کوئی چیز مفت نہیں ملتی

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 8 جولائی 2014

’’میں نے تکلیفیں اٹھائیں میں نے سیکھا اور میں تبدیل ہو گیا ‘‘ یہ ایک آفاقی سچائی ہے اور ایک مُسَلّمہ اصول ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور یہی نجات کا بھی راستہ ہے۔ مہاتما بدھ بڑی شان و شوکت سے تین محلوں میں پلا بڑھا اس کے باپ سدھورن نے دنیا کا کوئی غم کوئی تکلیف کسی تشنگی کو اس کے پاس پھٹکنے تک نہ دیا۔ ہزاروں رقاصائیں اپنے مسحور کن رقص سے بدھ کا دل بہلاتیں جب وہ شادی کی عمر کو آن پہنچا تو 500 حسین و جمیل دوشیزائوں کو اس کی خد مت میں پیش کیا گیا تا کہ وہ ان میں سے اپنے لیے شریک حیا ت کا انتخاب کرسکے اس نے ان میں سے بسو دھرا کا انتخاب کیا۔

شادی کے بعد بیٹے راہول کی ولادت ہوئی۔ ایک روز بدھ چہل قدمی کی غرض سے اپنے محل کے با ہر گلیوں میں گھو م رہا تھا۔ اسی دوران اس نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کچھ دن بعد ایسی ہی معمول کی چہل قدمی کے دوران ایک بیمار آدمی کو اور پھر کچھ دن بعد ایک چتا کو دیکھا۔

بدھ نے ان واقعوں کو یوں بیان کیا ’’اوبھکشو! میں جو شاہانہ جاہ و جلا ل، رفعت و عزت کا مالک تھا یہ سو چ سوچ کر پریشان ہو جاتا ہوں کہ ایک عام جاہل آدمی جس کا مقدر بڑھاپا ہے اور مجھے بھی تو بوڑھا ہونا ہے میں پھر ایک عام آدمی کو دیکھ کر مضطرب کیوں نہ ہوں مجھے یہ موزوں دکھائی نہیں دیتا ۔ جوانی کے فخر و ناز بڑھا پے میں بدل جاتے ہیں اس لیے اے بھکشو! میں جنم کی فطرت کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے بھی تو بوڑھا ہونا ہے۔ لہذا میں یہ سو چتا ہوں کہ کیا مجھے پیدائش کی فطرت پر تفکر کرنا چاہیے میں جنم کی بد نصیبی جاننے کے بعد نروان کے ابد ی امن کا خواہاں ہوں۔‘‘

مہاتما بدھ کی آگہی کا آغا ز یہیں سے ہو تا ہے تمام آسائشو ں کے باوجود حقیقی شانتی کا متلاشی بدھ ایک روز اپنی بیوی، نو مولود بچے اور باپ کے محل کو چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں اور صحرائوں میں نکل گیا اور پھر یہیں سے مہاتما بدھ نے اپنے چھ سالہ کٹھن ترین تیاگ کا آغاز کیا اس سے پہلے بھی تاریخ ہند میں بہت سے جو گی تیاگ لے چکے تھے۔ بدھ نے بیجوں اور گھاس پھونس پر اپنا پیٹ پالا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی خوراک کو محض چاول کے ایک دانے تک محدود کر دیا۔

اپنے آپ کو اذیت دینے کے لیے سر اور داڑھی کے بال نو چے گھنٹوں ساکت کھڑا رہا، کانٹوں پر لیٹا رہا، گرد و غبار کا ڈھیر جسم پر جمنے دیا یہاں تک کہ وہ ایک بوسیدہ اور شکستہ درخت دکھائی دینے لگا اکثر و بیشتر گلی سٹری لاشوں کے پاس اس کا مسکن ہوتا جہاں درندے اور پرندے ان کی چیر پھاڑ کرتے وہ اپنی زبان کو مسلسل دانتوں تلے دبائے رکھتا تا کہ اس کا ذہن ما ئوف رہے، لیکن ایک دن مہاتما بدھ نے سو چا کہ نفس کشی اس کی منزل نہیں اسے احساس ہوا کہ فا قہ کشی کی درشتی اسے آگہی تک نہیں لے کر آئی اس نے تیاگ ترک کر دیا اور اب ایک سایہ دار شجر کے نیچے بالکل ساکت بیٹھ گیا اور یہ ارادہ کیا کہ اس وقت تک نہیں اٹھے گا جب تک آگہی، بصیرت اور ما فوق انسانی روشنی اسے نہیں ملتی۔

سات برس کی بصیرت افروز اور کشف انگیز ریاضت اور انسانی تکلیف کا اصل کارن جان لینے کے بعد مہاتما بدھ بنارس آیا اور یہاں آ کر سرناتھ کے ایک با غیچے میں لوگوں کو نروان کی تبلیغ شروع کی ’’مہاتما بدھ نے تکلیفیں اٹھائیں اس نے سیکھا اور وہ تبدیل ہو گیا‘‘ آج سے 2285 برس پہلے پیدا ہونے والا شہنشاہ اشوک جو اشو ک اعظم کہلایا درحقیقت انسان اعظم ہے۔ ایچ۔ جی۔ ویلز لکھتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں فوج کشی کرنے والے بادشاہوں میں اشوک پہلی مثال ہے جس نے فتح حاصل کر نے کے بعد جنگ سے تو بہ کرلی۔

ہوا یوں تھا کہ با دشاہ اشوک سر پر تاج شاہی سجانے کے 8 برس بعد اپنے عظیم لشکر کے ساتھ پڑوس کی طاقتور اور دولتمند ریاست کا لنگا (جنوبی اڑیسہ ) پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کر دیا۔ طاقت کے نشے میں سر شار اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کر نے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے نیم مر دہ تھے کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ تی تھیں اور آہ و بکا کرتی تھیں۔

کالنگا کے میدان میں اس نے دیکھا کہ فتح کا چہر ہ کتنا بھیانک ہے اس کے بدن پر لر ز ہ طاری ہو گیا وہ اپنے گھو ڑے سے اترا اور اس کے ساتھ چلنے والا شاہی دستہ بھی گھوڑوں سے اتر گیا اشو ک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا ’’یہ میں نے کیا کر دیا اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں یہ انصاف ہے یا ناانصافی یہ شجاعت ہے یا بزدلی کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے لا شوں کے یہ انبار کیا ہیں۔ کالنگا کی فتح کے بعد وہ بالکل بدل گیا پھر اشوک اعظم نے کبھی گوشت نہیں چکھا اس کے سپاہیوں کی تلواروں کو زنگ لگتا رہا اور اس کی سلطنت میں چوکڑیا ں بھرتے ہوئے جانوروں اور اڑتے ہو ئے پرندوں کو بھی جان کی امان ملی۔ وہ بدھ مت اختیار کر چکا تھا۔

’’ با دشاہ اشوک نے تکلیفیں دیکھیں اس سے سیکھا اور وہ تبدیل ہو گیا‘‘۔ اس کے علاوہ سقراط، ابوذر غفاری، امام ابو حنیفہ، برونو، تھامس مور، کارل مارکس، سردار بھگت سنگھ، جولیس فوچیک، گیبر یل پر ی، طاہرہ قرۃ العین، الندے مائو، لینن سمیت ہزاروں ایسے شہیدان حق گزرے ہیں جنہوں نے تکلیفیں اٹھائیں ان سے سیکھا اور تبدیل ہو گئے اور اس کے بعد دنیا کو تبدیل کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا اور امر ہو گئے اور آج بھی زندہ ہیں اور ہمیں آسودگی، خوشحالی، چین و سکون اور راحت کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ لیکن ہم نہ جانے کیوں اندھے بنے ہوئے ہیں۔ ہم حیرت انگیز قوم واقع ہوئے ہیں 66 سال سے مسلسل تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔

مسلسل ذلیل و خوار ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ تو ہم سیکھ رہے ہیں اور نہ ہی تبدیل ہو رہے ہیں فطرت نے انسان کو دو استاد مہیا کیے ہیں ایک دکھ اور ایک راحت یہ ان کا کام ہے کہ ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے یا کیا کرنا ہے ہمارے استاد ہمیں مسلسل سبق دے رہے ہیں۔ کہ قسمت اور نصیب بنے بنائے نہیں مل جاتے بلکہ انھیں بنا نا پڑتا ہے اور وہ اس وقت بنتے ہیں جب ہم اپنی تکلیفوں سے سیکھتے ہیں تکلیفیں ہمارے لیے زندگی کے اندھیروں میں چراغ کا کام کرتی ہیں جو ہمیں نجات کے لیے راستہ دکھاتی ہیں میرے لوگو کیا تمہیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے کیا سینوں میں گو نجتی چیخوں سے تمہارے دل نہیں پھٹتے کیا تم اپنے پیاروں کے گر یہ اور آہ و بکا سن کر زار زار روتے نہیں ہو۔

ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی ہے۔ اپنے لیے نہ سہی اپنے ماں باپ، بچوں، بیوی، بہن، بھائی کی خو شیوں اور آسودگی کی خاطر خدارا بزدلی اور کم ہمتی کو ایک طرف پھینک دو جا بروں، غا صبوں کو ایک دفعہ للکار کر تو دیکھو پھر تم دیکھو گے کہ وہ کس طرح تم سے اپنی جانوں کی بھیک مانگتے ہیں یہ زندگی تم کو صرف ایک دفعہ جینے کے لیے ملی ہے خدارا اپنی تکلیفوں سے سیکھو اور تبدیل ہو جائو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔