- ایجنسیوں کا شہریوں کو اغواء کرنے کا تاثر قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- پی ٹی آئی کا لاہور جلسہ رکوانے کے لیے درخواست دائر
- کنول شوذب سے سفری پابندی ہٹانے کی درخواست پر ایف آئی اے سے جواب طلب
- آئینی ترامیم میں مولانا فضل الرحمان کا کردار کیا ہوگا کچھ نہیں کہہ سکتا، عمران خان
- قلیل مدت میں سب سے زیادہ غبارے پھوڑنے کا نیا ریکارڈ قائم
- منصور شاہ سینئر ترین جج ہیں ان کے سوا کوئی اور چیف جسٹس قبول نہیں، حامد خان
- کراچی میں واٹرپمپنگ اسٹیشن کے ٹینک سے لاپتا بچے کی لاش ملی
- پاکستانی سوشل انٹرپرینیو زین اشرف مغل نے گلوبل اسلامک فنانس ایوارڈ 2024 اپنے نام کرلیا
- چیمپئینز کپ؛ بقیہ میچز کی ٹکٹوں کی فروخت شروع
- کراچی؛ بینک سے رقم لیکر نکلے والے شہریوں کو لوٹنے والا گروہ گرفتار
- اسحاق ڈار نے میرا ویزا پراسس روک رکھا ہے، اعظم سواتی کی درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس
- غزہ میں حماس کیساتھ جھڑپ میں 4 اسرائیلی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی
- وکیل کے گھر چھاپا؛ سی سی پی او، ایس ایچ او اور دیگر کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم
- ایم ایم ون سیٹلائٹ کا تجربہ کامیاب رہا، چئیرمین سپارکو
- آرمی چیف اور ججز کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہونی چاہیے، حافظ نعیم
- چیک پوسٹیں ختم اور جرگہ سسٹم بحال کر رہے ہیں، وزیراعلیٰ کے پی
- الیکشن کمیشن؛ جے یو آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کیلیے 2 ماہ کی مہلت مانگ لی
- وزیراعلیٰ پنجاب کا مین ہول میں بچی گر کر جاں بحق ہونے کا سخت نوٹس
- عظمیٰ بخاری فیک وڈیو کیس؛ ڈی جی ایف آئی اے رپورٹ سمیت عدالت طلب
- کیفین کا معتدل استعمال اور اسکے فوائد
شاہ اور ان کے سُر
آج سے لگ بھگ پونے تین سو سال پہلے کی بات ہے جب ایک نوجوان ریت کے ٹیلوں پر پھرتا ان پر اپنے نقش قدم چھوڑتا ہوا گھنے جنگلوں میں نکل جاتا۔ وہ دور سے گھومنے والے اونٹوں کی گھنٹیاں سنتا اور ان کی مدھر آوازیں اس کے سینے میں تلاطم پیدا کرتیں اور یہ تلاطم اسے بے اختیار شعر کہنے پر مجبور کرتا۔ اس کے یہ شعر آج دنیا میں نادر روزگار ہو چکے ہیں۔ ملکوں ملکوں سے لوگ اس کے مدفن اور مرقد کی قدم بوسی کو آتے ہیں۔
اس شخص کا نام شاہ عبداللطیف بھٹائی ہے اور اس کی وجہ سے سندھ ایک محترم اور مقدس مقام ہے۔
شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کے بعض اشعار کا سننے والے کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ وہیں اس کا دم نکل گیا اور شاہ نے اسے وہیں دفنا دیا اور اس شخص کا مزار بھی لوگوں کے لیے ایک مقدس جگہ ہے۔اس وقت شاہ کی عمر 21 برس کی تھی جب ان کے والد کچھ بیمار ہوئے اور ان کی خواہش ہوئی کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شادی ہو جائے۔ان کی شادی ایک ایسی لڑکی سے ہوئی جو مرحوم مغل بیگ مرزا کی بیٹی تھیں۔ اس کا نام سیدہ بیگم تھا، وہ نماز روزہ کی بہت پابند تھی۔ شادی کے فوراً بعد ہی وہ امید سے ہو گی۔
شاہ کا پارہ چڑھ گیا اور چونکہ مرید نے اپنا خواب سنایا جس میں بتایا گیا تھا کہ بچہ جھگڑالو ہوگا۔ یہ سنتے ہی شاہ بھٹائی نے کہا کہ مجھے جھگڑالو بچہ نہیں چاہے۔ میرے لیے میرے مرید ہی کافی ہیں۔ اس جملے کے بعد سیدہ بیگم کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔کیا عوام اور کیا خواص سب ہی میں اس کی شہرت پھیلتی گئی اور اس کے حجرے پر سیکڑوں ہزاروں لوگوں کا اژدھام رہنے لگا۔ ایک روز وہ اپنی کلہاڑی سے پتھر توڑ رہا تھا جب اس کا ایک مرید ایک پتھر لے کر آیا جسے وہ پارس پتھر کہہ رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس پارس پتھر کو جس چیز سے چھو دے گا وہ سونا بن جائے گی۔یہ سن کر شاہ نے اس پتھر کو پھینک دیا اور کہا کہ میں اپنی محنت سے سونا بنا سکتا ہوں۔
آخری عمر میں شاہ کو خواہش ہوئی کہ وہ زیارات کے لیے کربلا جائیں۔ وہ اپنے چند مریدوں کے ساتھ کربلا کو روانہ ہوئے، ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ان کا ایک مرید ان سے آ کر ملا۔ یہی وہ موقع ہے جب انھوں نے خود بھی سیاہ لباس پہنا اور اپنے مریدوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ سب سیاہ پوش ہو جائیں۔
انھوں نے اس وقت اپنے مریدوں سے کہا کہ وہ سب حسینؓ کے غم میں نوحے پڑھیں۔ یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے سُر کیدارو لکھی۔ واپس آ کر وہ نہا دھو کر اپنے گھر کے تہ خانے میں چلے گئے اور وہاں انھوں نے 71 دن کا مراقبہ کیا۔ اس دوران وہ بہ مشکل دو مرتبہ دو نوالے کھاتے تھے اور بس۔اس عالم میں ان کا وصال ہوا۔ ان کے چاہنے والے اور ان کے مرید آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں۔ ٹی سورلے نے ان کے کلام کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر کی۔ ان کے کلام کو شیخ ایاز نے منظوم ترجمے کی شکل میں ہمارے لیے زیادہ آسان کر دیا۔ اب نہ شیخ ایاز رہے اور نہ فہمیدہ ریاض۔ اسی طرح اب قاضی اختر جوناگڑھی اور آفاق صدیقی موجود نہیں لیکن شاہ ان کی لکھی ہوئی داستانیں موجود ہیں اور موجود رہیں گی۔ آخر میں شاہ کی چند وائیاں آپ کی نذر ہیں:
وائی۔1
روح پرور ہے دلکشی تیری
سیر حاصل ہے بندگی تیری
بے سہاروں کا تُو سہارا ہے
اے خوشا بندہ پروری تیری
بس گئی ہے مری نگاہوں میں
دور اُفتادہ روشنی تیری
مچلے آنکھوں میں خون کے آنسو
جب کبھی یاد آگئی تیری
دیکھنا ہے بروزِ حشر مجھے
گل کھلاتی ہے کیا خوشی تیری
میرا مرشد وہ غوثِ اعظم ہے
جس کو حاصل ہے رہبری تیری
وائی۔2
یوں تو کہنے کو بے نیاز ہے تُو
پھر بھی در پردہ کارساز ہے تُو
کوئی جن کا نہیں زمانے میں
اُن غریبوں کا کارساز ہے تُو
تیرا در چھوڑ کر کہاں جاؤں
میری دلبستگی کا راز ہے تُو
وائی۔3
اے مہینوال سوگوار ہوں میں
آ بھی جا اب کہ بے قرار ہوں میں
تن بہ تقدیر بے سر و ساماں
ہمہ تن محو انتظار ہوں میں
کوئی تیرے سوا نہیں درماں
ہائے کس درد کا شکار ہوں میں
کیا غرض رسم و راہِ دنیا سے
حسن یکتا کا اعتبار ہوں میں
عیش و عشرت کی آرزو کیسی
مبتلائے فراقِ یار ہوں میں
وائی۔4
کیا خبر اُس کو عاشقی کیا ہے
طفلِ ناداں نے کھیل سمجھا ہے
بھول جانا الست کا پیماں
سر بسر گمرہی کا سودا ہے
کیوں نہ کہلائے پیروِ نمرود
جس سے برگشتہ ذاتِ یکتا ہے
رحمتِ حق سے جو ہوا محروم
کون پرسانِ حال اس کا ہے
وائی۔5
مرحبا تیری جلوہ آرائی
کار فرما ہے شانِ یکتائی
تجھ سا محبوب مل گیا مجھ کو
بس مری ہر اُمید بر آئی
ماورائے ثنا ہے تیری ذات
ذرہ ذرہ ہے تیرا شیدائی
بادہ پرور نگاہ کے قرباں
دیدہ و دل نے سر خوشی پائی
گرچہ حدِ ادب سے گزری ہے
بارہا میری ناشکیبائی
تیرا در چھوڑ کر کہاں جائے
مطمئن ہے مری جبیں سائی
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔