نامعلوم افراد

وجاہت علی عباسی  پير 7 جولائی 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

اس وقت امریکا میں چالیس ہزار سینما گھر ہیں، چین میں چھتیس ہزار اور انڈیا میں دس ہزار، جن میں دن میں کم از کم تین شوز چلتے ہیں۔ اس وجہ سے تینوں ملکوں میں فلم کو محض انٹرٹینمنٹ کی طرح نہیں لیا جاتا بلکہ یہ پھلتی پھولتی انڈسٹری ہے جو ان ملکوں کے لیے بڑا سرمایہ لاتی ہے، اسی فلم انڈسٹری کی بات اگر پاکستان میں کی جائے تو آپ کو سن کر شاید حیرانی ہوگی کہ پاکستان میں اس وقت صرف ساٹھ سینما گھر ہیں جن میں سے صرف چوالیس ایسے ہیں جہاں باقاعدگی سے فلمیں لگتی ہیں۔

ایران جہاں کی سنسر شپ بہت سخت ہے اور نہ ہی کوئی انگریزی فلم سینما گھروں میں ریلیز کی جاسکتی ہے، وہاں بھی اس وقت ایک سو چوبیس سینما گھر ہیں، یعنی کوئی بھی پاکستان میں فلم کو ایک اچھے انویسٹمنٹ کی طرح نہیں لے سکتا، کیوں کہ آسان سے حساب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں پکچر ریلیز کرنے سے سینما گھروں کے ذریعے کوئی خاص آمدنی نہیں ہوسکتی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں فلم بنائے کون اور کیوں؟ اس کا بیشتر لوگوں کے خیال میں جواب ہے کہ وہ جو شوقیہ فلمیں بنارہا ہے جسے فلموں سے پیسہ کمانے سے دلچسپی نہیں۔ پاکستان میں پچھلے سال سات پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئیں، لیکن کچھ سال پہلے تک پاکستان کا حال اس معاملے میں اس سے بھی برا تھا، یہاں تک کہ نوے کی دہائی میں پانچ سال ایسے بھی گزرے ہیں جب ایک بھی اردو فلم سینما گھروں کی زینت نہیں بن سکی۔ 2006 میں حکومت پاکستان نے ہندوستانی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر پابندی میں نرمی کردی اور ہمارے یہاں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

80 کی دہائی میں پاکستان میں جب وی سی آر آیا تو اپنے ساتھ امیتابھ کو لایا، ان کی درجنوں فلمیں لوگوں نے ایک ساتھ دیکھیں۔اب جب ہندوستانی فلمیں سینما گھروں میں لگیں تو ا پنے ساتھ آگہی لائیں، یہ کہ ہم کو بھی دنیا کو اپنی کہانیاں بتانے کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے فلمیں ریلیز ہونے کا نمبر صفر سے سات تک پہنچ گیا۔

پاکستان میں ٹی وی بہت پاپولر ہے، کروڑوں روپے کے ڈرامے بنتے اور چینل والے ان سے کماتے بھی خوب ہیں، پھر ہمیں فلمیں بنانے اور انھیں چلا پانے میں اتنی دشواری کیوں ہورہی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی وی مفت میں دیکھنے کو ملتا ہے، اطمینان سے اپنے لائونج میں بیٹھ کر، لیکن فلمیں دیکھنے آپ کو باقاعدہ پلان بناکر ٹکٹ خرید کر سینما گھروں میں جانا ہوتا ہے اس لیے ایکٹنگ، سائونڈ، وژول سب کے معاملے میں فلم کوٹی وی سے بہتر اور بڑا ہونا چاہیے۔

انڈیا کی فلموں میں اکثر ایک گانے میں پانچ سو لوگ تک ڈانس کرتے نظر آتے ہیں یا پھر کسی سین میں پانچ سات گاڑیوں کو تباہ کردینا معمولی بات ہے۔ پاکستان میں جب سینما گھر ہی نہیں ہیں جو کما کر دے سکتے ہیں تو کوئی بھی بزنس SENSE یہ قبول نہیں کرتا کہ ہم ہندوستان کی طرح اپنی فلموں پر پچاس ساٹھ کروڑ خرچ کریں۔

حال ہی میں ایک ہندوستانی فلم آئی ’’ایک ولن‘‘ جس میں کوئی بھی اسٹار نہیں تھا پھر بھی اس نے پہلے دن سولہ کروڑ کا بزنس کیا، پاکستان کی پچھلے سال آئی تمام فلموں میں سے کسی نے بھی کل ملاکر بھی اتنا بزنس نہیں کیا۔

ان نمبرز کو دیکھ کر پاکستان میں کوئی بھی کارپوریشن یا نان گورنمنٹ آرگنائزیشن کو فلموں میں سرمایہ لگانے پر تیار کرنا بہت مشکل ہے۔ پچھلے سال جن فلموں میں کسی کارپوریشن نے پیسے لگائے بھی جیسے ’’میں ہوں شاہد آفریدی‘‘ اس کی وجہ اس فلم کی تھیم تھی یعنی کرکٹ۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیسی فلمیں بننی چاہیے کہ بڑھتی ہوئی Awareness اور ہماری محدود بزنس کے ذرائع سے ہم کیسے نمٹیں؟ تو اس کا جواب ہے ’’نامعلوم افراد‘‘۔

’’نامعلوم افراد‘‘ ایک نئی پاکستانی فلم ہے جو ستمبر میں ریلیز کی جائے گی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی اس فلم کا دو منٹ کا ایک پرومو ریلیز کیا گیا ہے، فلم کی کہانی میں تین عام سے لوگ کراچی شہر میں ایک مسئلے میں پھنس جاتے ہیں جس میں انھیں شہر میں ہنگامے کرانے کا کام سونپا جاتا ہے، کیوں کہ ہماری خبروں میں ’’نامعلوم افراد‘‘ کا ذکر بہت عام ہے، یہ لوگ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور کراچی میں حالات خراب کروانے کا منصوبہ بناتے ہیں اور اسی سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔فلم کے اشتہار کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلم بہت محنت سے بنائی گئی ہے، فلم کا بجٹ5 کروڑ کے آس پاس ہے اس لیے ایکشن، لوکیشنز وغیرہ کا ہم بالی وڈ سے مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن چھوٹے بجٹ کے لحاظ سے فلم میکر کی سخت محنت نظر آتی ہے۔

پانچ کروڑ میں بنی فلم تھیٹرز میں اگر دس کروڑ کا بزنس بھی کرے تو پروڈیوسرز نے منافع تو وہیں کمالیا جس کے بعد میوزک رائٹس، پروڈکٹ پلیسمنٹ، ٹی وی اور ڈی وی ڈی رائٹس سے پروڈیوسرز الگ کماسکتے ہیں اس کے علاوہ انٹرنیشنل ریلیز یعنی امریکا، انگلینڈ جیسی جگہوں پر رہنے والے پاکستانی اچھی بنی پاکستانی فلم دیکھنے بہت شوق سے جائیںگے۔ وہاں بھی یہ فلمیں ریلیز کی جاسکتی ہیں۔ ہندوستان میں پچھلے کچھ سال میں دو پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں ’’خدا کے لیے‘‘ اور ’’بول‘‘ جس میں سے خدا کے لیے نے وہاں اچھا بزنس کیا۔

اس سے ہم یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اگر ہم ہندوستان کو ایسی فلمیں دکھانے کی کوشش کریں جس میں کوئی شاہ رخ خان کی طرح ڈانس کر رہا ہے تو اوریجنل ان کے پاس ہے اس لیے وہ اس میں دلچسپی نہیں لیںگے لیکن اگر ہم ان کو ’’نامعلوم افراد‘‘ جیسی فلمیں دکھاتے ہیں جن میں ایسی کہانیاں ہیں جو ہندوستانی فلموں سے ہٹ کر ہیں تو لوگ وہاں بھی انھیں دیکھنا چاہیں گے۔پاکستان کے ساٹھ سینمائوں میں سے چوالیس میں باقاعدگی سے فلمیں ریلیز ہوتی ہیں تو ہندوستان کے ہزاروں سینما گھروں میں سے چند سو میں ہماری فلمیں کیوں نہیں ریلیز ہوسکتی ہیں؟

زبان، کلچر اور شکل و صورت میں ہم ان سے قریب ہیں، انڈیا میں فلمیں صرف سینما گھروں سے دو سو کروڑ کا بزنس کررہی ہیں تو ہم اس Established Market سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟

فلم میکرز ایکشن اور رومانس سے ہٹ کر اگر ’’نامعلوم افراد‘‘ جیسی فلمیں بنائیں تو پاکستان کی فلم انڈسٹری پھر سے سانس لے سکتی ہیں۔ہم چاہتے ہیں پاکستانی سینما آگے بڑھے، اسی لیے امید کرتے ہیں کہ اس نامعلوم افراد کا دنیا میں جتنے لوگوں کو پتہ چلے اچھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔