گدا گری، پیسہ بنانے کا ایک شرمناک طریقہ…تسلیما لودھی

تسلیما لودھی  اتوار 1 ستمبر 2024

آج کل کے دور میں گداگری مجبوری نہیں ، بلکہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے،اور اس کے پیچھے مافیاز سرگرم ہیں،جیسے ہر پیشے کو اپنانے کے نت نئے طریقے ہوتے ہیں ویسے ہی ہر پیشے میں مختلف قسم کے لوگ بھی بھرتی ہوتے ہیں، ہر شعبے میں اپ گریڈ اور لیولز ہوتے ہیں۔عوام کو علم ہو چکا ہے کہ یہ ایک کاروباری مافیا بن چکا ہے، جس نے ہمارے ملک کو ایک خطرناک ڈگر پر لا کر کھڑا کر دیا ہے ۔ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ( اے ایچ آر سی ) کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 20 سے25 ملین افراد پیشہ ور بھکاری ہیں۔

اے ایچ آر سی انکے خاتمے کے حوالے سے کوئی بھی اقدامات اُٹھانے میں اب تک ناکام رہی ہے ۔بھکاریوں کے ٹھیکے پر ان کے علاقے بھی فکس کیے جاتے ہیں، کسی بھی بھکاری کو اپنے علاقے سے دوسرے بھکاری کے علاقے میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی، یہ بھکاری مختلف علاقوں کے سگنلز، مساجد، سڑکوں، بازاروں اور زیادہ ترکھانے پینے والے مقامات پر پائے جاتے ہیں۔ ایسے تمام بھکاری ایک نوکری پیشہ آدمی یا کاروباری آدمی سے زیادہ دن بھر میں پیسے اکٹھے کر لیتے ہیں۔ کونوں میں بیٹھے یہ نوٹوں کی گڈیاں گنتے لوگ رات کو سب کمائی اپنے ٹھیکیدار کو دیتے ہیں۔

پاکستان میں مختلف اقسام کے بھکاری پائے جاتے ہیں جیسا کہ مختلف مقامات پر گندے کپڑوں میں عورتیں یا دس سے پندرہ سال کی عمر کے بچے بچیاں چھوٹے چھوٹے شیر خوار بچوں کو گود میں اُٹھائے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اور سو،پچاس روپے یا کسی کھانے پینے کی اشیاء کی ڈیمانڈ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں یہ پہلے نمبر والے بھکاری ہوتے ہیں۔

دوسرے ایسے لوگ آپ کو سڑکوں پر دکھائی دیتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی سی اشیاء کو فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں، جیسا کہ پین، پونیاں، لاسٹک ، غبارے وغیرہ جیسی چیزیں بیچتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر ان سے کوئی چیز نہ خریدو تو وہ کھانے کا مطالبہ کر دیتے ہیں،جبکہ کچھ بھکاری اچھے کپڑوں میں موجود بٹوے کے گر جانے کا بہانہ کر کے یا تو کرائے کے پیسے مانگ رہے ہوتے ہیں یا پھر موٹر سائیکل پر موجود خاتون کے ساتھ پٹرول کے پیسے مانگ رہے ہوتے ہیں یا پھر کوئی گونگا بنا گلے میں چارٹس لٹکائے اور ساتھ میں وہیل چیئر پر کسی معذور کو بٹھائے، ہاتھ میں کسی نہ کسی ڈاکٹر کا نسخہ پکڑے کسی بیماری کا بتا کر دوائیاں دلوانے کا کہہ کر بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں اگرچہ کوئی نہ کوئی انھیں دوائیاں دلوا بھی دیں تو یہ لوگ اُن دوائیوں کو کیش کروا لیتے ہیں۔

ملک میں اونچے لیول کے بھکاری بھی پائے جاتے ہیں۔ کہیں کسی خوبصورت اور اچھی خاندانی دکھنے والی لڑکیوں کو کسی نہ کسی بزرگ کے ساتھ کسی سڑک پر چادر بچھا کر بٹھا دیا جاتا ہے یا پھر پوری فیملی بوڑھے والدین، دو بیٹیاں اچھے ملبوسات پہنے یا عبایوں میں فٹ پاتھ پر بیٹھی دکھائی دیتی ہیں جنھیں کسی ظالم بہو بیٹے یا بھائی بھاوج نے گھر سے نکال دیا ہوتا ہے۔ کبھی کسی فٹ پاتھ پر دو جوان میاں بیوی دو بچوں کو گودوں میں اُٹھائے الگ سے کسی فٹ پاتھ پر نظریں جھکائے بیٹھے نظر آتے ہیں۔

پوچھے جانے پر یہ لوگ ایک ہی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ نوکری سے نکال دیا گیا تھا اور کرایہ نہیں دے سکے تو مالک مکان نے بھی گھر سے نکال دیا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اونچے طبقے والے بھکاری ہوتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کا سو ، دو سو ، پانچ سو یا ہزار سے کچھ نہیں بنتا جبکہ لوگ واقعی میں ایسے بھکاریوں کو مجبور مان کر اُنھیں پانچ ہزار تک بھیک دیتے ہیں کہ جاؤ اپنے گھر کا کرایہ بھر دو یا وغیرہ وغیرہ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے بھکاری لوگوں سے پکار کر پیسے نہیں مانگتے۔

بس سر جھکائے ایسے مجبوری اور لاچاری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ سامنے والا خود آ کر پوچھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بھائی کیا ہوا؟ یہاں کیوں ایسے بیٹھے ہو؟ جبکہ اگر انھی جیسے لوگوں کو کبھی نوکری کے لیے کہا جائے تو کسی نہ کسی بات یا بیماری کا بہانہ بنا کر اُن سے جتنے ہو سکیں پیسے وصول کر لیتے ہیں، تاکہ دینے والے کو شک نہ ہو سکے۔ ان پیشہ ورانہ بھکاریوں کی وجہ سے سفید پوش لوگ جو واقعی میں ضرورت مند ہیں اُنھیں بھی لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں بھی پیشہ ور بھکاری سمجھتے ہیں جس سے اُن لوگوں کا حق بھی مارا جاتا ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو ضرورت مند ہونے کے ساتھ ساتھ سُفید پوش بھی ہوتے ہیں جو کہ فاقے کرتے کرتے جب مرنے کی ڈگر پر پہنچ جاتے ہیں تب مانگنے کے لیے نکلتے ہیں جبکہ پیشہ ور نہیں ہونے کی وجہ سے اُنھیں دیگر پیشہ ور بھکاریوں جیسے مانگنے کے طور طریقے نہیں آتے لیکن پھر بھی وہ مجبوری میں اپنے پیٹ کی دوزخ کو بھرنے کے لیے سڑکوں پر بطورِ بھکاری نکل آتے ہیں۔ عزتِ نفس اجازت دے نہ دے لیکن پیٹ کو بھرنے کے لیے پھر جو حربے اپنا سکتا ہے ایسا شخص وہ اپناتا ہے۔

ایسے لوگ اپنی عزتِ نفس کو پس ِ پشت ڈال کر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے مانگنے کا سلسلہ شروع اس لیے بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے عزیز و اقارب سے بھی نہیں مانگ سکتے اس لیے اپنے عزیز و اقارب کے علاقوں سے کہیں دور ہی جا کر بھیک مانگتے ہیں، لیکن اگر معاشی طور پر مستحکم لوگوں کو اپنے ارد گرد یا اپنے رشتے داروں میں مستحقین افراد نظر آجائیں تو ایسے لوگوں کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے نہ پڑیں جبکہ گداگری کی شرح میں کسی حد تک کمی بھی آ سکتی ہے، ایسے لوگوں کو گداگر بننے سے بچایا بھی جا سکتا ہے۔

اب بات کرتے ہیں گداگری کے خاتمے کی تو ہمارے ملک میں گدا گری کے خاتمے کے لیے کوئی بھی کارروائیاں یا اقدامات نہیں کیے جاتے، اگر حکومت چاہے تو گداگری کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہے ۔اب آئی بات اُن لوگوں کی جنھوں نے گداگری اپنا پیشہ بنا رکھاہے تو ایسے گدا گروں کے خلاف کارروائی شروع کرنے کیلئے اُن کا ڈیٹا ہونا لازمی ہے جس سے اُن کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے، تاکہ کارروائی اور اقدامات میں آسانی ہو سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ پہلے ایسے گدا گروں کو وارننگ دے اور پھر بھاری مالی جُرمانے عائد کرے، جبکہ اگر کوئی چائے پانی کے نام پر رشوت دے کر آزاد ہونا بھی چاہے تو اُسے مزید بھاری مالی جُرمانہ بھرنے کے ساتھ ساتھ سزا بل جبر بھی سُنائی جائے، جیل میں اُن سے سخت سے سخت کام لیا جائے تاکہ اُنھیں محنت کرنے کی عادت ہو سکے ۔

گداگری جیسے کاروبار اور لعنت کو ختم کرنے کیلئے سب سے پہلے عوام کو ایسے لوگوں کو پیسے دینے سے گریز کرنا ہوگا، اس حوالے سے ملک میں قائم این جی اوز بھی اپنا بہتر کردار ادا کر سکتی ہیں کہ اگر کسی شخص کو غریبوں کے لیے کچھ کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے تو اپنے ارد گرد یا اپنے عزیز و اقارب میں سب سے پہلے دیکھے یا پھر ایسی این جی اوز کو دے جوواقعی میں غریبوں کی مدد کے لیے ہر وقت کوشاں رہتی ہیں۔ کیونکہ…پاکستان سے گداگر نہیں، گداگری کے خاتمے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔