کچھ باتیں ہوائی حدود کی

شہلا اعجاز  اتوار 1 ستمبر 2024

پاکستان میں اسنوکر کے حوالے سے بہت سی کامیابیاں رقم ہیں۔ پہلی بڑی کامیابی کی صدا اس وقت گونجی جب 1994 میں محمد یوسف نے ایک بڑے معرکے کے بعد اپنا جھنڈا گاڑا۔ یہ پہلی سیڑھی تھی اور اس کے بعد قدم در قدم سفر چلتا ہی رہا۔ لوگوں نے پہچانا کہ یہ بھی کوئی کھیل ہے جو بظاہر ایک بڑی سی میز پر لکڑی کی ڈنڈیوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے جس میں مہارت کے ساتھ عقل کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ انڈور گیم بچوں کے ساتھ بڑوں میں بھی خاصا مقبول ہے۔

2012-13 اور پھر2017 میں پاکستان نے ورلڈ ٹیم اسنوکر چیمپئن شپ جیتی تھی، یہ بڑی کامیابیاں تھیں۔ ورلڈ انڈر 18 میں بھی پاکستان کی بڑی فتوحات قابل ذکر ہیں۔ پاکستان اسنوکر میں عالمی چیمپئن رہا، یہ بڑی بات تھی کہ یکے بعد دیگرے لڑکوں سے لے کر مردوں تک نے انفرادی اور ٹیم کی حیثیت سے نہ صرف صحت افزا کھیل کھیلا بلکہ کامیابیاں بھی حاصل کیں۔

گو اس کھیل کے بارے میں بہت زیادہ معلومات تو نہیں ہیں البتہ کامیابیاں تو یاد رہتی ہی ہیں اور اسی کی ایک لڑی احسن رمضان بھی تھے جنھوں نے امیچر اسنوکر کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا اور دنیا کے سب سے کم عمر ورلڈ ایماچوئر اسنوکر چیمپئن بن گئے۔ سولہ سال کے اس نوجوان کے عزم بلند اور ہمتیں جوان تھیں۔ یہ فائنل میچ دوحہ میں ہوا تھا جہاں انھوں نے ایران کے تجربہ کار عامر سرکوش کو پانچ کے مقابلے میں چھ فریم سے شکست دی تھی۔

یہ تو طے تھا کہ ورلڈ چیمپئن احسن رمضان کو بھارت میں ورلڈ چیمپئن شپ میں جانا ہی ہے، ان کے ساتھ ٹیم میں حمزہ الیاس اور حسنین اختر کے ناموں کا بھی اعلان ہو چکا تھا جب کہ ریفری کے حوالے سے تو یہ کپاڈیا اور پی بی ایس اے کے عالم گیر شیخ کو بھی جانا ہے۔ معرکہ معمولی نہ تھا شیڈول ورلڈ انڈر 17 اور ورلڈ انڈر21 کی چیمپئن شپس تھیں۔ یہ بنگلور میں چوبیس سے اکتیس اگست تک چلتی رہیں گی۔ سارے انتظامات طے تھے لیکن بھارت نے پاکستان کی ایک متوقع چیمپئن شپ میں کامیابی کے دَرکو بند کرنا تھا تو کر دیا کہ اس کا واحد راستہ یہی تھا کہ ان باہمت نوجوانوں اور افراد کو بھارت کا ویزہ ہی فراہم نہ کیا جائے۔

بھارت کے اس رویے پر پاکستان میں اسنوکر کے کھلاڑیوں اور شایقین کو سخت مایوسی ہوئی، حالانکہ اس بڑے چیمپئن شپ میں شرکت کرنا کوئی بار نہ تھا کہ منسلک ادارے کو علم ہی نہ ہوکہ کیا کیا کاغذات اور اجازت نامے درکار ہوتے ہیں،کیونکہ دنیا بھر میں اسنوکر کے کھلاڑی مختلف میچز اور ٹورنامنٹ میں شرکت کرچکے ہیں پھر اب کیا حجت تھی۔

ذمے داروں کا کہنا ہے کہ سارے ضروری احکامات و ہدایات کے مطابق کام کیا گیا تھا یعنی این او سی حاصل کیے گئے تھے۔ اس کے بعد ہی ویزوں کے لیے درخواست دی گئی تھی۔ اس دوران بھارتی اسنوکر فیڈریشن سے بھی روابط جاری تھے لیکن بھارت نے ویزے سے انکار کر کے نہ صرف پاکستانی اسنوکر ٹیم کو مایوس کیا بلکہ یقینی میڈلز سے بھی محروم کر دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اسنوکر کے حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ خاصا تگڑا ہے اور ارشد ندیم کے ورلڈ ریکارڈ کے بعد ایک اور بڑی کامیابی پڑوسیوں کو گوارا نہ تھی۔

بات کھیل کے حوالے سے ہو رہی تھی تو بس اتنا ہی کرسکے جو کر سکتے تھے کہ کسی طرح بھارتی سرزمین پر قدم نہ رکھیے حالانکہ اجازت نامہ ہی تو طلب کیا تھا۔ ابھی یہ بحث جاری تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پولینڈ سے واپسی پر پاکستانی حدود سے گزرتے ہوئے بنا کسی اجازت نامے اور خیر سگالی پیغام سے دھڑلے سے شارٹ کٹ لیتے پورے پینتالیس سے اڑتالیس منٹ پاکستانی حدود میں تیرتے رہے۔ سول ایوی ایشن کی اطلاع کے مطابق مودی کا طیارہ چترال سے داخل ہو کر لاہور سے ہوتا ہوا بھارتی شہر امرتسر روانہ ہوا۔ ذرائع کے مطابق یہ ایک روایت یا اخلاقی معیار ہے کہ پاکستانی حدود سے گزرتے ہوئے غیر ملکی صدر و وزیراعظم شکریہ ادا خیر سگالی کے پیغامات بھیجتے ہیں۔ یہ پیغامات فضا میں جھنڈیوں کی صورت میں نہیں گرائے جاتے بلکہ باقاعدہ پائلٹ کے ذریعے ایئر ٹریفک کو بھیجتے ہیں۔

مودی جی کے بلند اخلاق اور تمیز کے کیا ہی کہنے کہ اس قدر بے رخی اور تکبر کہ بلا اجازت ہی اڑان بھر لی، اگر وہ ایئر ٹریفک کے ذریعے پیغام بھیج دیتے تو یہ ان کی اپنی سیکیورٹی کے لیے بھی ہوتا کہ کہیں ان کے طیارے کو ہمارے منسلک ادارے دہشت گرد یا اغوا شدہ طیارہ نہ سمجھتے۔ مانا کہ طیارے پر خطرے کا سگنل یا تصویر چپکا رکھی ہوگی لیکن اگر مودی میاں کو کوئی سر پھرا اغوا کر کے لے جا رہا ہوتا، تو ہمارے ادارے ان کو بچانے کے تو کچھ جتن کرتے، ہونے کو تو پل بھرکی خبر نہیں کیا کچھ چند ساعتوں میں گزر جاتا ہے کہ جیسے مودی جی آدھے گھنٹے سے زیادہ ہمارے ملک کی پاک فضاؤں میں سانس لیتے رہے۔ پھر اگر کوئی اونچ نیچ ہو جاتی تو ان کے لیے ہی برا ہوتا۔ اجی ہمارا کیا جاتا کچھ خبریں اور بن جاتیں اور ویسے بھی خبریں اور افواہیں بنانے میں بھارتی میڈیا ماسٹر ہے۔

بات اسنوکر کے کھیل سے چلی تھی کہ بچوں کو مودی بزرگوار کی حکومت یا انتظامیہ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ویزہ نہیں دیا۔ کھیل تو بچے ہی کھیلتے ہیں وہ بھی بچے ہی تھے بس احتجاج کر سکتے تھے تو کر دیا پر ادھر خبر ملی کہ ویزے دینے سے انکارکر دیا گیا ہے اور ادھر سے بڑے میاں صاحب مودی اڑے چلے جا رہے ہیں۔ اب پولینڈ جانے کی ایسی بھی کیا جلدی تھی۔

پہلے روس کے پیوٹن سے ملنے کے بعد جو ہاہاکار مچی کہ فوراً سے سمجھ نہ آیا اور ویلنسکی سے ملنے چلے گئے یہ تو ہے آپ کی اپنی سفارت کاری، بہرحال جس قدر بھی حربے استعمال کر لیے جائیں حق کو جھٹلانا آسان نہیں ہوتا اور ایسا کئی بار بھارت سرکار کے ساتھ ہو چکا ہے۔ مودی خود پاکستان کی حدود سے چار بار بنا اطلاع و پیغام کے گزر چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ فرنگی اپنی حدود میں سے کتے کا بھی گزرنا پسند نہیں کرتے اور پھر مودی تو خیر سے پورے چار ہاتھ پیر والے ہیں۔ بچوں کو ویزہ نہ دینے کے بعد اب اتنا تو ہمارا حق بنتا ہے کہ احتجاج توکیا جائے۔ پاکستان کو غیر محفوظ سمجھانے کا واویلا تو جناب کی سرکارکی جانب سے بہتیرا کیا گیا ہے کم ازکم اپنے بیانات کا ہی پاس رکھ لیں پھر نہ کہیے گا کہ ہمیں خبر نہ ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔