسلان کے ابو‘‘ اس فون کے بعد اپنے عہدے پر بحال ہو گئے۔ بحالی کے بعد وہ پوری ریاست کے لیے ایک سخت گیر ابو بن گئے اور ریاست ان کے خوف سے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئی۔

مجھے اور آپ کو مائوں جیسی شفقت مہیا نہ کر پائی۔ پھر نمودار ہوئے عمران خان۔ وعدہ ہوا تبدیلی کی سونامی برپا کرنے کا۔ مگر 2013ء میں انتخابات ہو گئے۔ تبدیلی کی سونامی تو نہ آئی مگر نواز شریف صاحب تیسری بار اس ملک کے وزیر  اعظم بن گئے۔ اس کے بعد میرا شکست خوردہ ذہن تو یہ طے کر بیٹھا کہ اس ملک میں ’’انقلاب شنقلاب‘‘ دیکھے بغیر ہی میں ایک دن فوت ہو کر قبر میں دفنا دیا جائوں گا۔

اللہ بھلا کرے مگر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا 23 جون 2014ء کو وہ کینیڈا سے ایک بار پھر پاکستان تشریف لے آئے ہیں۔ انقلاب دشمنوں نے ان کا جہاز اسلام آباد کے ایئرپورٹ پر اُترنے نہ دیا۔ ان کے طیارے کا رُخ لاہور کی جانب موڑ دیا گیا۔ طیارہ جب لاہور لینڈ کر گیا تو قائد انقلاب نے اس وقت تک جہاز سے اُترنے سے انکار کر دیا جب تک گورنر پنجاب ایک بلٹ پروف گاڑی سمیت انھیں بحفاظت ان کی رہائش تک پہنچانے کو حاضر نہ ہوئے۔

علامہ صاحب نے وطن لوٹ کر پہلے تو اپنے زخمی جاں بازوں کی تیمارداری کی۔ انھیں اپنی روحانی شفقت سے جلد از جلد صحت یابی کی راہ پر ڈالا۔ پھر ان کے ہاں پاکستان بھر کے انقلابی جمع ہو گئے۔ ملتان کی سب سے بڑی گدی کے مخدوم شاہ محمود قریشی سے لے کر لال حویلی کے انگریزی والے Lone Wolf ان کے دائیں بائیں بیٹھے۔ ایم کیو ایم کا ایک نمائندہ وفد خاص طورپر کراچی سے ان کا حوصلہ بڑھانے آیا اور سیاسی دائو پیچ کی باریک ہنر مندیاں فراہم کرنے کو گجرات کے دائمی انقلابی برادران۔ اس کانفرنس کے بعد میں ’’جدوجہد جدوجہد تیز ہو تیز ہو‘‘ کے نعروں کی بازگشت کا انتظار کرنے لگا۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے مگر دو دِنوں کے لیے ’’پردہ‘‘ فرما لیا اور ان کی ٹی وی اسکرینوں سے عدم موجودگی نے مجھے ایک بار پھر مایوس کرنا شروع کر دیا۔

صد شکر کہ میری مایوسی شدید تر نہ ہو پائی۔ علامہ صاحب جمعرات کی دوپہر ٹی وی اسکرینوں پر دوبارہ ظاہر ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اعلان فرمایا ہے کہ ٹی وی اسکرینوں سے اپنی عدم موجودگی کے دوران انھوں نے پورے ملک میں یونین کونسل کی سطح پر ’’عوامی انقلابی کونسلیں‘‘ قائم کر دی ہیں۔ ’’یومِ انقلاب‘‘ کے عین ایک روز بعد یہ کونسلیں ریاستی انتظام و انصرام سنبھال لیں گی۔ پس ثابت ہوا کہ میری قسمت میں ’’انقلاب‘‘ دیکھ کر مرنا لکھا ہے اور میں اپنی خوش بختی پر یقینا بہت شاداں محسوس کر رہا ہوں۔ ’’صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں‘‘۔

تھوڑا بہت کنفیوژن اب بھی ہے تو صرف اس بات پر کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ’’یومِ انقلاب‘‘ 14 اگست 2014ء سے پہلے طے کیا ہے یا نہیں۔ یہ سوال میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ 14  اگست 2014ء کو  ’’تبدیلی کے نشان‘‘ نے اسلام آباد کی جانب ملین مارچ کرنا ہے۔ اگر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنا ’’یومِ انقلاب‘‘ اس تاریخ سے پہلے رکھ ڈالا تو ایک حوالے سے علامہ صاحب کا ’’انقلاب‘‘ آج کے ’’ہٹلر و مسولینی‘‘ برادران کے خلاف نہیں سونامی کے ملین مارچ کو روکنے کے لیے برپا ہوتا نظر آئے گا۔ ٹھوس سیاسی بنیادوں پر تجزیہ کریں تو 14 اگست 2014ء سے پہلے والا ’’یومِ انقلاب‘‘ ہمارے ’’تبدیلی کے نشان‘‘ کے مجوزہ ملین مارچ کے خلاف ایک   Strike Preventive    ثابت ہو گی۔

’’انقلاب‘‘ کا اصل مسئلہ ہی عالمی تاریخ میں یہ رہا ہے کہ اس کا قائد صرف ایک فرد ہوا کرتا ہے۔ ’’قائد انقلاب‘‘ کے اعزاز کو کسی اور فرد کے ساتھ Share  ہی نہیں کیا جا  سکتا۔ حالیہ عالمی تاریخ میں ایک بھرپور انقلاب 1979ء کے دوران ایران میں برپا ہوا تھا۔ اس انقلاب سے پہلے ہزار ہا نوجوانوں نے تودہ اور مجاہدینِ خلق پارٹی وغیرہ کے ذریعے اپنی زندگیاں شاہِ ایران کی جابرانہ حکومت کے خلاف جدوجہد کی نذر کر دی تھیں۔ ان سب کی جدوجہد کا ثمر مگر امام خمینی نے اٹھایا۔ 31 اکتوبر 2011ء سے اس ملک میں انقلابی جدوجہد کے ذریعے تبدیلی لانے کا عمل درحقیقت ہمارے کپتان نے شروع کیا تھا۔ مگر ان کی جدوجہد کا ثمر اب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی بنائی عوامی انقلابی کونسلوں کو ملتا نظر آ رہا ہے۔ منیر نیازی کا شعر یاد آ گیا:

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا

عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا

دُکھ جھیلیں بی فاختہ اور انڈے کوئی اور کھا جائے والی کہانی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔