(میڈیا واچ ڈاگ) - ہمت نہ ہار!

وقار احمد شیخ  اتوار 6 جولائی 2014
77 سال پی وی سار ہریانہ سے روز 170 کلومیٹر دور کناٹ پیلس نئی دلی کی سڑک پر پتلیاں بیچتا ہے۔

77 سال پی وی سار ہریانہ سے روز 170 کلومیٹر دور کناٹ پیلس نئی دلی کی سڑک پر پتلیاں بیچتا ہے۔

دنیا عظیم انسانوں سے بھری پڑی ہے، وہ لوگ جو تاریخ کے صفحات پر امر ہوگئے، جن کے بارے میں ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں، بڑے بڑے مشہور لوگ جن شخصیات کا حوالہ اپنی تقاریر میں دیتے ہیں، اپنی کامیابیوں کے پیچھے ان کی شخصیات کو آئیڈیل قرار دیتے ہیں، یقیناً ایسی ہی کوئی ہستی آپ کا بھی آئیڈیل ہوگی۔ لیکن آج ہم تذکرہ کررہے ہیں ان عام لوگوں کا جو اپنے آپ میں بہت عظیم ہیں لیکن دنیا ان کے نام سے واقف نہیں ہوپاتی، وجہ یہ نہیں کہ انھوں نے کوئی تاریخی کارنامہ سرانجام نہیں دیا یا پھر ان کی زندگی کی جدوجہد اپنی ذات کے گرد گھومتی ہے بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ ایسے عظیم لوگوں کو اپنی کہانی منظر عام پر لانے کا پلیٹ فارم میسر نہیں آتا، نتیجتاً ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور اسباق سے پر کہانی جو دیگر عام لوگوں کو جینے کا حوصلہ دے سکتی ہے، زندگی کا لائحہ عمل طے کرنے میں مہمیز کا کردار ادا کرسکتی ہے، وہ عام نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔

یہاں ہم ابتدا کرتے ہیں ایک ایسے شخص سے جس کی کھلونے بیچتے ہوئے عام سی تصویر فیس بک پیج پر اپ لوڈ ہوتی ہے اور فوراً ایک لاکھ پینتالیس ہزار لائیکس حاصل کرلیتی ہے۔ آخر ایسا کیا خاص تھا اس تصویر میں جو اسے یکایک اتنے سارے لائیکس مل گئے؟ یقیناً وہ چھوٹی سی کہانی جو تصویر کے کیپشن کے طور پر لکھی گئی تھی اس قدر پسندیدگی کا محرک بنی۔ یہ تصویر 77 سالہ P.V. Saar کی ہے۔ تصویر کی کہانی نے ہی ایک اور عام شخص جو اپنے کام کی وجہ سے بہت خاص ہے، کو اپنی جانب متوجہ کرلیا اور یہ شخص Varun Pruthi ہے۔ ورون پروتھی نے فیس بک پر اپنے نام سے ایک پیج بنایا ہوا ہے جہاں وہ ہر ہفتے ایک نئی ویڈیو خود بنا کر اپ لوڈ کرتا ہے۔ ان ویڈیوز کی خاص بات انڈین کلچر، عام بھارتی شخص اور خاص کر انسانیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے اور ورون پروتھی کا یہی کام اسے ہزاروں عام لوگوں سے ممتاز کرکے ایک خاص شخص بنا دیتا ہے۔

پی وی سار کی تصویر فیس بک پر دیکھنے کے بعد ورون اس کا انٹرویو لینے گیا تاکہ دنیا تک اس شخص کی کہانی پہنچا سکے جو 77 سال کی عمر میں بھی اپنے جینے کا سامان کرنے اور عزت دار حلال روزی کی تگ و دو میں ہریانہ سے روز 170 کلومیٹر دور کناٹ پیلس نئی دلی کی سڑک پر (Puppet) پتلیاں بیچتا ہے۔ پی وی سار ایک بھارتی کمپنی میں بینک منیجر کی حیثیت سے کام کیا کرتا تھا، اس کی کمپنی انڈیا سے باہر شفٹ ہوگئی اور اسے اب کوئی پنشن بھی نہیں ملتی۔ زندگی بھر کی کمائی اس نے اپنے تین بچوں کی پڑھائی پر خرچ کردی، اپنے بچوں کے بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے اور حلال روزی کمانے کے لیے کھلونے بیچتا ہے۔ پی وی سار کا پیغام ہے کہ ’’چاہے کچھ بھی ہوجائے، ہمت نہیں ہارنی چاہیے‘‘۔

پی وی سار کی یہ کہانی فیس بک پر اپ لوڈ کرکے ورون پروتھی نے نہ صرف اس کا پیغام لاکھوں لوگوں تک پہنچایا بلکہ یقیناً اس کہانی میں ان لوگوں کے لیے سبق پوشیدہ ہے جو زندگی کی عام سی مشکلات میں بھی ہمت ہار جاتے ہیں اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں خود کو فنا کردیتے ہیں۔
یہاں ورون پروتھی کو خراج تحسین پیش نہ کرنا یقیناً کنجوسی کے زمرے میں شمار ہوگا جو اس طرح عام بھارتی لوگوں کی پرسبق کہانیاں منظرعام پر لارہا ہے۔ ورون کے فیس بک پیج پر اسی طرح کی دیگر ویڈیوز پر شیئر کی گئی ہیں جس میں خاص کر انسانیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اگر ایک عام بھارتی نوجوان اپنے کلچر، تہذیب اور عام بھارتی جنتا کی عظیم کہانیاں اس طرح دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟۔

ہمارے ارد گرد پی وی سار کی طرح لاکھوں کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں، کتنی ہی عظیم شخصیات پاکستان میں بھی ہر جہت میں مصروف عمل ہیں، نہ صرف اپنی ذاتی زندگی بلکہ عام انسانوں کے لیے کچھ کرنے کی لگن میں وہ کارنامے سرانجام دے رہے ہیں جو نہ صرف قابل ستائش بلکہ پیروی کے لائق ہیں۔ ایسے عام پاکستانیوں کی زندگی اور جدوجہد کی کہانیاں منظر عام پر لانے کے لیے ہمیں بھی آگے آنا ہوگا، فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورک کے ذریعے ہم بھی اپنی ثقافت، کلچر، تہذیب اور ان عام لوگوں کی خاص زندگی دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں جو بنا کسی ذاتی مفاد کے ہمت ہارے بغیر جہد مسلسل، عمل پیہم میں مصروف کار ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔