(پاکستان ایک نظر میں)- اتوار بازار، سستا بازار یا رمضان بازار

رانا محمد ذیشان  ہفتہ 5 جولائی 2014
بات پھر وہی آکر رُک جاتی ہے کہ اگر حکومت عوام کی ترقی کیلئے سوچے گی تو محکمے کہاں سے کھائیں گے۔ فوٹو فائل

بات پھر وہی آکر رُک جاتی ہے کہ اگر حکومت عوام کی ترقی کیلئے سوچے گی تو محکمے کہاں سے کھائیں گے۔ فوٹو فائل

ایک بنیا بے حد غریب تھا اس کو غریب ہونے کی وجہ سے پرسو بلاتے تھے۔ کچھ دنوں بعد کاروبار کی ترقی ہونے لگی تو پرسوسے لوگ اسے پرسا بلانے لگے۔ چند سالوں بعد جب اس نے غریب کا خون نچوڑلیا اور مال دار لوگوں میں شمار ہونے لگاتو لوگ اس کو پرس رام بلانے لگے ۔اسی پر کسی نے کہا کہ پیسے کہ ہیں تین نام پرسو۔ پرسا۔ پرس رام ۔

اسی طرح پنجاب حکومت نے بھی ٹی ایم اوکو رقم کھانے کیلئے تین نام دیئے ہیں ۔اتوار بازار، سستا بازار اور رمضان بازار۔

ذراسوچئے ! کہ رمضان بازاروں میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے ۔کسی چیز کی کوالٹی بہتر نہیں ۔آفسران صرف رمضان بازاروں کے چکرلگانے اور پٹرول اڑانے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ جتنا بل ایک ماہ رمضان کا بنایاجاتا ہے اس رقم کا آدھا حصہ بھی خرچ نہیں ہوتا ۔ اوپر سے ان تمام چیزوں پر بے جا حکومتی اخراجات کا عوام کوکوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا ہے ۔ایک مہینے کیلئے ٹینٹ وغیرہ جو کرائے پر لئے جاتے ہیں اگر اس کا کرایہ ایک ماہ کا دیکھا جائے تو آدھی قیمت میں کتنے ہیں ٹینٹ نئے آسکتے ہیں ۔حکومت پنجاب کو چاہئے تھا کہ ٹینٹ کرایہ پرلینے کی بجائے ٹینٹ خرید لیں تاکہ مشکل وقت میں سیلاب، زلزلہ زدگاہ اور قدرتی آفات سے متاثرہ لوگوں کی بھلائی ہوسکے۔مگر بات پھر وہی آکر رُک جاتی ہے کہ اگر حکومت عوام کی ترقی کیلئے سوچے گی تو محکمے کہاں سے کھائیں گے۔

اکثر رمضان بازاروں میں دیکھا گیا ہے کہ جرنیٹر پورے مہینہ کیلئے کرایہ پر لیا جاتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس میں پٹرول ڈالنے کی کاغذی کارروائی کی جاتی ہے ۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے جرنیٹر رمضان بازاروں میں لایا جاتا ہے لیکن ایک گھنٹہ بھی نہیں چلایا جاتا اور جرنیٹر کا پٹرول سرکاری آفسران کی ذاتی گاڑیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

حکومت پنجاب نے رمضان آٹا کیلئے پانچ ارب کی سبسڈی دی ہے ۔یہ پانچ ارب روپے بھی غریب کے کسی فائدہ میں نہیں ہیں ۔کیونکہ رمضان بازاروں میں جوآٹا آتا ہے وہ نہایت ہی ناقص اور گھٹیاترین کوالٹی کا ہوتا ہے ۔دیہاتی رمضان بازاروں میں اگر گندم رکھ دی جائے اور اسے سستے داموں فروخت کیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ دیہاتی لوگ چکی کا پسا ہواآٹا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔

محکمہ ویٹنری کا بھی رمضان بازاروں میں خوب لوٹ مار ہوتی ہے ۔کسی گوشت فروش کی کوالٹی کو چیک نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کوالٹی مہر لگائی جاتی ہے ۔قصاب حضرات ان رمضان بازاروں میں خوب مال کماتے ہیں ۔لاغر اور بیمار جانوروں کا گوشت بیچا جاتا ہے ۔

یہاں دیہاتی اور شہری علاقوں میں ریٹ لسٹ پر فرق قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ دیہاتی علاقوں میں سبزیاں مقامی طور پر پیدا ہوتی ہیں اور سستے داموں فروخت کی جاتی ہیں اورریٹ لسٹ شہری بنیادوں پر بنائی جاتی ہیں جس سے سبزیاں بھی مہنگی ہوجاتی ہیں ۔

آخر میں بات پھر وہی آکر رک جاتی ہے کہ اتنے اخراجات اور رمضان کے نام پر حکومتی بینروں پر لاکھوں روپے کے خرچ سے عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے ۔

میں آپ کو ایک مثال واں بھچراں رمضان بازار کی دیتا ہوں یہاں لاکھوں روپے مالیت کے ٹینٹ لگائے گئے ۔ اور تمام چھابڑی فروش اور پھٹے والوں کو سایہ فراہم کردیا گیا ہے۔ اس سے وہ دکاندار جو پہلے سارا دن دھوپ میں کھڑا ہوتا تھا اس کے صبح ،دوپہر اورشام کے ریٹ الگ ہوتے تھے ۔اور گرمی کے مارے دوپہر کو سبزی اور فروٹ کے ریٹ کم کئے جاتے تھے تاکہ مال جلدی ختم کرکے چھابڑی فروخت گھر چلاجاتا تھا ۔لیکن اب حکومت پنجاب کے سائے کی بدولت ۔مال بکے نہ بکے ریٹ کم نہیں ہوگا ۔

رمضان بازاروں میں جب تمام کھوکھہ اور چھابڑی فروشوں کو ایک جگہ اکھٹا کیا جاتا ہے تو ریٹ اور بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں ۔ہونا تو یہ چایئے تھا کہ پہلے کی طرح جہاں جہاں یہ لوگ کھڑے یا بیٹھے تھے وہیں رہتے اور عوام وہیں جا کر خریداری کرتی۔

حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر رمضان بازاروں کو کم کردے اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کو ٹارگٹ دیا جائے کہ کسی دوکاندار کو من مانی نہ کرنے دی جائے۔ تاکہ غریب عوام دنیا وی پریشانیوں سے ہٹ کر رمضان کا مہینہ سکون اور عبادت میں گزار سکیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔