حکمرانوں کے غور و فکر کے لیے

مقتدا منصور  پير 7 جولائی 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

برطانوی صحافی نکولس بیورلے نے 1946ء میں ہندوستان کے طول و عرض کا دورہ کیا اور اپنے تاثرات Verdict on India نامی کتاب میں تحریر کیے۔ اس کتاب میں اس نے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے ہندوستانی عوام کی قیادت کرنے والے رہنمائوں کی کارکردگی اور اہلیت پر جابجا بڑی مدلل اور کڑی تنقید کی۔ اس نے کئی مقامات پر اس خدشے کا اظہار کیا کہ وہ ہندوستان جسے برطانیہ نے اپنے ’’دانشمندانہ اقدامات‘‘ کے ذریعے بولان سے راس کماری تک اور کراچی سے گوہاٹی تک متحد و منظم رکھا، ان رہنمائوں کی کوتاہ بینی کے سبب بکھر جائے گا۔

البتہ اس کا کہنا تھا کہ انگریز کی تربیت یافتہ بیوروکریسی عنانِ حکومت کو چلانے میں اپنی اہلیت کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ اس وقت ہندوستان میں آزادی کی تحریک اپنے عروج پر تھی، اس لیے کسی نے اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی اور اسے ایک انگریز صحافی کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ برصغیر کے ممالک میں حکمرانی کے معاملات کا اگر سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ جن کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی نکولس بیورلے نے کی تھی، وہ خاصی حد تک درست ثابت ہو رہی ہیں۔

بھارت نے آزادی کے فوراً بعد آئین سازی اور ریاستی امور میں بعض اہم اصلاحات کے ذریعے نظم حکمرانی کو تو خاصی حد تک جمہوری اور مستحکم کر لیا، ساتھ ہی ولبھ بھائی پٹیل کی جانب سے سول بیوروکریسی کے ڈھانچے میں کی جانے والی اصلاحات نے بھارتی انتظامیہ کے مزاج کو نوآبادیاتی سے نکال کر قومی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کی تعلیمی پالیسی نے نئے ملک کی سمت کا تعین کیا لیکن بھارتی قیادتیں معاشرے کو صحیح اور مکمل طور پر جمہوریانے (Democratise) میں ناکام رہیں۔ جس کی وجہ سے آئین میں ہر قسم کے تحفظ کے باوجود مذہبی اقلیتیں، چھوٹے لسانی گروپ اور نچلی جاتیوں سمیت مختلف محروم طبقات ہنوز امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ مگر بھارت کا آئین بہرحال ان طبقات کے حقوق کا بہت بڑا ضامن ہے۔

پاکستان میں بابائے قوم محمد علی جناح نئی قائم ہونے والی ریاست کے مستقبل کے خدوخال کے بارے میں واضح تھے، جس کا ثبوت ان کا 11 اگست 1947ء کو دستورسازی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں خطاب تھا۔ لیکن دیگر مسلم لیگی قیادت اس حوالے سے مختلف نوعیت کے فکری مغالطوں (Illusions) میں مبتلا تھی۔ جس کی وجہ سے وہ 1956ء تک کوئی متفقہ آئینی مسودہ دستور ساز اسمبلی سے منظور کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، جب کہ انگریز کے قائم کردہ اداروں اور ورثے میں ملنے والی بیوروکریسی کی وجہ سے ملک کا انتظام و انصرام 1960ء کے عشرے تک بحسن و خوبی چلتا رہا۔ لیکن ساتھ ہی بیوروکریسی نے سیاسی قیادتوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی امور میں بھی مداخلت شروع کردی۔

فکری انتشار اور کوتاہ بینی کے سبب سیاسی و انتظامی امور پر مکمل گرفت نہ رکھنے والی سیاسی قیادت سول و ملٹری بیوروکریسی کو کنٹرول میں رکھنے کے بجائے خود ان کے کنٹرول میں چلی گئی۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1958ء میں فوج ریاستی امور پر قابض ہو گئی۔ جو اس وقت سے آج تک کبھی بلاواسطہ اور کبھی بالواسطہ پالیسی سازی پر حاوی ہے، جس نے ملک میں جمہوری عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

مسلسل کئی دہائیوں کے تجربات کے بعد ملک کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے تاریخ کی طویل تلخیوں سے گزرنے کے بعد یہ سیکھا کہ جمہوری عمل کو بچانے کے لیے انھیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ2013ء میں وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل ہوا۔ ان دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی کوشش یہی ہے کہ جمہوری عمل اسی طرح تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔ لیکن سیاسی صورتحال کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود پیپلز پارٹی میں سیاسی وژن اور اس قدر لچک موجود ہے کہ وہ نامساعد حالات کو سنبھال سکتی ہے، جب کہ مسلم لیگ (ن) میں بیشمار ایسی کمزوریاں ہیں جو اس کے اقتدار کے تسلسل کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) بعض اہم قومی امور اور حساس معاملات پر آج بھی سطحی سوچ کی حامل ہے۔ جس کی چند مثالیں یہاں پر پیش کرنا چاہیں گے۔ اول، PML(N)، خود کو پیپلز پارٹی کی طرح قومی جماعت کے طور پر پیش اور تسلیم کرانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ اپنے رویوں سے صرف ایک صوبے کی ہی نہیں بلکہ ایک ضلع کی جماعت محسوس ہوتی ہے۔ دوئم، اعلیٰ قیادت اندرونی فکری اختلافات پر قابو پانے اور قومی پالیسی سازی پر ان کے پڑنے والے اثرات سے بچانے میں ناکام ہے، جس کی مثال شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں پائے جانے والے اختلافات ہیں، جن کی وجہ سے آپریشن کے اہداف متاثر ہونے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔

سوئم، ایڈونچر ازم کے ذریعے سستی شہرت کے حصول کی خواہش نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ پر اکسایا، ایک ایسا مقدمہ جس میں بے پناہ سقم ہیں، اس کی ساکھ کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اگر یہ مقدمہ شفاف بنیادوں پر ہوتا اور اس کے قائم کیے جانے سے قبل عوام کو کچھ ڈیلیور کر کے دیا جاتا، جیسا کہ ان کے رول ماڈل عبداﷲ گل اور طیب اردگان نے کیا تو شاید انھیں اس طرح بدنامی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جس سے گزر رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) لاکھ یہ باور کرائے کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، لیکن اس کے اقدامات اس کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ پچھلے دور میں ملٹری سمری کورٹس کا قیام اور اب تحفظ پاکستان آرڈیننس (PPO) اس کے آمرانہ مزاج کا عکاس ہے۔ اس بل کے نافذ ہونے کے بعد ملک کے پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہو جانے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ دیگر بیشمار مسائل جنم لیں گے، جن کا سامنا کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں ہوگی۔

کراچی آپریشن ہم سب کے سامنے ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم کو 4 ستمبر 2013ء کو سینئر صحافیوں نے اس آپریشن کے منصوبے میں پائے جانے والے اسقام کی نشاندہی کر دی تھی۔ مگر حکومت نے صحافیوں کے تحفظات پر توجہ نہیں دی۔ اس کے علاوہ لاہور میں 16 اور 17 جون کی شب جو کچھ ہوا اس سے بھی مسلم لیگی قیادت کے mindset کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے کبھی اپنے مخالفین کو اس بیدردی کے ساتھ کچلنے کی کبھی کوئی پالیسی اختیار نہیں کی۔

جہاں تک میڈیا کے ساتھ تعلق کا معاملہ ہے تو اس میں بھی مسلم لیگ (ن) عدم تحمل کا شکار نظر آتی ہے۔ 5 برس تک جس انداز میں پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت اور خود ریاست کی علامت صدرِ مملکت کو جس طرح بعض چینلز پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، پیپلز پارٹی نے اسے حوصلے کے ساتھ برداشت کیا اور اس جماعت کے کسی بھی رہنما نے کسی بھی چینل پر دیگر جماعتوں کے شرکاء اور اینکزر کے ساتھ کبھی کوئی تلخ گفتگو تک نہیں کی۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) کے تیسرے درجے کے رہنما بھی ہر چینل پر طوفان بدتمیزی مچائے رکھتے ہیں۔ یہ تمام واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں تحمل اور برداشت کا فقدان ہے۔

اب آئیے شمالی وزیرستان آپریشن کی طرف۔ دنیا بھر میں کسی بھی شورش زدہ علاقے کو کنٹرول میں لانے کے لیے اگر فوجی آپریشن کیا جاتا ہے، تو فوج کے ساتھ سویلین انتظامیہ کو یکساں ذمے داریاں نبھانا پڑتی ہیں۔ فوج انتہا پسند عناصر کی عسکری قوت کو ختم کرنے، ان کے ٹھکانوں کو مسمار کرنے اور انھیں گرفتار کر کے علاقے میں ریاست کی رٹ کی بحالی میں مصروف ہوتی ہے، تو سول انتظامیہ متاثرہ خاندانوں (IDPs) کی محفوظ مقامات پر منتقلی اور ان کی غذائی ضروریات، بیماریوں سے بچائو اور دیگر سہولیات کی فراہمی کا بندوبست کرتی ہے۔

یہاں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پہلے تو حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے فوجی آپریشن کو ٹالتی رہی۔ جب بین الاقوامی دبائو میں اضافہ ہوا اور خطے کے حالات میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہوئی تو بادل ناخواستہ فوجی آپریشن شروع کرایا۔ لیکن اس سے قبل جو اقدامات ضروری ہوتے ہیں، ان پر توجہ نہیں دی۔ جن میں متاثر خاندانوں کے لیے محفوظ مقامات پر خیمہ بستیوں کا قیام۔ ان بستیوں کے لیے راشننگ کی تقسیم کا انتظام اور حفظان صحت کے مراکز کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ بلکہ مسلم لیگ (ن) کے بعض وزرا اور مرکزی قائدین نے اس آپریشن کو ناکام بنانے کے لیے بعض غیر ضروری ایشوز کھڑے کر کے آپریشن کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی اور بیزاری کا اظہار کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ان رویوں کے نتیجے میں آپریشن کی حتمی کامیابی چیلنج بنتی جارہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو آج جن خطرات کا سامنا ہے، وہ خود اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ اس کے رویے صرف اس کے اپنے مستقبل کو تاریک کرنے کا نہیں بلکہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا بھی سبب بن رہے ہیں۔ امید یہ تھی کہ اس مرتبہ مسلم لیگ (ن) تلخ تجربات سے گزر کر اقتدار میں آئی ہے، اس کی روش تبدیل ہو چکی ہو گی، مگر سال بھر کے تجربات بتا رہے ہیں کہ اس نے ماضی کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ انداز حکمرانی میں مزید بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ اس لیے اس جماعت کو مودبانہ انداز میں صرف یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ اپنے رویوں اور افعال پر نظرثانی کر لے تو خود اس کے اور ملک کے حق میں بہتر ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔