پاکستان اور اس کا نظریہ ؟

جمیل مرغز  اتوار 1 ستمبر 2024
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

راشد غنوشی ‘تیونس کی اسلامی تحریک ’’النہضہ‘‘(Ennahda Movement)کے بانی اور فکری قائد ہیں‘ یہ تحریک 1970کی دہائی میں شروع ہوئی تھی ۔مئی 2016کے پارٹی اجتماع میں اس تحریک نے نئے دور کا آغاز کیا ۔ راشد غنوشی نے اپنے ایک مضمون لکھا کہ ’’اب ہماری نئی شناخت ’’مسلم ڈیموکریٹس ‘‘ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کو مذہب کی نمایندگی کا دعوے دار نہیں ہونا چاہیے ‘مذہبی سرگرمیوں کو سماج کے غیر جانبدار ادارے منظم کریں ‘سادہ لفظوں میں مذہب کے نام پر کسی جماعت کو سیاست میں فریق نہیں بننا چاہیے ‘مسجد کو تقسیم نہیں ‘بلکہ وحدت کا مرکز ہونا چاہیے ‘ایک خطیب یا امام مسجد کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا رکن ہو۔‘‘۔اس مضمون اور النہضہ تحریک پر آیندہ کسی کالم میں تفصیل سے لکھوں گا۔فی الحال اپنے مقامی علمی و نظریاتی عوامل پر بات کرتا ہوں۔

ہم قیام پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے کبھی باضابطہ طور پر اپنے لیے کسی مخصوص تھیوکریٹک آئیڈیالوجی کا اظہار یا اعلان کیا ہو۔ یہ بھی ایک تاریخ ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی کے سوا متحدہ ہندوستان کے بڑے عالم دین مسلم لیگ کی سیاست کے حق میں نہیں تھے‘جمیعت العلماء ہند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا موقف اہل علم اچھی جانتے اور سمجھتے ہیں‘ ایک حوالہ خالد بن سعید کی کتاب(Pakistan,The Formative Phase.) کے صفحہ 216پر بھی تحریر ہے۔

اس کے علاوہ ایک دستاویز جو بہت اہمیت کی حامل ہے وہ1940کی قراداد ہے ‘جو قیام پاکستان کی بنیاد بنی ‘ اس میںبھی پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے بارے میں بھی کوئی ذکر نہیںہے ‘قائد اعظم نے کئی مواقع پر یہ بات واضح کی ہے اور کسی نے ان سے اختلاف نہیں کیا۔

اپریل 1946 میں دہلی میں مسلمان ممبران اسمبلی کی کانفرنس ہوئی ‘اس کانفرنس میںقائد اعظم نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری جدوجہد کا مقصد تھیوکریسی (Theocracy) نہیں ہے اور نہ ہی ہم ایک تھیوکریٹک ریاست کا قیام چاہتے ہیں‘‘۔ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 1954میں آئین بنایا تو یہ جمہوری اصولوں پر مبنی تھا۔ پاکستان کی مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اسے تسلیم کیا تھا۔

یورپ میں پاپائیت کے دور میں چرچ کی مذہبی عدالتیں ہوا کرتی تھیں۔ان عدالتوں میں پادری جج ہوتے تھے‘ وہ لوگوں کے عقیدے کے بارے میں سخت تفتیش کیاکرتے تھے جو لوگ ان کے مذہبی عقائد پر پورے نہیں اترتے تھے، ان کو سخت سزائیں دی جاتیں‘ مشہور ہے کہ گیلیلیو (Galileo)نے جب دوربین بنائی تو انھیں مذہبی عدالت میں طلب کیا گیا۔

گلیلیو سے پوچھا گیا کہ اس نے کیا بنایا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’یہ دور کی چیز کو نزدیک کرکے دکھاتی ہے۔‘‘مذہبی عدالت کے پادری جج نے کہا ‘خدا نے ایک چیز دور تخلیق کی ہے، تم اس کو نزدیک کرتے ہو‘ یہ کفر ہے‘ جب گلیلیو نے بطلیموس کی اس نظریے کو رد کیا کہ سارے کائنات کا مرکز زمین ہے۔ سورج اور سیارے زمین کے گرد گھومتے ہیں‘ تو گلیلیو کو سزائے موت سنا دی گئی،اسے حکم دیا گیا کہ وہ اپنے کفر سے تائب ہوجائے اور معافی کا طلبگار ہو تو چھوڑ دیا جائے۔

پھانسی کے چبوترے پرشاگردوں اور ہم خیال دوستوںکے مشورے پر گلیلیو نے معافی مانگ لی۔ نیچے اترتے ہوئے وہ یہ تاریخی الفاظ کہہ رہا تھا کہ’’ زمین کی گردش میں میرا کوئی کردار نہیں‘ میرے انکار کے باوجود وہ سورج کے گرد گھومتی رہے گی‘‘۔اس سے قبل اسی نظریے کی بناء پر برونو کو آگ میں زندہ جلا دیا گیا تھا‘ رومن کلیسا نے چار سو سا ل کے بعد برونو اور گلیلیو کی روحوں سے معافی مانگ کر اپنے غلطی تسلیم کرنے کا اعلان کیا‘ اٹلی کے باشعور طبقے آج بھی کہتے ہیں ، کلیسا کی مذہبی حکومتوں کی وجہ سے اٹلی پورے یورپ میں پسماندہ رہ گیا‘ ورنہ کسی زمانے میں روم اور اٹلی علم و تہذیب ، سائنس و ٹیکنالوجی کے مراکز تھے۔

جہاں تک ایک ریاست کا تعلق ہے ‘بحیثیت ریاست کے اس کی کوئی مخصوص آئیڈیالوجی یا نظریہ حیات نہیں ہوتا بلکہ وہاں کے مقتدر اسٹیک ہولڈرز ریاست کو اپنی پسند یا سہولت کا جامع پہنانتے ہیں۔ یہی اسٹیک ہولڈرز اس ریاست پر حکومت کرتے ہیں اور وسائل پر قابض ہوتے ہیں‘روس کی بحیثیت ریاست کے کوئی آئیڈیالوجی نہیں تھی ‘اس سلسلے میں بنیادی تبدیلی اس وقت آئی ‘جب زار روس کی جگہ کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار حاصل کیا ‘مارشل چیانگ کائی شیک کے تحت چین ماؤزے تنگ اور چواین لائی کے چین سے بالکل مختلف تھا ‘ویت نام ‘کمبوڈیا اور وینزویلا آج اس کی واضح مثالیں ہیں‘ جب ہم آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست اور تنظیم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کوئی مخصوص یا متعین آ ئیڈیا لو جی نظر نہیں آتی ۔

یہاں د ستو ر سا ز ا سمبلی میں 11ا گست 1947 کو قا ئد ا عظم کے ا فتتا حی خطبے میں سے جو انھوں نے ا سمبلی کے صدر کی حیثیت سے د یا تھا، ایک ا قتبا س پیش کر نا بے جا نہ ہوگا۔ انہو ں نے فرمایا کہ ’’آ پ ا پنے ما ضی کو بھو ل جا ئیں ‘با ہمی اتحا دو ا تفا ق کے سا تھ اس جذ بہ سے کا م کر یں کہ آ پ میں سے ہر ایک ا ول و آ خر اس ملک کا شہری ہے ‘خو اہ کسی مذہب اور فر قے سے تعلق ر کھتا ہو ‘ ماضی میں ایک دو سر ے کے سا تھ کیسے ہی تعلقات ر ہے ہوں‘آپ کا ر نگ نسل ٗذات، برادری یا عقیدہ کو ئی بھی ہو، سب کے حقو ق برا بر ہیں اور ذ مہ دا ریاں بھی بر ا بر ہیں۔

ا گر آ پ یہ سب کچھ کر گز ر یں گے تو آپ کی تر قی و خو شحا لی کی کو ئی ا نتہا نہ ہوگی ۔میں اس با ت پر بہت زور دینے کی ضر ور ت نہیں سمجھتا بہرحال ہمیں اس جذبہ سے کا م شر وع کر دینا چا ہیے ‘و قت گز ر نے کے ساتھ سا تھ ا کثر یتی اور ا قلیت کے تما م جھگڑے اور اختلا فات ختم ہو جا ئیں گے ‘ مملکت پا کستا ن میں ہر شخص اپنی عبا د ت گا ہو ں میں جا نے کے لیے آ زاد ہے‘ آ پ کا تعلق کسی مذ ہب، فرقے یا عقیدے سے ہو، مملکت کو اس سے کوئی ئی سر و کا ر نہیں ‘‘۔

ایوب خان، جنرل یحیی خان اور جنرل شیر علی نے ہمارے ملک کو تنگ گلی میں دھکیل دیا۔ مسلم لیگ نے پاکستان بنایا اور یہاں حکمران رہی، اس لیے مسلم لیگ کا نظریہ ہی پاکستان کا نظریہ ہے۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کا نظریہ ہی نظریہ پاکستان ہے جو ایک جمہوری پاکستان کے حق میں تھے‘ اگرکبھی یہاں کمیونسٹ حکومت میں آئے تو ریاست کا نظریہ بھی بد ل جائے گا‘اس لیے مذہبی طبقوں کو جمہوری طریقے سے عوام کی حمایت حاصل کرنا چاہیے ۔ایم ایم اے کی شکل میں خیبر پختونخوا کے عوام ایک دفعہ ان کو آزما چکے ہیں، دوسری بار بھی آزما کر دیکھ لیں گے۔ لیکن زمینی حقائق اپنی جگہ موجود رہتے ہیں اور رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔