صحیح تا ر یخ پڑھنا ‘گناہ نہیں ہے

جمیل مرغز  اتوار 18 اگست 2024
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

تاریخ ما ضی کے واقعا ت ‘تحریکوں‘ جنگوں‘ ثقافت ‘رسم وروا ج اور ز ند گی کا ر یکا رڈ ہے‘ ان وا قعا ت کی وجو ہات اور نتا ئج پر بحث کر تی ہے‘ ان کو اس طر ح بیان کر تی ہے جس طر ح کہ وہ و قو ع پذ یر ہو ئے تھے ‘ تاریخ کا کو ئی عقیدہ نہیں ہو تا بلکہ تاریخ میں مذاہب و عقائد کا بھی تذکرہ ہوتاہے ‘یوں سمجھیں کہ تاریخ ماضی کی سیاست، معاشرتی، معیشت ، جنگیں اور نظریات کا آئینہ ہوتی ہے ‘یہ ما ضی تلخ بھی ہو سکتا ہے اور خوبصورت بھی۔

مثال کے طور پر یہ حقائق تاریخ کا حصہ ہیں کہ ‘ جماعت ا سلا می‘جمیعت العلماء ہند، خاکسار تحریک اور مجلس احرار وغیرہ تحر یک پا کستان کے حق میں نہیں تھیں ‘ قیام پاکستان کے بعد صوبہ سرحد کی منتخب جمہوری حکومت کو گورنر جنرل کے حکم سے برطرف کیاگیا تھا ‘ باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے ون یونٹ میں مغربی پاکستان کی وزارت اعلیٰ قبول کرکے چھوٹی قومیتوں کی تحریک کو نقصان پہنچایا تھا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قائد اعظم نے ایک جمہوری‘ وفاقی‘ لبرل اور سیکولر پاکستان کی بنیاد رکھی تھی‘ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفراللہ اور پہلے بنگالی وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کو قائداعظم نے منتخب کیا تھا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد قراداد مقاصد کے ذریعے اور ون یونٹ کے ذریعے پاکستان کو وفاقی کے بجائے وحدانی ریاست بنا نے کی کوشش کی گئی ۔نتیجہ ان حرکات کا یہ نکلا کہ ایک ملک جو بہت سی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا‘دولخت ہو گیا۔

افغانستان میں انقلاب ثور برپا ہوا تو اس انقلاب کے مخالف افغانستان کے شاہ پرستوں اور مذہبی جماعتوں کی لیڈرشپ کو پاکستان کے حکمران نے اپنے ملک میں پناہ دی۔ یوں افغان مجاہدین کی قیادت کا امریکا کے ساتھ تعاون کا آغاز ہوا۔ امریکا کے صدر رونالڈ ریگن نے افغان مجاہدین کی قیادت کو وائٹ ہاوس میں مدعو کیا۔ زملے خلیل زاد اور دائیں بازو کے دیگر افغانوں نے امریکا اور یورپ میں افغانستان کے انقلاب کے خلاف لابنگ کی۔

پاکستان میں ضیاالحق اور اس کے ساتھیوں نے پاکستان کو افغان مجاہدین اور افغان مہاجرین کے لیے کھول دیا۔ یہی نہیں دنیا بھر کے جہادی افغان مجاہدین کے ہمراہ لڑنے کے لیے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور پاکستان سے متصل افغانستان کے علاقوں میں جمع کیے گئے، جس کے نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں‘کشمیر کے حل کے لیے پراکسی جنگوں کا حربہ استعمال کرکے ‘اس مسئلے کو لہولہان کردیا گیا۔ یہ سا ر ے و ا قعا ت ہما ری تاریخ کا حصہ ہیں‘اسی طر ح ز مین کے کسی خطے کی بھی اپنی تا ر یخ ہو تی ہے‘ یہ واقعات جو میں نے بیان کیے ہیں ‘حالیہ تاریخ ہے‘ اسی طرح بر صغیر کی سرزمین لا کھو ں سا ل سے اس ز مین پر مو جو د ہے‘ یہا ں جو و ا قعا ت پیش آ ئے ہیں وہ سب ہما ری تاریخ کا حصہ ہیں ا ن کو نظر ا ند از نہیں کیا جا سکتا۔

بر صغیر میں مسلمانوں کی آ مد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے‘ جنو بی ہند و ستان کے سا حلی علا قو ں میں موپلا لوگ بحیثیت تا جر آئے اور سند ھ میں محمد بن قاسم کی سپہ سالاری میں عرب بطور فاتح آئے جب کہ محمود غزنوی کی قیادت ترکوں پر مشتمل فوج اور شمالی ہند میںکوہ ہندوکش کے میدانی اور بالائی علاقوں کے حکمران جے پال کی فوج میں سرحدی لڑائی شروع ہوئی ، جے پال اور اس کے بیٹے انندپال کی شکست کے بعد شمالی ہندوستان میں ترک تسلط قائم ہوگیا۔

شمالی ہند میں وسط ایشائی تاجر پہلے سے آ جارہے تھے۔ وہ اس بات کے خو ا ہشمند تھے کہ پر امن سر گر میوں کے ذر یعے زیا دہ سے ز یادہ تجا ر تی فو ا ئد حا صل کر یں ‘ہند و ستا ن کے ہند و حکمر انوں نے ان نو وار د مسلمانوں کیسا تھ نہ صر ف یہ کہ رواداری اور حسن سلو ک کا رو یہ ا ختیار کیا بلکہ ا نہیں ہر قسم کی سہو لتیں د یں ‘سندھ میں مسلمان محمد بن قا سم کی سرکردگی میں آ ئے‘ ر ا جہ د ا ہر کی شکست اور سند ھ کو فتح کر نے کے بعد جب یہ سو ال آ یا کہ یہا ں غیر مسلموں کے ساتھ کیا سلو ک کیا جا ئے‘ تو حجا ج بن یو سف نے علما و فقہا سے مشور ے کے بعد عملی سیا ست کے تقا ضو ں کو مد نظر ر کھتے ہو ئے یہ فیصلہ کیا کہ ہند ؤؤں کیسا تھ ا ہل کتاب جیسا سلو ک کیا جا ئے ‘یہ وہ ا ہم فیصلہ تھا جس پر آگے چل کر ہند و ستان کے کامیاب مسلمان حکمرانو ں نے اپنی مذ ہبی پا لیسی کی بنیا د ر کھی ۔شما لی ہند و ستان میں مسلمانوں کی آ مد خو نر یز جنگو ں کانتیجہ تھی ‘انھوں نے تلوار کے زور سے یہا ں کے حکمر انوں کو شکست د یکر اس علاقے پر قبضہ کیا تھا ‘ان میں غر نوی ‘غو ر ی‘ا بد ا لی‘لودھی جیسے افغان اورمغل با د شاہ و غیرہ شا مل تھے۔

مسلمانوں کی آ مد سے قبل بر صغیر کو ئی جنگل اور بیا بان نہیں تھا ‘یہ علاقے پر ا نے تہذ یبو ں کے مسکن تھے ‘وادی سند ھ کی تہذیب کا شمار مصر اور عراق سے بھی قد یم تر ین تہذیبوں میں ہوتا ہے ‘مو ہنجو داڑو اور ہڑپہ کے شہر ‘ان کی تہذ یب اور ثقا فت اس سر ز مین پر تھے ‘گند ھا را کی عظیم تہذ یب اور چند ر گپت مو ریہ کی حکمر انی’ عظیم ا شو کا اور کنشک کی خو شحا ل حکمر ا نی کا دور’ پا نینی کی علمیت اور ٹیکسلا کی یو نیو ر سٹیاں ‘ہما ری تابناک تا ر یخ کا حصہ ہیں۔ لا ہو ر‘کر ا چی‘ٹیکسلا اور پشا ور کے عجا ئب گھروں میں پڑ ی ہو ئی آ ثار قدیمہ کے نمو نے اس سر ز مین کی شان وشوکت کی یادگار ہیں۔   (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔