مسجد تاجے شاہ: قدیم لاہور کی ایک نشانی، تغیر زمانہ نے جس کے نقوش دھندلا دیئے

مدثر بشیر  اتوار 6 جولائی 2014
عہد سکھی میں یہ تاجے شاہ ایک فقیر مجذوب مستانہ پھرا کرتا تھا لوگ بہت سے اس کے پاس جاتے تھے۔  فوٹو: فائل

عہد سکھی میں یہ تاجے شاہ ایک فقیر مجذوب مستانہ پھرا کرتا تھا لوگ بہت سے اس کے پاس جاتے تھے۔ فوٹو: فائل

مغلوں کے عہد کے آخری ایام میں 1742ء کے قریب لاہور میں ایک مجذوب فقیر تاجے شاؒہ کا جنم ہوا۔ تاجے شاہؒ نے ایک سو دوبرس کی عمر پائی۔ انہوں نے 1844ء میں انتقال فرمایا۔ ان کے مزار کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے تاریخ لاہور ( ص۔291) پر یوں تحریر کیا۔

’’یہ مزار بیرون موچی دروازہ مشہور و معروف مزار ہے۔ قبر پختہ ایک چبوترے و چار دیواری کے اندر ہے اور غرب کی سمت ایک مسجد پختہ بنی ہوئی ہے۔ شرق کی سمت ایک چھوٹا سا باغیچہ اور فقیروں کے رہنے کے مکان ہیں۔ روز دو شنبہ ہفتم ماہ بیساکھ سمیت1900بکرمی بمطابق 1664ہجری میں یہ بزرگ فوت ہوا۔ سالانہ میلہ اسی تاریخ کو ہوتا ہے۔ مہتم میلے کا مسمی نور محمد اور اس کا بیٹا بوڑا ہے۔ وہ اپنا روپیہ خرچ کر کے میلہ کرتے ہیں۔

یہ نور محمد تاجے شاہ کا مرید تھا۔ وہ بیان کرتا ہے کہ میرے گھر اولاد نہ تھی‘ تاجے شاہ کی دعا سے بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام بوڑا رکھا۔ عہد سکھی میں یہ تاجے شاہ ایک فقیر مجذوب مستانہ پھرا کرتا تھا لوگ بہت سے اس کے پاس جاتے تھے اور اس کوصاحب کشف وکرامت کہتے تھے۔ ایک سودوبرس اس نے عمر پائی‘‘ ۔ مولوی نور احمد چشتی نے اپنی کتاب تحقیقات چشتی(ص۔464) میں کچھ مزید معلومات یوں دی ہیں۔

’’مفتی غلام سرور نے جو تاریخ موت ان کی لکھی ہے۔ سو بعینہٖ درج کتاب ہذا ہوتی ہے۔

بود تاجے شاہ تاج عارفان

مشتہر شد جابجا سرمست عشق

سال ترحیلش جو جستم از خرد

گفت ہادی ہدی سرمست عشق

قبر اور دیگر عمارات کی معلومات کچھ یوں دی ہیں۔

’’قبر کاچبوترہ پانچ چھ فٹ اونچا زینہ دار اور اس قبر اور چراغ دان سفید موجود ہے اور چراغ دان کے دو راہ ہیں۔ ایک شمال رویہ‘ وہاں سے چراغ اندر رکھتے ہیں اور دوسرا جنوب رویہ ۔ قبر کے سرہانے اس کے منہ پر آئینہ لگا ہوا ہے۔ اور ایک جھنڈی برنگ گیروا کھڑی ہوئی ہے اور قبر کے تعویذ پر فارسی اشعار کندہ ہیں۔

پائینتی کی طرف درخت بیر‘ غرب رویہ دیوار خام گلی اور شرق رویۂ ایک دالان سہ درہ جس کے دو در بند اور ایک کشادہ ۔ اس کے شمال کی طرف ایک کوٹھڑی۔ دالان کے آگے ستون پر بیل انگور‘ یہ زمین چاہ لالہ رتن جندوہاڑی والا کی ہے۔ جس میں یہ قبر و مکان واقع ہے۔‘‘

لاہور میں مزارت کے ساتھ مسجد کی تعمیر بھی روایات کا ایک خاصہ رہی ہے۔ روایات کے اسی تسلسل کے باعث مزار تاجے شاہ کے ساتھ مسجد کی تعمیر دکھائی دیتی ہے۔ کنہیالال ہندی اور نور احمد چشتی کی تحریروں میں ہمیں فقراء کے کمرے‘ درخت اور چاہ نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ تقسیم سے قبل مزار اور مسجد کی چھوٹی سی عمارت کے ساتھ ساتھ ایک اکھاڑہ بھی موجود تھا۔ جب مسجد کی توسیع کی گئی تو اکھاڑے‘ تکیہ اور دیگر جگہیں مسجد کے صحن میں آگئیں اس وقت ریلوے روڈ پر قدیمی سبزی منڈی موجود تھی۔ جس کی وجہ سے مسجد کی وہ دیوار جو کہ برلب سڑک تھی اس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی دکانیں تعمیر کر دی گئیں جو کہ آج تک موجود ہیں۔ ان کی آمدنی مسجد پر صرف ہوتی تھی۔

بعدازاں جب مسجد محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی چلی گئی تو یہ کرایہ جات محکمہ اوقاف کو جانے لگے۔ تاجے شاہ کی مسجد اور مزار کی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ گئی ہے کہ یہ گوالمنڈی کے تاریخی علاقے میں واقع ہے۔ مسجد تک رسائی کے تین راستے میسر ہیں۔ ہم ان تینوں راستوں کو ان کی تاریخی اہمیت کے ساتھ زیر بحث لاتے ہوئے مسجد تک آئیں گے۔ سب سے پہلے ہم سرکلر روڈ سے موچی دروازہ کے عین سامنے چمبر لین روڈ سے ایک گھاٹی نما راستے سے نیچے اترتے ہیں۔ چمبر لین روڈ کے آغاز ہی میں دائیں جانب ایک نکڑ پر یاسین چنے والے کی قدیمی دکان ہے۔ جہاں آج کل اس کا بیٹا یوسف بیٹھتا ہے۔

اس دکان کے عین سامنے شرق سیدھ میںایک گلی نیچے کو گھومتی ہوئی جاتی ہے۔ جہاں پر قدیم کٹہریاں موجود ہیں اور ان کٹہریوں میں اکثریتی آبادی مسیحی مذہب کے ماننے والوں کی ہے۔ یاسین چنے والے سے نیچے کی جانب بڑ ھیں تو آگے بائیں جانب قبروز منزل ہے۔ اس کے نیچے اور سامنے فوم‘ بائنڈئنگ ٹیپ اور پلاسٹک رول کی مارکیٹ ہے۔ اسی بازار میں آگے بائیں جانب قدیمی تکیہ ’’تکیہ میراثیاں‘‘ ہے۔ اس تکیئے میں استاد عاشق علی خان کی قبر موحود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں پر شیعہ اور سنی اتحاد کی ایک انوکھی مثال دیکھنے کو ملتی ہے کہ عاشق علی خان کی قبر کے ساتھ ایک مسجد ہے جو کہ اہلسنت و الجماعت کے زیر نگرانی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک امام بارگاہ بھی موجودہے۔

یہ تینوں عمارتوں تک رسائی کے لیے ایک ہی چھوٹے سے دروازے سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ پچھلی جانب کی ساری آبادی گرو ارجن نگر کہلاتی ہے۔ گرو ارجن نگر میں شفیع د ودھ والے کی دکان آج بھی موجود ہے۔ شفیع مرحوم تمام زندگی خالص دودھ کی فروخت کے باعث تمام علاقے میں نامور رہے۔ اس بازار کی نکڑ پر ریاض گجر کی دکان ہے جو دیرینہ دشمنی پر قتل ہو گیا ہے۔ اسی دشمنی کے باعث مشہور فلمساز احد ملک کا برادرنسبتی گوگا شیر گورا قبرستان میں قتل ہوا۔ گوگا شیر گندا انجن بھگوان بازار کا رہنے والا تھا۔ یہاں پر موجود تمام نامور لوگوں کی پشت پناہی ہمیشہ اہم سیاسی اکابرین نے کی۔

گوگا شیر کے قتل کے بعد اس کے بہنوئی احد ملک نے اسی کے نام پر ایک فلم ’’گوگاشیر‘‘ کے نام سے بنائی۔ اسی سے آگے کچھ فاصلے پر بائیں جانب مسجد تاجے شاہ ہے اور اس کے سامنے کرشنا اسٹریٹ ہے۔ اس گلی کی نکڑ پر ایک قدیم دیسی مرغی کی دکان ’’بٹ صاحب‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس گلی میں ایک نامور حکیم بابا فرید گزرے ہیں۔ آج بھی ان کامطب ان کے پوتے چلا رہے ہیں۔ اب ہم مسجد کی رسائی کے دوسرے راستے کی جانب آتے ہیں۔ یہ راستہ میوہاسپٹل چوک ’’وانساں والا بازار‘‘ سے ہے یہاں نکڑ پر ایک قدیم مچھلی فروش کی دکان ہے اور اس کے سامنے شادی بیاہ کے دعوت نامے چھاپنے والوں کے دفاتر ہیں۔

اس کے بائیں جانب تمام گلیاں کرشنا اسٹریٹ اور نمبروں کے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔ جیسا کہ کرشنا اسٹریٹ نمبر1‘ کرشنا سٹریٹ نمبر4‘ وغیرہ یہاں سڑک کے بائیں جانب آلات موسیقی ٹھیک کرنے کی ایک قدیم دکان ’’پاکستان میوزک‘‘ کے نام سے ہے۔ اس کے سامنے گلی میں پانچ نسلوں سے ستار بنانے والے اساتذہ کا گھر ہے۔ 2009ء میں استاد رمضان نے اسی گھر میں وفات پائی‘ استاد رمضان کے والد استاد شبر محمد جو کہ مشہور ہندوستانی ستار بنانے والے رکھی رام کے استاد بھی تھے۔ ان کے پوتے آج بھی ہندوستان میں بڑے فخر سے ان کا نام لیتے ہیں جبکہ یہاں ان کی اولاد انتہائی کسمپرسی کے حالات میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ ان سے آگے کچھ فاصلے پر سڑک کی دائیں جانب باقر خانی کی کچھ قدیم دکانیں موجود ہیں اور ان کے سامنے ہی ایک پلازہ ہے۔ اس پلازے کے قریب ہی حکیم اشفاق احمد خان دہلوی کا مطب بھی ہے۔

ان کے والد مرحوم دہلی میں دہلی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے۔ اس پلازے سے کچھ قدم پر ایک نیا پلازہ تعمیر ہوا ہے جو کہ اصل میں تقسیم سے پہلے کے ایک مشہور ہوٹل ’’پنجاب ہوٹل‘‘ کی عمارت تھی۔ اب اس پلازے میں ملٹی نیشنل بنکوں کے دفاتر ہیں۔ اس سے کچھ قدم کے فاصلے پر گوالمنڈی چوک ہے جو کہ سیدھا باہر لاہور ہوٹل تک چلا جاتا ہے اور بائیں چمبر لین روڈ پر مسجد تاجے شاہ ہے اور دائیں جانب فوڈ اسٹریٹ ہے۔ یہی راستہ باہر تک ہمارا تیسرا راستہ بنتا ہے۔ اس چوک کے بائیں جانب گرلز ڈگری کالج ہے۔ اس کالج کے عین سامنے تقسیم کے بعد کے مشہور ترین سٹہ باز حاجی کھیڑ چند کا گھر ہے جو کہ اب ایک پلازے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

ان کی اولادیں اب گوالمنڈی سے باہر رہائش اختیار کر چکی ہیں۔ یہیں فوڈ اسٹریٹ کے شروع میں ہی سردار مچھلی فروش‘ چھما قواباں والا‘ چاچاذکوصابن والوں کی دکانیں ہیں۔ اسی چوک سے ریلوے روڈ پر ہی کچھ قدم پر تقسیم کے بعد کی ایک انتہائی معروف شخصیت ’’بشیر بختیار‘‘ کا گھر ہے، جو آل پاکستان لیبر یونین کے پریڈیڈنٹ تھے۔ ان کی وفات کے بعد انہیں نسبت روڈ پر موجود دیال سنگھ لائبریری کے عین سامنے بشیر لیبر ہال میں دفنایا گیا۔ ان کے جنازے میں اس وقت کے اور آج کے وزیراعظم نواز شریف نے بھی شرکت کی۔

بشیر صاحب کے گھر سے آگے حاجی محمد طفیل خان کا قدیمی گھر بھی ہے جو کہ برٹش انڈین آرمی کا حصہ تھے اور بعد میں میجر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے وہ اپنے آپ کو ہمیشہ فیض صاحب کا شاگرد بتلاتے تھے اور فیض صاحب کا ان کے گھر میں بہت آنا جانا تھا۔ ان کے بیٹے تعلیم کے فوراً بعد ہومیو پیتھک ادویات کے کاروبار میں مشغول ہو گئے اور ان کی قدیم دکانیں جرمن ہومیو پیتھک کے نام سے آج بھی گرلز ڈگری کالج کے نیچے دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہیں پر کسی زمانے میں ایک تاریخی سینما ’’روز‘‘ کی عمارت بھی موجود تھی۔ اس عمارت کے نشان بھی ختم ہو چکے ہیں۔ گوالمنڈی چوک میں ہی ایک مشہور بلڈنگ ’’کھنہ بلڈنگ‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ اتنی بڑی بلڈنگ تھی کہ آج ہمیں ستر سے اسی گھر اس میں ملتے ہیں اور یہیں پر اپنے وقت کے مشہور ڈاکٹر، ڈاکٹر قصوری بھی رہا کرتے تھے ۔

روز سینما کے قریب ہی اپنے وقت کے انتہائی اہم سیاسی لیڈر چودھری مقصود کا گھر تھا۔ چودھری مقصود مرحوم بھی گجروں کے ساتھ باہمی دشمنی کے باعث قتل ہوئے۔ اس سے آگے اسلامیہ کالج روڈ ریلوے روڈ کی تاریخی درسگاہ ہے۔ اس درسگاہ نے اپنے وقت کے نامور شاعر‘ ادیب اور سیاستدانوں کو جنم دیا۔ کالج کی عمارت کے قریب ہی حکیم اجمل خان کا قدیمی دوا خانہ‘ ہمدرد دواخانہ اور ان کے سامنے حکیم محمد موسیٰ امرتسری کا دواخانہ بھی ہے۔ ان کے سامنے گلی میں مشہور کالم نگار ’’غالب مزدقی‘‘ کا بھی گھر ہے۔ اسلامیہ کالج سے آگے بائیں جانب راجہ رام اسٹریٹ اور دائیں جانب ملکی رام اسٹریٹ ہے۔ ان کے ساتھ ہی ایک قدیمی بلڈنگ امردھارا کے نام سے ہے۔

یہ عظیم الشان بلڈنگ آج بھی سو سے زائد رہائشی گھروں کا مسکن ہے۔ ادھر ہی مشہور زمانہ پیڑوں کی لسی والی دکان ہے۔ امر دھارا بلڈنگ میں ہی مشہور زمانہ فلمی اداکار مظہر شاہ کا آبائی گھر بھی ہے۔ یہیں پر حلوہ پوڑی کی ایک قدیم اور مشہور دکان ہے۔ جب شریف فیملی ماڈل ٹاؤن چلی گئی تو ایک عرصہ تک اسی دکان سے ناشتہ جاتا رہا۔ امردھارا بلڈنگ کے سامنے ایک مشہور گلی ’’اچار مربوں والی گلی‘‘ کے نام سے ملتی ہے۔ شریف فیملی کے دو گھر آج بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔

ایک گھر ملکی رام اسٹریٹ میں تھا اور دوسرا گھر خالصہ اسٹریٹ میں تھا۔ اسی جگہ پر پیپلزپارٹی کے مشہور درویش رہنما ملک معراج خالد کا بھی گھر رہا ہے۔ ان کے پاس ہی زیر زمین دنیا کے دو مشہور کردار اسلم تانگے والا اور اس کا بھائی اشرف عرف اچھی بٹ رہائش پذیر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی محمد دین پنکھے والے اور پیپلزپارٹی کے ایک اور رہنما ملک اختر کا آبائی گھر بھی تھا۔ اسی سڑک کے آخر پر ریلوے روڈ ٹیکنیکل کالج کی عمارت بھی ہے۔

اب ہم مسجد کی عمارت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مسجد کا داخلی دروازہ سڑک کی جنوب سیدھ میں ہے اور مغربی سیدھ میں مسجد کی دیوار کے نیچے سری پائے اور گوشت کی دکانیں ہیں۔ جن کی آمدنی محکمہ اوقاف کو جاتی ہے۔ تقسیم کے بعد ان دکانوں کا کرایہ ایک پیسہ ماہوار سے شروع ہوا اور ایک عرصہ تک یہ پچاس پیسہ رہا،اب ان دکانوں کا کرایہ 1390روپے ماہوار ہے۔ مغربی سیدھ میں ہمیں دو گنبدیاں نما مینار مسجد کی دیوار کے اوپر دائیں اور بائیں جانب دکھائی دیتے ہیں اور ان کے پیچھے مشرقی سیدھ میں ایک مینار ہے جو کہ کوئی خاص اونچا نہیں۔

مسجد کے د اخلی دروازے کے ساتھ ہی دائیں جانب مسجد کا پرانا ہال ہے اور اس ہال کے بائیں جانب ایک چھوٹا سا راستہ ایک تہہ خانے کو جاتا ہے جہاں پر تاجے شاؒہ کی قبر ہے۔ تحقیقات چشتی میں بیان کی گئی قبر جو کہ ایک چبوترے میں تھی اب وہ ایک تہہ خانے میں ہے اور اس کے پیروں میں دومزید قبریں ہیں۔ ان قبور پر کوئی تختی اور نام موجود نہیں۔ فارسی کے اشعار جن کا ذکر نور احمد چشتی نے کیا وہ بھی زمانہ برد ہو چکے ہیں۔ مزار کا کوئی بھی متولی موجود نہیں۔ مسجد کی عمارت کی غربی سیدھ کی دیوار پر قرآن شریف کی آیات اور اردو میں کچھ ہدایات موجود ہیں۔ تقسیم کے بعد تک موجود کنواں اور اکھاڑا بھی محض بزرگوں کی یاداشتوں میں رہ گیا ہے۔

تقسیم کے وقت اردگرد کی زیادہ تر آبادی ہندو اور سکھوں کی ملکیت تھی جبکہ مزار کا شرق سیدھ احاطہ ایک مسلمان کی ملکیت ’’احاطہ قادر بخش تھا‘‘ گرلز کالج کی تعمیر نو کے بعد مشرقی جانب مسجد کو کافی بڑا احاطہ مل گیا ہے۔ نہایت چھوٹے داخلی دروازے سے یہ معلوم نہیں پڑتا کہ مسجد کے اندر کا احاطہ ڈیڑھ کنال کے لگ بھگ ہے۔ نئے توسیع شدہ احاطہ میں دو منزلہ عمارت کی تعمیر جاری ہے۔

چیمبر لین روڈ کی مارکیٹ میںسے نمازیوں کی ایک بڑی تعداد بغیر مسلک کے فرق کے یہاں نماز ادا کرنے آتی ہے۔ جبکہ مسجد کے باہر دن کے اوقات میں داخل ہوئے ٹرکوں کے باعث ٹریفک زیادہ تر جام ہی رہتی ہے۔ عہد حاضر میں امام مسجد کا نام ’’قاری ریاض اویس‘‘ ہے جو کہ اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ شہر لاہور میں عمارت اور جگہوں کے نام بدلنے کا رواج خاصا مقبول رہا ہے۔ لیکن شاید یہ تاجے شاہ کی عشق وحدانیت میں سرشاری تھی یا اہل علاقہ کا پیار کہ یہ مسجد آج بھی ان ہی کے نام سے منسوب ملتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔