دھرنوں کی سیاست

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 12 اگست 2024
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

ملکی سیاست میں پچھلے کئی سالوں سے مطالبے منوانے کے لیے دھرنوں کا رواج معمول بنتاجارہا ہے۔ویسے تو یہ طریقہ پہلے بھی استعمال کیاجاتا تھا مگر طاہرالقادری نے اسے بڑے پیمانے پراورملکی دارالحکومت میںاہم شاہراہوں پرمنعقد کرکے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ایسا کرنے پرمجبور کردیا ہے اوروہ بھی اب اسی طریقہ کو ایک بہت بڑا کامیاب حربہ اورہتھیار سمجھ کرآئے دن استعمال کرتی رہتی ہیں۔اس مقصد کے لیے سب سے اہم جگہ راولپنڈی اور اسلام آباد ہی کو گردانا جاتا ہے۔

طاہرالقادری نے سب سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں ایک چار روزہ بڑا دھرنا دیا تھا ، وہ چاروں دن اپنی جذباتی اورجوشیلی تقریروں سے لوگوں کو اپنی جانب توجہ مرکوز کرواتے رہے۔اس وقت الیکٹرانک میڈیا نے بھی اُن کا بھرپور ساتھ دیا اورانھیں ایک مقبول سیاسی رہنما کے طور پرپیش کیا۔وہ چار دنوں تک قوم کو یہ باور کراتے رہے کہ وہ اپنے مطالبوں کی منظوری کے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے ۔ہرشام پرجوش تقریرکرکے وہ دوسرے دن کی صبح تک سوجاتے اورپھردوسرے دن تروتازہ ہوکر پھردھواں دھار تقریرکرتے۔ اُن کے دھرنے کے دوران عدالت عالیہ نے ایک فیصلہ دیا جسے وہ اپنی کامیابی سمجھ کر قوم کو مبارک بادیں دیتے رہے حالانکہ اس فیصلے میں اُن کے مطالبوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں تھا۔چار دن بعد لاچار اورمجبور ہوکروہ دھرنے سے واپس چلے گئے اورقوم کودلاسہ دیتے رہے کہ اُنکے دھرنے کے نتائج بہت جلد سامنے آجائیں گے ۔

پھر چند سال بعد وہ عمران خان کے ساتھ ایک بار پھرنمودار ہوئے اورکینیڈا میں اپنی آرام دہ زندگی چھوڑ کراسلام آباد کی سڑکوں پربسیرا ڈال دیا۔ اس بار اُن کے مطالبے کچھ مختلف تھے ۔ وہ دراصل کسی اورکی ایماء پرلائے گئے تھے اورانھیں بس دھرنے کی نفری بڑھانے اوراُسے دیر تک قائم رکھنے کے لیے لایاگیا تھا۔دھرنے میں اُن کے فالورز کی ایک بہت بڑی تعداد نے بہرحال بھرپور شرکت بھی کی اوراس وقت تک وہاں وہ بیٹھے بھی رہے جب تک اُن کے رہنماکا حکم نہیں آگیا۔دھرنے کی اس جدوجہد کو انھوں نے جہاد کا نام دیا ۔

اسی دھرنے کے دوسری جانب کی ہرشام ایک محفل موسیقی منعقد کی جاتی رہی اور رات کورقص اور گانوں پر مبنی ایک میوزیکل کنسرٹ ہواکرتا۔پی ٹی آئی کے چاہنے والے امیر اور مراعات یافتہ گھرانوں کے لوگ اس دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے خوب تیار ہوکرگھروں سے آتے اوررات گئے ایمپائر کی انگلی اُٹھنے کی نئی تاریخ اورڈیڈ لائن لے کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔یہ دیکھ کر علامہ کے فالورز مایوس ہونے لگے کہ دھرنے کی اصل طاقت تو وہ ہیں جواتنے دنوں سے سڑکوں پررہ رہے ہیں ، وہیں کھاتے اوروہیں سوتے بھی ہیں لیکن ہرروز شام کو میلہ کوئی اورسمیٹ کے لے جاتا ہے۔حالات کے بدلنے کی جس اُمید پروہ لائے گئے تھے وہ جب پوری ہوتی دکھائی نہیں دی تو علامہ نے بھی خراب صحت کو بہانہ بناکرواپسی کااعلان کردیا ۔اب وہاں ڈی چوک پردن کے اوقات میں کوئی نہ ہوتا اور بس شام کو خان صاحب ایک محفل سجا کے قوم کو دلاسے دیتے رہے۔

اس کے بعد اسی طرح اورسیاسی اورمذہبی پارٹیوں نے بھی اسی شہر میں دھرنے دیے ۔وہ سب کے سب بظاہر ناکام ونامراد ہی رہے لیکن بہرحال نقص امن پیدا کرنے میںوہ بہت معاون ومدد گار رہے۔ کہاجاتا ہے کہ اِن تمام دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کی مدد اورکمک شامل رہی ہے ۔مگر اس مدد کے باوجود یہ دھرنے کبھی کامیابی اور سرخروئی سے ہمکنار نہیں ہوئے۔

ابھی حال ہی میں جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمن نے بھی بجلی کے بلوں کو لے کر اسلام آباد میں ایک دھرنے کااہتمام کیا جودوہفتوں تک جاری بھی رہا۔ لیکن نجانے وہ دھرنا کس کی ایماء پراچانک ختم کردیا گیا جب کہ حافظ نعیم صاحب نے بجلی سستی ہوجانے تک واپس نہ جانے کا وعدہ اورعہد بھی کیا ہواتھا۔لگتا ہے حکومت نے انھیں بھی ٹریپ کر لیا اورIPPs سے دوبارہ بات چیت کرنے کا عندیہ دیکر معاملہ غیر معینہ مدت تک کے لیے ٹال دیا۔جماعت اسلامی ویسے تو ایک شریف النفس سیاسی پارٹی سمجھی جاتی ہے اور اس نے آج تک قانون کو ہاتھ میں بھی نہیں لیا ہے ،لیکن مطالبے شرافت سے حل نہیں کروائے جاسکتے ہیں۔

ہمارے سامنے بنگلہ دیش کی مثال موجود ہے۔جہاں کے لوگوں نے اور ملک کی یوتھ نے بہت ہی کم عرصہ میں احتجاج کرکے محترمہ حسینہ واجد کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔حالانکہ وہاں کے مسائل اتنے گھمبیر بھی نہ تھے جتنے ہمارے یہاں کے لوگوں کے ہے۔وہاں تو حسینہ واجد کی حکومت میں ملک نے مثالی ترقی بھی کی اوربنگلہ دیش کی معیشت مضبوط اورمستحکم بھی ہوئی لیکن صرف سرکاری ملازمتوں کے غیرمنصفانہ کوٹے کوبنیاد بناکریہ انقلاب برپاکردیاگیا۔

جب کہ ہمارے یہاں تو پچھلے کئی سالوں سے لوگ سسک سسک کرزندگی گزاررہے ہیں۔ نااُمیدی اورمایوسیوں کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ مہنگائی اورروزمرہ کی اشیاء ضروریہ کے دام لوگوں کی پہنچ سے باہر نکل چکے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ تیس سال پہلے IPPs سے کیے گئے معاہدوں کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ نجانے حکومت کی کیا مجبوری ہے کہ وہ اِن معاہدوںسے متعلق اصل حقائق قوم کے سامنے لانے سے کتراتی رہی ہے۔اوروہ ان معاہدوںپرنظر ثانی بھی کرنے کو تیار نہیں ہے۔قوم کو بجلی کی اصل قیمت سے ڈبل قیمت ادا کرنے پڑرہی ہے اورتمام سیاسی رہنما اس معاملے پر خاموش ہیں یاڈپلومیسی کاشکار ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اِن تمام بڑے بڑے سیاستدانوں کا پیسہ ان کارخانوں میںلگاہوا ہے اوروہ سب کے سب اس جرم میںبرابر کے شریک ہیں لیکن جماعت اسلامی سے ہمیں یہ اُمید نہ تھی کہ وہ بھی دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح اس انتہائی اہم معاملے میں پس وپیش سے کام لے گی اورحکومتی مذاکراتی ٹیموں سے دوچار میٹنگوںکے بعد یوں پسپا ہوجائی گی۔ حافظ نعیم الرحمن جب کراچی کی حد تک محدود تھے تو اکثر شارع فیصل پرکے الیکٹرک کی زیادیتوں کے خلاف سراپا احتجاج ہوا کرتے تھے ، وہ وہاں دھرنے بھی دیا کرتے تھے لیکن اس کے نتائج بھی کچھ اس سے مختلف بھی نہیںہواکرتے تھے، وہ کراچی کے لوگوں کی آواز بن کراحتجاج تو ضرور کرتے تھے لیکن کسی بھی مسئلے کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچاپاتے تھے۔

قوم کو بہت اُمید تھی کہ وہ بجلی کی قیمت سے متعلق اس اہم مسئلے پر ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے ،لیکن دھرنے سے ان کی واپسی نے یہ اُمیدیں بھی خاک میں ملادی ہیں۔ایک بار اپنی گرفت کمزور کرنے والے دوبارہ ایسی گرفت بنا نہیں سکتے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے، وہ منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی واپسی کا راستہ اختیار کرگئے۔ انھیں چاہیے کہ قوم کے سامنے آکر اپنی اس حکمت عملی کی وضاحت کریں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔