- پنڈدادن خان میں نجی اسکول کی کینٹین میں 8 سالہ طالبہ سے زیادتی
- بونیر میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکا، 4 پولیس اہل کار زخمی
- کندھ کوٹ میں اسکول کے سامنے فائرنگ سے خاتون ٹیچر قتل
- چاول کے جعلی بیج کے باعث کسانوں کو بھاری نقصان ہوا، حنا پرویز بٹ
- کالج طالبہ کے ساتھ زیادتی سے متعلق مبینہ من گھڑت ویڈیو کیخلاف مقدمہ درج
- کراچی میں آج سے سمندری ہوائیں بحال ہونے کا امکان
- کامران غلام کو سابق انگلش کپتان نے اسٹیو اسمتھ سے تشبیہ دیدی
- پانی کی ٹنکی سر پر گرنے کے باوجود خاتون زندہ بچ گئیں
- شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس؛ اسلام آباد میں 30 اضافی ناکے لگا دئیے گئے
- دوسرا ٹیسٹ؛ پاکستان نے انگلینڈ کیخلاف 8 وکٹیں گنوادیں
- اجے جڈیجا نے کوہلی کو دولت میں پیچھے چھوڑ دیا
- بھارت میں دسہرہ کے موقع پر ہاتھی بپھر گیا، ویڈیو وائرل
- بجلی بل میں میونسپل ٹیکس وصولی کیخلاف درخواست پر فریقین سے جواب طلب
- اے این ایف کا تعلیمی اداروں میں منشیات فروخت کرنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن
- پائیدار ترقی کیلیے علاقائی تعاون اور روابط کا فروغ ضروری ہے، شہباز شریف کا ایس سی او کانفرنس سے خطاب
- کراچی؛ ٹریفک حادثے میں باپ شیرخوار بیٹے سمیت جاں بحق، اہلیہ شدید زخمی
- این ایل سی کا علاقائی تعاون میں اہم کردار، پاکستانی زرعی برآمدات میں اضافہ
- خوابوں کا اشتراک ممکن ہے؟
- جلاؤ گھیراؤ کیس؛ پی ٹی آئی کے 2 رہنماؤں کی عبوری ضمانت میں توسیع
- اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، انڈیکس ایک بار پھر 86 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور کرگیا
شاہ اور ان کے سُر
آج سے لگ بھگ پونے تین سو سال پہلے کی بات ہے جب ایک نوجوان ریت کے ٹیلوں پر پھرتا ان پر اپنے نقش قدم چھوڑتا ہوا گھنے جنگلوں میں نکل جاتا۔ وہ دور سے گھومنے والے اونٹوں کی گھنٹیاں سنتا اور ان کی مدھر آوازیں اس کے سینے میں تلاطم پیدا کرتیں اور یہ تلاطم اسے بے اختیار شعر کہنے پر مجبور کرتا۔ اس کے یہ شعر آج دنیا میں نادر روزگار ہو چکے ہیں۔ ملکوں ملکوں سے لوگ اس کے مدفن اور مرقد کی قدم بوسی کو آتے ہیں۔
اس شخص کا نام شاہ عبداللطیف بھٹائی ہے اور اس کی وجہ سے سندھ ایک محترم اور مقدس مقام ہے۔
شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کے بعض اشعار کا سننے والے کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ وہیں اس کا دم نکل گیا اور شاہ نے اسے وہیں دفنا دیا اور اس شخص کا مزار بھی لوگوں کے لیے ایک مقدس جگہ ہے۔اس وقت شاہ کی عمر 21 برس کی تھی جب ان کے والد کچھ بیمار ہوئے اور ان کی خواہش ہوئی کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شادی ہو جائے۔ان کی شادی ایک ایسی لڑکی سے ہوئی جو مرحوم مغل بیگ مرزا کی بیٹی تھیں۔ اس کا نام سیدہ بیگم تھا، وہ نماز روزہ کی بہت پابند تھی۔ شادی کے فوراً بعد ہی وہ امید سے ہو گی۔
شاہ کا پارہ چڑھ گیا اور چونکہ مرید نے اپنا خواب سنایا جس میں بتایا گیا تھا کہ بچہ جھگڑالو ہوگا۔ یہ سنتے ہی شاہ بھٹائی نے کہا کہ مجھے جھگڑالو بچہ نہیں چاہے۔ میرے لیے میرے مرید ہی کافی ہیں۔ اس جملے کے بعد سیدہ بیگم کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔کیا عوام اور کیا خواص سب ہی میں اس کی شہرت پھیلتی گئی اور اس کے حجرے پر سیکڑوں ہزاروں لوگوں کا اژدھام رہنے لگا۔ ایک روز وہ اپنی کلہاڑی سے پتھر توڑ رہا تھا جب اس کا ایک مرید ایک پتھر لے کر آیا جسے وہ پارس پتھر کہہ رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس پارس پتھر کو جس چیز سے چھو دے گا وہ سونا بن جائے گی۔یہ سن کر شاہ نے اس پتھر کو پھینک دیا اور کہا کہ میں اپنی محنت سے سونا بنا سکتا ہوں۔
آخری عمر میں شاہ کو خواہش ہوئی کہ وہ زیارات کے لیے کربلا جائیں۔ وہ اپنے چند مریدوں کے ساتھ کربلا کو روانہ ہوئے، ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ان کا ایک مرید ان سے آ کر ملا۔ یہی وہ موقع ہے جب انھوں نے خود بھی سیاہ لباس پہنا اور اپنے مریدوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ سب سیاہ پوش ہو جائیں۔
انھوں نے اس وقت اپنے مریدوں سے کہا کہ وہ سب حسینؓ کے غم میں نوحے پڑھیں۔ یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے سُر کیدارو لکھی۔ واپس آ کر وہ نہا دھو کر اپنے گھر کے تہ خانے میں چلے گئے اور وہاں انھوں نے 71 دن کا مراقبہ کیا۔ اس دوران وہ بہ مشکل دو مرتبہ دو نوالے کھاتے تھے اور بس۔اس عالم میں ان کا وصال ہوا۔ ان کے چاہنے والے اور ان کے مرید آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں۔ ٹی سورلے نے ان کے کلام کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر کی۔ ان کے کلام کو شیخ ایاز نے منظوم ترجمے کی شکل میں ہمارے لیے زیادہ آسان کر دیا۔ اب نہ شیخ ایاز رہے اور نہ فہمیدہ ریاض۔ اسی طرح اب قاضی اختر جوناگڑھی اور آفاق صدیقی موجود نہیں لیکن شاہ ان کی لکھی ہوئی داستانیں موجود ہیں اور موجود رہیں گی۔ آخر میں شاہ کی چند وائیاں آپ کی نذر ہیں:
وائی۔1
روح پرور ہے دلکشی تیری
سیر حاصل ہے بندگی تیری
بے سہاروں کا تُو سہارا ہے
اے خوشا بندہ پروری تیری
بس گئی ہے مری نگاہوں میں
دور اُفتادہ روشنی تیری
مچلے آنکھوں میں خون کے آنسو
جب کبھی یاد آگئی تیری
دیکھنا ہے بروزِ حشر مجھے
گل کھلاتی ہے کیا خوشی تیری
میرا مرشد وہ غوثِ اعظم ہے
جس کو حاصل ہے رہبری تیری
وائی۔2
یوں تو کہنے کو بے نیاز ہے تُو
پھر بھی در پردہ کارساز ہے تُو
کوئی جن کا نہیں زمانے میں
اُن غریبوں کا کارساز ہے تُو
تیرا در چھوڑ کر کہاں جاؤں
میری دلبستگی کا راز ہے تُو
وائی۔3
اے مہینوال سوگوار ہوں میں
آ بھی جا اب کہ بے قرار ہوں میں
تن بہ تقدیر بے سر و ساماں
ہمہ تن محو انتظار ہوں میں
کوئی تیرے سوا نہیں درماں
ہائے کس درد کا شکار ہوں میں
کیا غرض رسم و راہِ دنیا سے
حسن یکتا کا اعتبار ہوں میں
عیش و عشرت کی آرزو کیسی
مبتلائے فراقِ یار ہوں میں
وائی۔4
کیا خبر اُس کو عاشقی کیا ہے
طفلِ ناداں نے کھیل سمجھا ہے
بھول جانا الست کا پیماں
سر بسر گمرہی کا سودا ہے
کیوں نہ کہلائے پیروِ نمرود
جس سے برگشتہ ذاتِ یکتا ہے
رحمتِ حق سے جو ہوا محروم
کون پرسانِ حال اس کا ہے
وائی۔5
مرحبا تیری جلوہ آرائی
کار فرما ہے شانِ یکتائی
تجھ سا محبوب مل گیا مجھ کو
بس مری ہر اُمید بر آئی
ماورائے ثنا ہے تیری ذات
ذرہ ذرہ ہے تیرا شیدائی
بادہ پرور نگاہ کے قرباں
دیدہ و دل نے سر خوشی پائی
گرچہ حدِ ادب سے گزری ہے
بارہا میری ناشکیبائی
تیرا در چھوڑ کر کہاں جائے
مطمئن ہے مری جبیں سائی
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔