- پاکستان میں آن لائن،ڈیجیٹل مالی لین دین میں اضافہ
- وفاق نے 18 ویں ترمیم پرعمل شروع کردیا، ساری وزارتیں ختم کردیں، وزیراعلیٰ سندھ
- 2024 کا نوبل امن انعام ؛ جاپان کی انسدادِ جوہری بم کی تنظیم کے نام
- عمران خان کی بہن سے ملاقات پر پابندی کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
- پیٹرول پمپس، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا منافع مزید بڑھانے کی سمری تیار
- الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر لیگل وِنگ سے رائے طلب کرلی
- اراکین پارلیمنٹ کو اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے کیلیے حتمی تاریخ دیدی گئی
- پی ٹی سی ایل نے پاکستان میں اب تک کا تیز ترین انٹرنیٹ لانچ کردیا
- اربوں کا فراڈ؛ معروف بلڈر، اہلیہ اور ایس بی سی اے کے افسران گرفتار
- کے پی کے گرفتار سرکاری ملازمین کی رہائی کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست
- نمبرز پورے ہیں تاہم حکومت تمام جماعتوں سے مشاورت چاہتی ہے، بلاول بھٹوزرداری
- کے پی ہاؤس ڈی سیل نہ کرنے پر ڈائریکٹر سی ڈی اے کیخلاف توہین عدالت کی درخواست
- آئینی ترامیم پر مشاورت؛ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ختم، ڈیڈلاک برقرار
- ضلع کچھی میں سی ٹی ڈی کی کارروئی، فتنتہ الخوارج کے 3دہشتگرد ہلاک
- پی سی بی نے نئی سلیکشن کمیٹی تشکیل دیدی
- انتظار پنجوتھہ کہاں ہیں کچھ پتا نہیں چلا، اسلام آباد پولیس کا عدالت میں بیان
- بچوں کے جائیداد کیلئے تشدد پر والدین کی پانی کے ٹینک میں کود کر خودکشی
- آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کب تک ہوگا کچھ نہیں کہہ سکتے، فضل الرحمان
- کراچی کے جنوب مشرق میں ہوا کا کم دباؤ؛ ساحلی علاقہ متاثرہونے کا امکان نہیں
- شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے ہٹائے جانے کا امکان
سلگتا بلوچستان
25اور 26اگست کی رات بلوچستان کے لیے قیامت کی رات تھی۔ مختلف مقامات پر دہشت گردوں نے حملے کیے۔ 50 کے قریب افراد ان حملوں میں جان سے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں تربت یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے چھٹے سمسٹر کی طالبہ ماہل بلوچ بھی شامل تھی۔
26 اگست 2006 کو جنرل پرویز مشرف کے دور میں مری بگٹی علاقے میں ہونے والے آپریشن میں نواب اکبر بگٹی جاں بحق ہوئے۔ نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے چند بڑے سرداروں میں واحد سردار تھے جو ہمیشہ پاکستان کے حامی رہے۔ ان کے قتل کے بعد بلوچستان بد امنی کا شکار ہوا جو اب تک جاری ہے۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ ہندوستان کے بٹوارے کے وقت بلوچستان کا ایک حصہ برطانوی حکومت کے کنٹرول میں تھا، باقی آزاد ریاستیں تھیں اور سب سے بڑی ریاست قلات تھی۔ قلات کے منتخب ایوان میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو نے تجویز پیش کی تھی کہ بلوچستان کی آزاد حیثیت کو برقرار رکھا جائے مگر پھر قلات کا ریاست پاکستان سے الحاق ہوا اور الحاق کی شرائط تحریری طور پر دستاویز کی شکل میں محفوظ کی گئیں۔ 50ء کی دہائی میں خان آف قلات کے چھوٹے بھائی شہزادہ عبدالکریم نے اس الحاق پر احتجاج کیا اور وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ افغانستان چلے گئے مگر کچھ عرصے بعد شہزادہ عبد الکریم واپس آئے۔
کہا جاتا ہے کہ حکام سے بات چیت کے بعد واپسی پر آمادہ ہوئے۔ سابق صدر اسکندر مرزا جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر سمجھے جاتے تھے، وہ صدر تو بن گئے مگر جوڑ توڑ اور سازشوں کا سلسلہ جاری رہا۔کہا جاتا ہے کہ صدر اسکندر مرزا نے خان آف قلات کو مشورہ دیا کہ وہ ریاست کی خود مختاری کا مطالبہ کریں، جب خان آف قلات نے ریاست کی خود مختاری کا مطالبہ کیا تو صدر اسکندر مرزا نے خان آف قلات کے خلاف آپریشن کا حکم دیا۔ اسکندر مرزا نے ملک میں پہلا مارشل لا ء نافذ کیا اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقررکیا گیا۔ ایوب خان نے اسکندر مرزا کو تو رخصت کیا مگر بلوچستان میں آپریشن کیا۔
خان آف قلات کو گرفتار اور ریاست کو پاکستان میں ضم کر لیا گیا۔ کنگ آف جھلاوان سردار نوروز خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس وقت بریگیڈیئر ٹکا خان اس علاقے کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ سردار نوروز خان کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ پہاڑوں سے اتر کر ہتھیار ڈال دیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ سردار نوروز خان نے ہتھیار حکام کے حوالے کیے مگر حکام نے وعدہ کا پاس نہ کیا۔ بوڑھے سردار نوروز خان ، ان کے بیٹے اور بھتیجوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔
نوروز خان کی سزا پر بڑھاپے کی بناء پر عملدرآمد نہ ہوا مگر ان کے بیٹے اور بھتیجوں کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دیدی گئی۔ ترقی پسند رہنما رسول بخش تالپور نے بلوچ نوجوانوں کی لاشوں کو وصول کیا اور ان کے آبائی علاقے میں تدفین کے لیے بھجوایا گیا ۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے بلوچستان میں آپریشن کیا۔ بلوچستان کے رہنماؤں میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اﷲ مینگل اور نواب اکبر بگٹی وغیرہ کو برسوں جیلوں میں رکھا گیا۔ میر بزنجو کو کرنسی نوٹ پر نعرے لکھنے پر چار سال قید کی سزا دی گئی۔
1970 کے انتخابات میں بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کا اتحاد ہوگیا۔ جب 20دسمبر 1971کو ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے نیپ کے رہنماؤں سے مشورہ کیے بغیر نواب غوث بخش رئیسانی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا جس پرکوئٹہ میں احتجاج ہوا۔
صدر ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ سے معاہدہ کیا اور سردار عطاء اﷲ مینگل کی قیادت میں نیپ اور جمعیت علماء اسلام کی مخلوط حکومت قائم ہوئی اور میر غوث بخش بزنجوکوگورنر مقررکیا گیا۔ نیپ کی حکومت نے تعلیم اور صحت کے نئے منصوبے شروع کیے مگر 9 ماہ بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ اور جمعیت کی حکومت کو توڑ دیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں سمیت کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی بخش تالپور وغیرہ کے خلاف حیدرآباد سازش کیس کے عنوان سے خصوصی ٹریبونل میں مقدمہ چلایا گیا۔
اس دوران بلوچستان میں آپریشن کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ٹریبونل ختم کیا، تمام اسیر رہنماؤں کو رہا کیا گیا۔ کچھ عرصہ بلوچستان میں سکون رہا مگر پھر 90ء کی دہائی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم ہوئی مگر اس حکومت کو بھی کچھ عرصے بعد توڑ دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے آغاز کے ساتھ بلوچستان میں بدامنی کا دور شروع ہوا۔ پہلے نامعلوم افراد نے ججوں اور سیاسی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کی۔ نواب خیر بخش مری کو سابق چیف جسٹس کے قتل کے الزام میں گرفتارکیا گیا۔ نواب اکبر بگٹی سوئی کے علاقے میں اپنی زمینوں سے نکلنے والی گیس کی رائلٹی کے لیے نئے معاہدے کے خواہاں تھے۔
ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ سوئی گیس کمپنیاں مقامی افراد کو ملازمتیں دیں۔ اکبر بگٹی ہمیشہ پاکستان کے حامی تھے۔ اکبر بگٹی کی موت کے بعد بلوچستان بد امنی کا ایسا شکار ہوا کہ آج تک جاری ہے۔ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے، ان کی مسخ شدہ لاش ملنے اور فرقہ وارانہ بنیاد پر قتل و غارت کی لہر آئی۔ بعض انتہا پسندوں نے دیگر صوبوں سے آئے ہوئے ڈاکٹروں، اساتذہ، صحافیوں، وکلاء اور پولیس افسروں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کردی۔
جب 2008 میں آصف زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے اور اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ بلوچستان کے عہدے پر فائز ہوئے تو حقوق آغازِ بلوچستان کے پیکیج کا اعلان ہوا اورکچھ لاپتہ افراد رہا بھی ہوئے مگر پھر بدامنی اتنی بڑھی کہ سب کچھ تتر بتر ہوگیا۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انتہائی معقول فیصلہ کیا۔ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے تعلیم اورصحت کے شعبوں میں جامع اصلاحات کے ساتھ سیاسی مفاہمت کا عمل شروع کیا، وہ برطانیہ گئے اور جلا وطن رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔
ان کی کوشش نتیجہ خیز ثابت ہونے والی تھی کہ ڈاکٹر مالک کی حکومت ختم کردی گئی۔ اس دوران بلوچستان کے عوام کی محرومیاں اور بڑھ گئیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کو گوادرکے ماہی گیروں کے روزگار کو بچانے کے لیے مہم چلانی پڑی۔ 2024 کے انتخابات میں قوم پرست جماعتوں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کو شکست ہوئی۔ بلوچستان میں نوجوانوں میں احساس محرومی مزید بڑھ گیا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ماہ رنگ بلوچ کے جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ بلوچستان کی 75 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان مایوس ہیں۔ بلوچستان کرپشن کے حوالے سے باقی صوبوں سے آگے ہے۔
اکنامک ڈیولپمنٹ آف بلوچستان کے مصنف سید فضل الحیدرکا کہنا ہے کہ Ghost سڑکیں کرپشن کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں فنانشل مینجمنٹ کا تصور انتہائی کم ہے۔ بلوچستان میں حالات کو بہتر کرنے کے لیے ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل جیسے رہنماؤں کو سیاسی مذاکرات کے لیے آمادہ کیا جائے۔ ان رہنماؤں کو بااختیارکیا جائے کہ وہ منحرفین سے جو طے کریں گے، ان پر عمل درآمد ہوگا اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جائے گا۔ آپریشن سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ سلگتا بلوچستان سیاسی طریقوں کے استعمال سے ہی معمول پر آئے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔