مضبوط پاکستان بنانا ہے تو خودمختار بلدیہ دینا ہوگی،رشید گوڈیل

سید بابر علی  ہفتہ 5 جولائی 2014
متحدہ قومی موومنٹ کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر عبدالرشید گوڈیل سے مکالمہ۔ فوٹو: ایکسپریس

متحدہ قومی موومنٹ کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر عبدالرشید گوڈیل سے مکالمہ۔ فوٹو: ایکسپریس

ایکسپریس: سینیٹ میں انسانی حقوق کمیشن اور مختلف سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود تحفظ پاکستان بل ترمیم کے بعد منظور کرلیا گیا، کیا آپ کی جماعت کو اب بھی اس بل پر اعتراضات ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: اس قانون پر ہمیں اب بھی اعتراضات ہیں، میں یہ بات بھی واضح کردوں کہ یہ دراصل تحفظِ پاکستان بل نہیں بل کہ پاکستانیوں کو قتل کرنے کا آرڈینینس ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کا دشمن کون ہے۔ جو پاکستان کا دشمن ہے آپ اُس سے مذاکرات کر رہے تھے۔ ماضی میں بھی ہم نے یہی دیکھا کہ اس طرح کے آرڈینینس کو دہشت گردوں کے خلاف کم اور سیاسی مخالفین کے خلاف زیادہ استعمال کیا گیا اور ایسا ہی ہمارے ساتھ کراچی میں ہورہا ہے۔ ہمارے کئی ساتھیوں کو اٹھاکر شہید کردیا گیا ہے۔ ہمیں اس بل پر اب بھی تحفظات ہیں اور یہ تحفظات ہر محب وطن پاکستانی کو ہونے چاہییں۔

ایکسپریس: تحفظ پاکستان بل کی رو سے گریڈ15 کا پولیس افسر مشتبہ شخص کو گولی مارنے کا مجاز ہے، بہ حیثیت پارلیمانی لیڈر اس قانون کے درست استعمال کو یقینی بنانے کے آپ نے قومی اسمبلی میں کوئی قرارداد پیش کی؟

عبدالرشید گوڈیل: ہم نے اس قانون کے خلاف پارلیمنٹ میں کئی قراردادیں پیش کیں، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ یہ تو ’’شوٹ ٹو کِل‘‘ کا قانون ہے۔ اس قانون کے تحت کو کوئی بھی پولیس والا ناپسندیدگی اور محض شک کی بنیاد پر جسے چاہے گولی مار دے اور آپ اسے کسی عدالت میں چیلینج بھی نہیں کرسکتے۔ اس بات پر تو ہمیں سخت تحفظات ہیں۔ صرف متحدہ قومی موومنٹ ہی نہیں، بل کہ تقریباً سب ہی جماعتوں نے اس بل کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس قانون کو منظور کرلیا گیا۔ یہ تو کالا قانون ہے اور کسی بھی کالے قانون کی حمایت نہ کبھی ہمارے قائد اور متحدہ قومی موومنٹ نے کی ہے اور نہ ہی کبھی کرے گی۔

ایکسپریس: شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن عضب کے حوالے سے آپ کی پارٹی کا موقف بہت واضح ہے۔ کیا آپ کی جماعت سمجھتی ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی دہشت گردوں کے خلاف اسی نوعیت کے آپریشن کی ضرورت ہے؟

عبدالرشید گوڈیل: بالکل اگر پاکستان کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے، تو کراچی سے پشاور تک، کوئٹہ سے لے کر لاہور تک جہاں، جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں، وہاں اُن کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہیے۔ ان دہشت گردوں کا کوئی مسلک، مذہب، زبان نہیں ہے۔ یہ دینِ اسلام کے نام پر پاکستان کو توڑنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ اسلام کو بھی بدنام کر رہے ہیں اور پاکستان کو بھی۔ ہمارے ایجنڈے میں تو پاکستان کی سالمیت اور بقا سرفہرست ہونی چاہیے۔ ہمیں ان شدت پسندوں کے خلاف جنگ کرنے والی پاک فوج کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے، کیوں کہ جنگیں ہمیشہ عوام کی مدد سے جیتی جاتی ہیں۔

ایکسپریس: ایم کیو ایم کراچی میں انتہاپسندوں اور طالبان کی مختلف علاقوں میں موجودگی کی نشان دہی کرتی رہی ہے، لیکن بعض حلقوں نے اسے لسانی سوچ سے تعبیر کیا۔ کیا اب یہ حلقے آپ کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: دیکھیں لیڈر اور ویژنری لیڈر میں فرق ہوتا ہے۔ یہ جو پاکستان میں خودساختہ، حادثاتی لیڈر بنے ہوئے ہیں، ان کی سوچ بہت محدود ہے، ان کی سوچ ایک دائرے کے گرد ہی گھومتی ہے۔ ہمارے قائد نے آج تک جو بھی کہا ہے اسے تین سال، چار سال بعد حکومتِ پاکستان، سیاسی اور مذہبی حلقوں اور صحافی برادری نے بھی تسلیم کیا اور کہنے پر مجبور ہوئے کہ الطاف بھائی کی بات بالکل درست تھی۔ الطاف بھائی نے2008 میں کہا تھا کہ طالبان کراچی کا رخ کر رہے ہیں، پناہ گاہیں بنا رہے ہیں، تو اُس وقت تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں نے اس بات کا مذاق اڑایا تھا۔ باتیں بنائی گئی تھیں کہ ایم کیو ایم پختونوں کے خلاف ہے، اسی لیے اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں، حالاں کہ جتنے پختون ہماری جماعت میں ہیں، اتنے کسی جماعت میں نہیں ہیں۔

ہماری جماعت میں ہر زبان، مسلک کے لوگ شامل ہیں۔ الطاف بھائی نے جب کراچی میں طالبانائزیشن کی بات کی تو سب جماعتوں کی جانب سے یہی تاثر دیا گیا کہ شاید ایم کیو ایم پختونوں خلاف ہے، لیکن پھر بعد میں وقت نے الطاف بھائی کی بات کو ثابت کیا اور تقریباً چار سال بعد کٹی پہاڑی پر ہونے والے ایک واقعے کے بعد اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے کراچی میں طالبان کی موجودگی کا اعتراف کیا۔ اُس کے بعد متعدد واقعات نے کراچی میں طالبان کی موجودگی کو ثابت کیا۔

ایکسپریس: کراچی اور شمالی وزیرستان کے حالات اور جغرافیے میں واضح فرق ہے۔ کراچی میں اگر ان عناصر کے خلاف آپریشن ہوا تو اس کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟

عبدالرشید گوڈیل: شمالی وزیرستان پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں کراچی جتنی گنجان آبادی بھی نہیں ہے۔ کراچی میں بھی شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کا طریقۂ کار بالکل مختلف ہوگا۔ کراچی میں آپ فضائی کارروائی نہیں کرسکتے، کیوں کہ یہ بہت گنجان آباد شہر ہے، یہاں آپ کو انٹیلی جینس بنیادوں پر بھرپور ایکشن کرنا ہوگا۔ ہماری پاک فوج زیادہ بہتر سمجھتی ہے کہ اس شہر کو، صوبے کو پورے ملک کو ان دہشت گردوں سے کس طرح پاک کرنا ہے۔

ایکسپریس: سوات میں آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کو پناہ گزینوں کی کراچی میں آباد کاری پر اعتراضات تھے، اب حکومت سندھ کو شمالی وزیرستان کے متاثرین کی کراچی آمد پر تحفظات ہیں؟ آپ کی جماعت کا اس بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے؟

عبدالرشید گوڈیل: دیکھیں جب سوات آپریشن ہوا تو اسمبلی میں نظام عدل بل منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ اُس وقت ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ نے اس نظام کی مخالفت کی۔ اُس وقت سارا میڈیا تین دن تک صبح شام ہمیں تنقید کا نشانہ بناتا رہا، ہمیں پختون مخالف کہا گیا، امن مخالف کہا گیا، لیکن تین دن بعد جب مولوی فضل اﷲ نے کہا کہ میں پاکستان کو نہیں مانتا، پاکستان کے آئین کو نہیں مانتا، پارلیمنٹ کو نہیں مانتا تو اس کے بعد سب نے ہماری بات کی تائید کر تے ہوئے اُن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ہم نے ہمیشہ حق اور سچ کی بات کی ہے۔

جب سوات میں مولوی فضل اﷲ کے خلاف کارروائی کی گئی تو الطاف بھائی نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ان پناہ گزینوں کی آڑ میں دہشت گرد ملک کے دوسرے حصوں تک پھیل سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ سوات سے پناہ گزینوں کی آڑ میں نکلنے والے دہشت گردوں نے مچھر کالونی، کنواری کالونی، مواچھ گوٹھ سمیت کراچی کے مختلف علاقوں میں اپنی پناہ گاہیں بنائیں۔ اگر آج حکومت سندھ کو شمالی وزیرستان کے متاثرین کی کراچی میں آباد کاری پر اعتراضات ہیں تو شکر ہے کہ اُنہیں عقل آ گئی ہے۔

سوات آپریشن کے وقت حکومت ِ پنجاب نے تو ایک بھی پناہ گزین کو صوبے میں داخل نہیں ہونے دیا، لیکن اس بات پر کسی نے شور نہیں مچایا۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ شمالی وزیرستان کے بعد خیبر پختون خوا پڑتا ہے، جہاں لاکھوں ایکٹر زمین بے کار پڑی ہے، اسکولوں کی بھی چھٹیاں ہیں۔ پاک فوج ایک سے دو ماہ میں ہی شمالی وزیرستان میں موجود شدت پسندوں کا خاتمہ کردے گی۔ اس وقت تک پناہ گزینوں کو ان اسکولوں میں ٹھیرائیں، خالی زمینوں پر کیمپ بناکر انہیں آباد کریں، تاکہ ملک کے دوسرے حصوں میں ان کی آڑ میں شدت پسند نہ پھیل سکیں۔

ایکسپریس: شدت پسندوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں سیاسی جماعتوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، لیکن اس کے برعکس حکومت مخالف جماعتوں نے قومی سیاست میں ہلچل پیدا کر رکھی ہے، آپ کیا کہیں گے؟

عبدالرشید گوڈیل: سیاسی جماعتوں کو چاہے وہ برسراقتدار ہوں یا حکومت مخالف، اس صورت حال میں متحد ہونا پڑے گا۔ ماضی میں کچھ سیاسی جماعتوں نے جو ان عسکریت پسندوں کے سیاسی ونگ ہیں، ڈھکے چھپے الفاظ میں اور کبھی کُھل کر بھی ان شدت پسندوں کی حمایت کی، لیکن آج ان باتوں کا وقت نہیں ہے۔ آج پاکستان کو بچانے کا وقت ہے۔ اور اگر ہمیں یہ جنگ جیتنی ہے تو پھر ہم سب کو ایک ہوکر پاک فوج کے ساتھ لبیک کہنا پڑے گا، اُن کے حوصلے بلند کرنے ہوں گے۔

ایکسپریس: توانائی کے بحران، بدامنی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتوں اور حکومت کو متحد ہوکر کیا اقدامات کرنے چاہییں؟

عبدالرشید گوڈیل: معیشت مضبوط ہے تو ملک مضبوط ہے، لیکن بدقسمتی سے ہماری کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی معاشی زبوں حالی ختم ہوجائے تو پچاس فی صد دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے لیے غریب گھرانوں کے بچوں کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ پیسوں کا لالچ دے کر انہیں بم باندھ کر معصوم انسانی جانوں کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چار سال پہلے الطاف بھائی نے ہم پارلیمینٹرین سے کہا کہ آپ پاکستان کی معیشت میں بہتری لانے کے لیے کام کریں، اکنامک روڈ میپ بنائیں۔ آئی ایم ایف جس سے ہم بھیک مانگتے رہتے ہیں، ہم نے اُن کے ساتھ ایک میٹنگ کی تو انہوں نے ہمیں کہا کہ اگر آپ کے اکنامک روڈ میپ پر پاکستان کو چلایا جائے تو اگلے بیس برس کا بجٹ خسارے کے بجٹ کے بجائے سرپلس ہوجائے گا۔

آپ کی حکومت اس روڈ میپ کو کیوں نہیں مانتی۔ ہم نے اُن سے کہا کہ یہ بات تو آپ ہی حکومتِ وقت سے پوچھیں۔ اس کے بعد تین سال سے ہم شیڈو بجٹ دے رہے ہیں۔ جس میں ہم نے ترجیحات کا تعین کیا ہے کہ پیسہ کہاں سے آئے گا اور کہاں خرچ ہوگا۔ حکومت کی ترجیحات اس بجٹ میں نظر ا گئی ہیں کہ انہوں نے بالائی پنجاب کا بجٹ جو زیادہ سے زیادہ بیس لاکھ روپے ہے، لیکن انہوں نے دو ارب روپے مختص کیے ہیں، جب کہ ’’کے فور‘‘ جیسے بڑے منصوبے کے لیے پانچ فی صد رقم بھی نہیں رکھی گئی۔ ہمیں ترجیحات کا تعین کرنے پڑے گا۔

این ایف سی ایوارڈ کی طرح پروونشل فنانشل ایوارڈ ہونا چاہیے۔ اب صوبے بھی ِپک اینڈ چوز کی عادت اپنا رہے ہیں۔ اگر آپ وہیں کام کریں جہاں سے آپ کی پارٹی کو ووٹ ملتے ہیں تو دوسری جگہوں پر احساسِ محرومی بڑھے گا۔ ہماری اولین ترجیح معاشی اور انرجی پالیسی ہونی چاہیے۔ اگر یہ پالیسیاں بن گئیں تو ہمارا دہشت گردی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔  ہم کہتے ہیں کہ کراچی سمیت پورے ملک میں جہاں ان عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ہیں، اُنہیں ختم کردینا چاہیے، لیکن سیاسی اور مذہبی جماعتیں یہ راگ الاپنا چھوڑ دیں کہ جی یہ ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں۔ یہ کیسے بچھڑے ہوئے ہیں کہ ہمارے پاکستانی بھائیوں کو مارتے ہیں۔

یہ پاکستانیوں کے بھائی نہیں اُن کے دشمن ہیں۔ ہمارا شمار ایک زرعی ملک میں ہوتا ہے، لیکن یہ بتائیں کہ زراعت سے ہمیں کتنا ٹیکس ملتا ہے؟ یہ ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی 8.9 فی صد ہے، مطلب 21 فی صد زراعت ہے۔ اگر آپ اسے نکال دیتے ہیں تو ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی 12فی صد بنتا ہے۔ پھر آپ ٹیکس بھی ہم پر لگا رہے ہیں۔ چار بڑی اجناس کی فروخت سے پانچ ہزار پانچ سو ارب روپے کی آمدنی ہوتی ہے، لیکن آپ پانچ ہزار پانچ سو ارب روپے کمانے والوں سے ایک دھیلا ٹیکس نہیں لیتے۔ صوبے اس لیے نہیں بولتے کہ چاروں صوبوں میں حکومت انہی جاگیر داروں، وڈیروں اور سرداروں کی ہے ۔

ایکسپریس: آپ کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کی بھرپور حمایت کر رہی ہے۔ کیا آپ اس انقلاب کے بھی حامی ہیں جس کی بات طاہر القادری کر رہے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: ہم طاہرالقادری کی آمد پر انہیں روکنے کے لیے کیے گئے حکومتی اقدامات کے خلاف ہیں۔ پاکستان کا آئین ہر سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کا جمہوری حق دیتا ہے۔ جب وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن تھی تو یہی چیف منسٹر مینار پاکستان پر پنکھا لے کر بیٹھے ہوتے تھے، اُس وقت سب جائز تھا، لیکن جب ایک سیاسی جماعت کا سربراہ پاکستان آتا ہے تو آپ اسے روکنے کے لیے پوری ریاستی قوت لگا دیتے ہیں۔

راتوں رات کنٹینرز رکھ کر راستے بند کردیے گئے، ماڈل ٹائون کا سانحہ ہوا۔ میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ اگر میڈیا نے کیمرے کی آنکھ سے یہ مناظر نہ دکھائے ہوتے تو طاہرالقادری صاحب کے گھر سے ’’قادری پور‘‘ کے نقشے، ٹارچر سیل، پھانسی گھاٹ برآمد ہوسکتے تھے، اور یہ غدارِ وطن بھی کہلاتے، اگر میڈیا نہیں ہوتا تو جس طرح 1992 میں ہمارے ساتھ ہوا تھا بالکل اسی طرح طاہر القادری صاحب کے ساتھ ہوتا، کیوں کہ اُس وقت بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور آج بھی اِن کی حکومت ہے۔

ایکسپریس: پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات اور تعلقات میں بہتری میں لانے کے عزم کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: متحدہ قومی موومنٹ کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ پڑوسیوں سے تعلقات بہتر ہونے چاہییں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کو تبدیل نہیں کرسکتے، ہمیں انہی کے ساتھ رہنا ہے تو پھر تعلقات میں بہتری لانی ہوگی، لیکن ہمیں پاکستان کی عزت کو مقدم رکھتے ہوئے تعلقات مستحکم کرنے چاہییں۔

ایکسپریس: اگر الطاف حسین منی لانڈرنگ کیس میں بری ہوجاتے ہیں تو وہ برطانیہ میں ہی رہیں گے یا پاکستان لوٹ آئیں گے؟

عبدالرشید گوڈیل: اس بات کا فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا۔ الطاف بھائی تو شروع سے وطن واپس آنے کے لیے بے چین ہیں۔ جب الطاف بھائی ملک سے باہر جا رہے تھے تو کارکنوں نے ان سے ایک بات منوائی تھی کہ قائد ہم آپ کی ہر بات مانیں گے، لیکن آپ کی وطن واپس کا فیصلہ کارکن کریں گے۔ الطاف بھائی پاکستانی تھے، پاکستانی ہیں اور پاکستانی رہیں گے۔

ایکسپریس: وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزیرداخلہ سے ملاقاتوں میں ایم کیوایم کو کراچی آپریشن اور کارکنوں، ہمدردوں کے ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

عبدالرشید گوڈیل: کراچی میں جاری آپریشن اور کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل پر ہم نے حکومت کو ہر فورم پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ ہم نے وزیراعظم، وزیراعلی سندھ، وزارت داخلہ سب کو کہا کہ آپ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ضرور آپریشن کریں، لیکن خدارا ہمارے کارکنوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ مت بنائیں۔ اس سے عوام میں بے چینی بڑھے گی۔ حالات دوسرا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ ہم نے بارہا کہا کہ کچھ ادارے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کے بجائے ہمارے کارکنوں کو اٹھاتے ہیں اور پھر کچھ دن بعد اُن کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔ کالی بھیڑیں تو ہر ادارے میں ہوتی ہیں تو آپ اُن کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن لیں۔ اب بھی ہمارے کارکنوں کو لاپتا کیا جارہا ہے، اُن کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہورہی ہیں۔

اﷲ کرے کہ ارباب ِ اختیار کو عقل آجائے۔ ہم امن پسند سیاسی کارکن ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ میں پچھلے تین اجلاس سے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کا وقت مانگ رہا ہوں وہ ہر دفعہ اگلے سات دنوں میں ملاقات کا وعدہ کرتے ہیں، لیکن پتا نہیں کہ اُن کا ایک دن کتنے سالوں پر محیط ہے۔ ہم نے وزیر داخلہ سے ملاقات میں بھی اپنے کارکنوں کے اغوا، تشدد اور قتل کے مسئلے پر بات کی، انہوں نے بھی ہمیں یقین دہانی کرائی تھی۔ ہمیں جو بھی یقین دہانی کرائی گئی اُس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ہمارے بہت زیادہ احتجاج کے بعد کارکنوں کے قتل اور اغوا میں کچھ کمی آگئی تھی، لیکن کچھ دنوں سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔

ایکسپریس: کراچی میں جاری آپریشن پر اعتراضات کے باوجود آپ کی جماعت نے حکومت سندھ میں شمولیت کا فیصلہ کس یقین دہانی پر کیا؟

عبدالرشید گوڈیل: حکومت سندھ میں شمولیت کے فیصلے کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سندھ کی ڈائنامک بقیہ تین صوبوں سے بالکل الگ ہے۔ فیصل آباد ڈویژن کی آبادی اسی لاکھ ہے، آپ ایک کروڑ سمجھ لیں، وہاں قومی اسمبلی کی 17نشستیں ہیں، کراچی کی آبادی سوا دو کروڑ ہے، لیکن قومی اسمبلی میں کراچی کی صرف 20نشستیں ہیں۔ ہم تو کب سے صاف شفاف مردم شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے نشستیں ہونی چاہییں۔ کراچی کی آبادی کے لحاظ سے پروونشل فنانشل ایوارڈ ہونا چاہیے۔ ہم نے صرف سندھ کے بہتر مفاد میں حکومت میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس: ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے پچھلے دور حکومت میں اقتدار میں رہی، مگر کراچی میں بدامنی اور انتشار کا سلسلہ رہا۔ اب حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔ اس بار قیام امن کے لیے آپ اپنا کردار کس طرح ادا کر رہے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: ایم کیوایم ریسرچ بیسڈ پارٹی ہے۔ ہم سب چیزوں پر تحقیق کرتے ہیں، ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہماری جماعت گذشتہ پانچ چھے سال سے کہہ رہی ہے کہ کراچی لینڈ مافیا، جرائم مافیا، ڈرگ مافیا اور طالبان کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ حکومت کو یہ کہہ کر جان نہیں چھڑانی چاہیے کہ یہ کام صوبائی حکومت کا ہے یا وفاقی حکومت کا ہے۔ ہمارا بھی اس ملک پر اتنا ہی حق ہے جتنا لاہور، لاڑکانہ یا پشاور کے شہری کا ہے۔ اس بات کا کی حالیہ مثال آپ یہ دیکھ لیں کہ جب کراچی ایئر پورٹ پر حملہ ہوا تو صوبائی اور وفاقی حکومت حدوں پر لڑتی رہیں۔ امن قائم کرنا یا شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کا کام ہے، چاہے وہ صوبائی سطح پر ہو یا وفاقی سطح پر۔

ایکسپریس: کچھ حلقوں کی جانب سے 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عاید کیا جارہا ہے، آپ ان الزامات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: آپ جن حلقوں کی بات کر رہے ہیں، وہ کئی ماہ سے سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ خیبر پختون خوا میں ہونے والے الیکشن کو شفاف کہتے ہیں، جہاں ہارے وہاں دھاندلی کا الزام عاید کر رہے ہیں۔ انتخابی اصلاحات کے لیے قومی اسمبلی میں ایک کمیٹی بنی ہے، آئیں ساتھ بیٹھ کر اصلاحات کرتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ تو2008  سے الیکٹرونک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی بن گئی ہے، انشاء اﷲ اگلے انتخابات میں دھاندلی کا ڈھول نہیں پیٹا جائے گا۔ دراصل خیبر پختون خوا حکومت میں وہ ناکام ہوگئے ہیں۔ انہوں نے شہری سوسائٹی (اربن سوسائٹی) کو تبدیلی کے نام پر دھوکا دیا۔

پرویز خٹک صاحب کیا اٹھارہ سال کے نوجوان ہیں؟ آپ ان کی اعلیٰ قیادت کو دیکھ لیں کہ کتنے نوجوان ہیں؟ انہیں تو ووٹ صرف اس وجہ سے مل گئے کہ عوام تبدیلی کے نام پر اُنہیں نجات دہندہ سمجھ بیٹھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی پالیسی سامنے آئی تو پتا چلا کہ جناب یہ تو طالبان کے بھائی بنے ہوئے ہیں، طالبان کا دفتر کھولنے کے حامی ہیں۔ جو دہشت گرد پاک فوج کے جوانوں کو شہید کر رہے ہیں آپ اُن سے مفاہمت کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے نوجوانوں کو تبدیلی کے نام پر جھانسا دیا، آپ کے کتنے نوجوان اسمبلیوں میں گئے۔ انتخابات میں دھاندلی کا الزام عاید کرنے والے صاحب کی جماعت میں سے ہی جعلی ڈگری والے نکلے۔ ان کے ڈیفینس سے جیتنے والے ایم این اے عارف علوی کے حلقے میں جاکر پوچھیں کہ وہ کتنی بار اپنے حلقے میں گئے ہیں۔

ایکسپریس: آپ بلدیاتی حد بندیوں کے معاملے پر پی پی پی کی حکومت پر من مانی کا الزام لگاتے آئے ہیں۔ لیکن اب اس کے اتحادی ہیں۔ کیا بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کی صورت میں ایم کیوایم اپنے مطالبات دہرائے گی؟

عبدالرشید گوڈیل: دیکھیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں، آئین کی بھی کچھ حدبندیاں ہیں۔ حلقہ بندیاں مردم شماری کے بعد تبدیل ہوسکتی ہیں، ہم کہتے ہیں کہ پہلے مردم شماری کروائیں پھر نئی حلقہ بندیاں کریں، لیکن یہ نہ ہو کہ جس طرح پیپلزپارٹی کی حکومت نے کیا تھا کہ پانچ ہزار سے لے کر پچاس ہزار آبادی کی بنیاد پر یونین کونسل تشکیل دے دی۔ یعنی اپنی پسند کے دیہی اور شہری علاقوں میں آپ دس ہزار کی آبادی پر مشتمل یوسی بنائیں اور جن علاقوں میں آپ کا ووٹ بینک نہ ہو وہاں آپ پچاس ہزار افراد پر مشتمل یوسی بنائیں۔ بلدیاتی نظام تو جمہوریت کی جڑ ہے اور جب جڑ ہی مضبوط نہیں ہو گی تو پھر جمہوریت کا تناور درخت کیسے کھڑا ہوگا۔

پاکستان کے جتنے بھی سیاسی قائدین ہیں وہ کبھی کونسلر، ناظم یا یوسی ناظم تھے۔ آئین کے آرٹیکل 140 (اے) کے مطابق انتخابات ہونے چاہییں، بلدیاتی نظام ہونا چاہیے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہم صوبوں کے اختیارات کے لیے لڑے تھے۔ قائد تحریک الطاف حسین بھائی نے اس بات پر فوکس کیا کہ صوبوں کو اختیارات ملنے چاہییں۔ صوبوں کو گراس روٹ لیول پر اختیارات ملنے چاہییں۔ اب یہ لولا لنگڑا کمشنری سسٹم لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کمشنری سسٹم کو متعارف کروانے والے ملک برطانیہ نے بھی اس نظام کو پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد ترک کردیا تھا۔

پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو سب سے پہلے گراس روٹ لیول پر مضبوط کریں، عوامی نمائندے جب ایوان میں آئیں تو انہیں پتا ہو کہ خرابی کہاں ہے، قانون سازی کیسے کرنی ہے۔ آج یہ مسئلہ ہے کہ ایک گٹر بھی بند ہو تو علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے کو فون آجاتا ہے کہ جی گٹر بند ہوگیا ہے۔ ایک ایم این اے یا ایم پی اے قانون سازی کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی کرتا ہے کیوں کہ کوئی سسٹم ہی نہیں ہے۔ یہ2001 والا بلدیاتی نظام کیوں نہیں مان رہے، اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ 2001 والے بلدیاتی نظام میں آپ کے چھوٹے موٹے مسائل کونسلر حل کر دیتے تھے۔ آپ کے علاقے میں تیس چالیس لاکھ روپے کا کام یوسی ناظم کروادیتے تھے۔

ایک دو کروڑ کا کام ٹائون ناظم نے کروادیا۔ آٹھ دس کروڑ کی لاگت کے کام کا مسئلہ ہے تو وہ آپ کے سٹی ناظم نے حل کردیا۔ اب جن ایم این اے، ایم پی ایز کی ڈیولپمنٹ اسکیم کے نام پر کروڑوں روپے کی اوپر کی آمدنی ہوتی تھی وہ ختم ہوگئی۔ اپنے علاقے کے کام کروانے کے لیے اُن کے پاس ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے والے عوام نہیں ہوتے۔ اب اپنے بنیادی مسائل حل کروانے کے لیے کوئی اِن کی دعوتیں نہیں کرتا۔ اس وجہ سے کمشنری نظام کے حامیوں کی بے عزتی ہورہی تھی، اوپر کی کمائی نہیں ہو رہی تھی۔ اگر آپ کو مضبوط پاکستان بنانا ہے تو آپ کو خودمختار بلدیہ دینا ہوگی جو آئین کے آرٹیکل 140 (اے) کو پورا کرتی ہو۔

ایکسپریس: آپ کی پارٹی میں پچھلے کچھ عرصے سے اہم راہ نماؤں کے مابین اختلافات اور پارٹی کے اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہونے کی خبریں سامنے آرہی ہیں، اِن میں کس حد تک سچائی ہے؟

عبدالرشید گوڈیل: ہمارے کچھ ناقدین کی، کچھ مہربانوں کی شروع سے خواہش رہی ہے کہ ایم کیو ایم کو کسی طرح توڑ دیا جائے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا مطلب ہے الطاف بھائی۔ ہمارے درمیان نہ کبھی اختلاف تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا، کیوں کہ ہمارا مرکز اور محور ہمارا قائد ہے۔ ہر کارکن اپنے قائد سے پیار کرتا ہے، ہر کارکن اپنے قائد کے کہنے کے مطابق کام کرتا ہے۔ ٹی وی پر بیٹھے لفافوں کی سیاست کرنے والے کچھ لوگ، کسی کے پے رول پر بیٹھے لوگ پتا نہیں کیا کیا تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ اُنہیں ان کا کام کرنے دیں، ہمیں ہمارا کام کرنے دیں۔ ایم کیو ایم کے راہ نمائوں میں اختلافات اور اندرونی انتشار کی خبریں محض مخصوص حلقوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی افواہوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

ایکسپریس: 2013 کے عام انتخابات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ میں تطہیر کا عمل شروع کیا گیا، اگر تنظیم میں کرپٹ عناصر موجود تھے تو کیا انہیں ہٹا دیا گیا ہے؟

عبدالرشید گوڈیل: ایم کیو ایم میں کرپشن کی گنجائش نہیں ہے۔ میرے قائد کی آئیڈیالوجی سیاست برائے خدمت ہے۔ جہاں تک تطہیری عمل کی بات ہے تو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی یا کسی بھی قسم کی کرپشن کرنے والے فرد کی ایم کیو ایم میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ایکسپریس: چند سال پہلے ایم کیو ایم نے پنجاب تک تنظیمی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھانے کے لیے پیش قدمی کی تھی۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ آپ کو وہاں پذیرائی نہیں ملی۔ کیا کہیں گے؟ کیا اب بھی ایم کیو ایم پنجاب کے عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے؟

عبدالرشید گوڈیل: الطاف بھائی کا پیغام تو کشمیر اور فاٹا تک پھیلا ہوا ہے لیکن جب ہم پنجاب میں اپنی تنظیمی سرگرمیاں تیز کرتے ہیں تو کراچی میں قتل عام تیزی سے بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ بات میں ایسے ہی نہیں کہہ رہا آپ پچھلے پندرہ سال کے اعداد و شمار دیکھ لیں۔ لیکن ہم نے اپنے قائد سے ایک بات یہ بھی سیکھی ہے کہ ’’تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو‘‘ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ قائد کا پیغامِ حق پرستی پنجاب کیا ملک کے کونے کونے تک پھیلائیں گے۔ اگر وہاں کے عوام کو پولیس گردی، غنڈہ گردی سے تحفظ فراہم کردیا جائے تو پھر وہ یقیناً متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ دیں گے۔ پنجاب یا سندھ کے عوام کی جہاں تک بات ہے تو بے چارے تو جاگیر داروں، وڈیروں کے خوف میں مبتلا ہیں۔

سندھ میں جب سیلاب آیا تو ہم کیٹی بندر کے اطراف میں امداد باٹنے گئے۔ ہماری ایم این اور شعبہ خواتین کی صدر کشور زہرا باجی نے جب وہاں کی خواتین میں کپڑے اور چپلیں دی تو کپڑے انہوں نے لے لیے اور چپلیں ہاتھ جوڑ کر واپس کردیں اور کہا، ’’وڈیروں نے منع کیا ہے‘‘ حالاںکہ اُن پیر بری طرح پھٹے ہوئے تھے، لیکن وڈیروں کے خوف سے وہ اپنے پیروں میں چپل تک نہیں پہنتے۔ پاکستان کے تقریباً ہر گائوں اور شہر میں ہمارے دفاتر ہیں۔ الطاف بھائی کی ہدایت پر ہمارے ایم این ایز، ایم پی ایز باقاعدگی سے وہاں جاتے ہیں۔ لوگوں کے مسائل سنتے ہیں، انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایکسپریس: ٹاک شوز اور ان میں ہونے والے مباحث آپ کی نظر میں کسی معاملے پر نتیجے تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں یا یہ محض کسی بھی سیاست داں اور اس کی جماعت کی تشہیر کا ذریعہ ہیں۔ آپ کی رائے کیا ہے۔

عبدالرشید گوڈیل: بہت سے ٹی وی اینکر حقیقی مسائل اور ان کے حل کے لیے بہت اچھا کام کر رہے ہیں، لیکن کچھ اینکر ایسے بھی ہیں جو خود کو بہت بڑا چیمپیئن سمجھتے ہیں۔ بعض اینکر پسند ناپسند پر سیاسی شخصیات کو مدعو کرتے ہیں۔ لفافہ کلچر بھی موجود ہے۔ آپ اُن کی تنخواہ دیکھ لیں اور اُن کے اخراجات دیکھ لیں۔ یہ کسی نہ کسی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، انہیں ایم کیو ایم دہشت گرد لگتی ہے، بھتا خور لگتی ہے۔ ہم کئی مرتبہ حکومت میں رہے، کروڑوں روپے کے کام کروائے پھر تو ہم سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے کہ جو کروڑوں کے کام میں کرپشن نہیں کی اور پانچ، دس ہزار روپے بھتا لیں۔

ان اینکرز کو متحدہ قومی موومنٹ کے ایم این اے یا ایم پی اے کے کرپشن میں ملوث ہونے کے یا جعلی ڈگری کے ثبوت ہی نہیں ملتے تو بے چارے بھتا لینے کا الزام عاید کر دیتے ہیں۔ اس طرح اُن کے پنجاب میں سیاسی مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ یہ ایم کیو ایم کے خلاف پنجاب کے عوام کے لیے ٹی وی پروپیگنڈا ہے۔ کچھ سیاست داں اور جماعتیں ان ٹاک شوز کو اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔

ایکسپریس: سماجی خدمت کے شعبے سے سیاست کے میدان میں آنے اور عملی جدوجہد کرنے کا سفر کیسا رہا؟

عبدالرشید گوڈیل: میرا تعلق میمن کمیونٹی سے ہے۔ میں دھورا جی ایسوسی ایشن کا صدر رہا ہوں۔ آل پاکستان میمن فیڈریشن کا سپریم کونسل ممبر ہوں۔ ورلڈ میمن آرگنائزیشن پیٹرن ہو۔ خدمت کا کام مجھے تسکین دیتا ہے۔ میں نے ٹیوشن پڑھاکر تعلیم حاصل کی۔ میرے لیے سب سے بہتر انتخاب ایم کیو ایم تھی، کیوں کہ سیاست برائے خدمت اسی ایک جماعت میں تو ہے۔ میں 1988سے پارٹی کا ہمدرد رہا ہوں۔ 2005 میں ایم کیوایم کی جانب سے ناظم بنا، لوگوں کی خدمت کا موقع ملا۔ میری بیوی اور بچے میرے دوست ہیں اُن سے ہر بات شیئر کرتا ہوں۔ میری والدہ شروع ہی سے نماز کے بعد الطاف بھائی کے لیے دعا کرتی ہیں۔ گھر والوں نے بھی میرے فیصلے کی تائید کی۔ سیاست برائے خدمت کی عملی جدوجہد کا سفر بہت اچھا رہا۔

ایکسپریس: آپ میمن جماعت کی مختلف آرگنائزیشنز میں کلیدی عہدوں پر رہے، سیاست میں آنے کے بعد بھی میمن کمیونٹی کے لیے وقت نکالتے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: میں صرف میمن کمیونٹی کے لیے نہیں ہر کسی کے لیے وقت نکالتا ہوں، میں عوام کا نمائندہ ہو میرا کام ہی عوام کے پاس جانا ہے۔ چاہے وہ میمن ہو، اردو بولنے والا ہو، پنجاب کا ہو۔ ہماری جماعت میں برادری ازم نہیں ہے، میرے لیے ہر شخص برابر ہے۔ یہ برابری کا نظریہ میرے قائد الطاف حسین کا ہے جس پر ہم سب عمل پیرا ہیں۔ میں آپ کو اتحاد بین المسلمین کی اہم مثال بتاتا ہوں، جب رضا حیدر بھائی شہید ہوئے تو اُن کی نماز جنازہ میں ہر مسلک اور فرقے کے لوگوں نے ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھی تھی۔ اُن کا گارڈ جو اہل سنت مسلک کا تھا اُس کے لیے صرف امام تبدیل ہوا صفیں تبدیل نہیں ہوئیں۔

ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہیں۔ پسندیدہ شاعر؟ پسندیدہ ادیب؟

عبدالرشید گوڈیل: ہر اچھی کتاب پڑھتا ہوں۔ سیاسی موضوعات پر کتابیںزیادہ شوق سے پڑھتا ہوں۔ حال ہی میں ڈینیئل مارکی کی کتاب ’’نو ایگزٹ فرام پاکستان‘‘ اور Karima Bennoune کی ’’یور فتویٰ ڈز ناٹ اپلائی ہیئر‘‘ پڑھی ہے۔ شاعری یاد نہیں رہتی لیکن سنتا رہتا ہوں، منظر بھوپالی پسندیدہ شاعر ہیں۔ ادیب تو بہت پسند ہیں لیکن میرے خیال میں ابنِ انشاء سے اچھا ادیب کوئی نہیں ہے۔

ایکسپریس: گلوکار کون سا اچھا لگا؟ اداکار؟ اداکارہ؟ فلم جو پسند آئی؟

عبدالرشید گوڈیل: گانے تو پسند نہیں ہیں لیکن غزلیں بہت شوق سے سنتا ہوں۔ میتالی اور مہدی حسن پسندیدہ غزل گائیک ہیں۔ فلمیں شوق سے نہیں دیکھتا، لیکن ’’باغبان‘‘ اور ’’تھری ایڈیٹ‘‘ جیسی فلمیں اچھی لگتی ہیں، کیوں کہ ان میں نئی نسل کے لیے بہت خوب صورت پیغام دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر عبدالرشید گوڈیل 7ستمبر1960کو کراچی کے ایک متوسط میمن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ سماجی خدمت کے جذبے سے سرشار عبدالرشید گوڈیل نے زمانۂ طالب علمی میں ہی غریب بچوں کو فیس لیے بغیر پڑھانا شروع کردیا تھا۔ 1985میں وہ غریب بچوں کو نصابی کتب فراہم کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ابابیل آرگنائزیشن کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ میمن کمیونٹی کی مختلف آرگنائزیشنز میں اہم عہدوں پر خدمات سر انجام والے عبدالرشید گوڈیل نے سیاسی سفر کا آغاز 2005میں متحدہ قومی موومنٹ کے یونین کونسل ناظم کی حیثیت سے کیا۔ ان سے ایک گفت گو کا اہتمام کیا گیا جو نذرِقارئین ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔