شیوک کنارے

عامر مغل  اتوار 1 ستمبر 2024
بائیک پر تنہا طویل سفر کا قصہ ۔ فوٹو : فائل

بائیک پر تنہا طویل سفر کا قصہ ۔ فوٹو : فائل

پہلی قسط

(مضمون نگار لاہور سے تعلق رکھنے والے بائیکر اور سیاح ہیں۔ یہ دل چسپ اور معلوماتی مضمون ان کے بائیک پر کیے گئے ایک طویل سفر کی کہانی اور ایک اہم سفری دستاویز ہے)

رواں برس عیدقرباں کی آمد سے قبل ہی شور ڈال دیا کہ یہ سال نصف گزر چکا اور ہمیں ابھی تک ایک لانگ رائیڈ کا حق نہیں ملا لہٰذا عید پر ہم گھر سے بھاگ نکلے۔

عید کے روز میں نے چترال میں نوراللّہ بھائی کو میسیج کیا کہ بروغل آنے کی کیا صورت حال ہے تو بقول نوراللّہ بروغل میں مختلف دفاعی وجوہات کی وجہ سے اب سختی ہوگئی ہے اور چترال اسکاؤٹس کمانڈنٹ کی اجازت لازم ہو گئی ہے تو اجازت نامہ کے لیے وقت کی کمی کے باعث آپ کے سفر کا وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔

پھر ایک متبادل پلان بنایا اور عید سے اگلے دن منگل کی رات سفر شروع کر دیا۔ پلان یہ تھا کہ بائیک کو راولپنڈی یا مانسہرہ تک لاہور سے بک کروالوں مگر کیمرے کا چارجر خراب ہونے کی وجہ سے معاملات الٹ پلٹ ہوگئے۔ ایک دوست عمیر نے کہا چارجر ارینج ہو گیا ہے، آ کے لے جائیں۔ میں نے بسم اللہ پڑھ کر رائیڈ شروع کی اور سیدھا عمیر سے جاکر چارجر پکڑا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ بیٹریز چارج کرنے کے لیے وقت نہیں تھا۔ سو بائیک بُک کروانے کا پلان کینسل کرتے ہوئے رات گیارہ بجے جی ٹی روڈ پر بائیک دوڑانا شروع کر دی کہ کھاریاں سے دوسرا چارجر اور فلی چارجڈ بیٹریاں پکڑنی ہیں۔

حالاںکہ رات کا وقت تھا مگر ہوا ابھی تک گرم تھی۔ رات ڈھائی بجے کے قریب کھاریاں سے دوسرا کیمرا چارجر اور دو عدد فلی چارجڈ بیٹریاں پکڑیں، تہہ دل سے ان کا شکریہ ادا کیا اور آگے کی طرف چل پڑا۔

آسمان پر طلوع آفتاب کی سفیدی پھیلنا شروع ہورہی تھی اور میں راولپنڈی پہنچ چکا تھا۔ ساری رات رائیڈ میں گزر چکی تھی اور مجھے دن گرم ہونے سے قبل پہاڑی علاقے میں پہنچنا تھا۔ ٹیکسلا سے خانپور اور ہری پور جاتے مجھے اب نیند کے جھونکے آ رہے تھے۔ ہری پور شہر میں پہنچ کر ایک فلنگ اسٹیشن پر سر اور منہ دھویا، اچھی طرح اپنے آپ کو تازہ دم کیا اور وہیں سے ٹینک ری فل کروالیا۔

ہری پور سے آگے ایبٹ آباد اور مانسہرہ تک کی ’’غیراخلاقی ٹریفک‘‘ (خاص طور پر سجے سنورے بولان کیری والے) ابھی سڑک پر نہیں آئی تھی۔ تقریباً خالی شاہراہ پر بائیک دوڑاتا صبح 9 بجے میں بالاکوٹ پہنچ گیا۔ بالاکوٹ سے دوبارہ پٹرول ٹینک لبالب بھروا لیا اور ٹائم کا مارجن دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اب مجھے شام سات بجے تک چلاس پہنچ کر قیام کرنا چاہیے اور پہلی مرتبہ لاہور سے چلاس 650 کلومیٹر ون گو والا سین بھی ہوجائے گا، مگر اوپر والے نے یہ آرزو سنتے ہی کہا اے میرے بندے تو ٹھہر ذرا تجھے میں قیام کرواتا ہوں۔

بالاکوٹ سے میں نے پانی کی بوتل، جوس وغیرہ لے کر ناشتہ کیا اور جیسے ہی پارس پہنچا تو انتہائی خوش گوار ٹھنڈی ہوا نے استقبال کیا۔ میں نے ملکنڈی بائی پاس پر بائیک روکی اور تازہ دم ہونے لگا۔

گھنے بادل، مست کرتی ٹھنڈی ہوا، دریا کنہار کا شور کہ بس واہ، واہ۔

دماغ اتنا مگن تھا کے یہ خیال تک نہ آیا پہاڑوں کا ایسا حسین موسم دراصل خراب موسم کی نشانی ہوتا ہے۔ لہٰذا کاغان کراس کرتے ہی شدید بارش اور اولے پڑنا شروع ہوگئے۔ ایک جگہ شیلٹر اور ساتھ سو روپے کی چائے ملی تو وہاں بارش کے رکنے کا انتظار کیا۔ کچھ دیر بعد بارش تو تھم گئی مگر اب ناران روڈ پر عید کے رش والی ٹریفک جمع ہو چکی تھی۔ جیسے ہی میں نے دوبارہ رائیڈ شروع کی تو ٹریفک جام والی صورت حال ملنا شروع ہو گئی۔

بائیک کا ایڈوانٹیج لیتے ہوئے میں رینگ رینگ کر ’’آجو باجو‘‘ سے نکلتا تو رہا مگر اب دوبارہ بارش شروع ہوچکی تھی اور میں اب رین گیئرز کے باوجود مکمل بھیگ چکا تھا۔ پانی سلائیوں کے اندر سے رسنا شروع ہوچکا تھا۔

عید کا بدترین ٹریفک جام، مسلسل بارش اور سکھی کناری ڈیم کے ساتھ والا انتہائی برباد راستہ، میں چھم چھم کرتا اور رینگتا رینگتا رات آٹھ بجے ناران پہنچا اور اب میں سردی سے کپکپا رہا تھا۔ میری بس ہوچکی تھی۔ اب مجھے اندزاہ ہو گیا کہ یہاں ناران میں مجھے چھیلا اور نچوڑا جائے گا لہذا میں نے ذہن بنا لیا کہ 5000 روپے تک کمرا لینا ہی پڑے گا۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے جتنے ہوٹل چیک کیے سب ہاؤس فل تھے، عوام مجھ سمیت ذلیل و رسوا ہورہے تھے۔ سارا پروگرام خراب ہوچکا تھا۔

ہمت تو نہیں تھی مگر سوچا بٹہ کنڈی ہی چلتے ہیں تو چلتے چلتے ناران بائی پاس کے آخر میں ایک ہوٹل کے باہر کھڑے لڑکے سے پوچھا کمرا ہے؟ وہ بولا مل جائے گا۔ جلدی سے اندر گیا تین یا چار کمرے رہ گئے تھے۔ کمرا اوکے کیا، پوچھا چارجز کیا ہوں گے؟ بولا بارہ ہزار، آپ اکیلے ہیں تو آپ دس ہزار دے دیں۔

اور میں نے دل پر بھاری پتھر رکھ کر دس ہزار اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے مجھے معلوم تھا یہ میری سزا ہے عید کی چھٹیوں، خراب موسم اور رات ہونے کے بعد ناران میں ٹھہرنے کی۔

میرا اگلے دنوں کا بجٹ خراب ہوچکا تھا۔

ناران میں کمرا ملتے ہی میں نے سارا سامان کھولا، گیلے کپڑے اتارے، خشک کپڑے پہنے اور باقی سب کچھ سوکھنے کے لیے کمرے میں پھیلا دیا۔ میں اپنے ساتھ شوز رین کور لے کر آیا ہوا تھا۔ انہوں نے میرے جوتوں کو مکمل گیلے ہونے سے بچا کے رکھا۔ ناران سے قبل تین چار جگہ پر تیز بہاؤ والی واٹر کراسنگ آتی ہیں، بارش نہ بھی ہو تو آپ کے جوتوں کا بچ جانا محال ہے۔ اس کے علاوہ معلوم تھا کہ ابھی ناران سے آگے گلیشئرز مکمل طور پر نہیں پگھلے تو ان کا پانی سڑک پر جگہ جگہ ملے گا۔

میں لانگ بائیک رائیڈ کے دوران عمومی طور پر کھانا نہیں کھاتا۔ رائیڈ کے دوران او آر ایس ملا یا سادہ پانی، کھجوروں اور خشک خوبانی سے اپنی انرجی بحال رکھتا ہوں۔ کبھی دل کیا تو چائے پی لی۔ اب بھوک شدت کی لگی ہوئی تھی۔ کھانے کے لیے ناران بازار جانے کا سوچا۔ کمرے کو لاک کرکے جانے لگا تو کمرے کا لاک خراب۔ شدید غصہ آیا کے دس ہزار کا کمرا اور لاک تک ٹھیک نہیں ہے۔ استقبالیہ پر جاکر ہوٹل والے سے شکایت کی۔ نیا ڈور لاک لگتے آدھا گھنٹہ لگ گیا۔

بھوک سے شدید نقاہت طاری تھی۔ ناران بازار سے پہلے دو چپلی کباب کھائے، پھر مینگو شیک پیا، اس کے بعد ایک گرم ابلا ہوا انڈا اور ساتھ دودھ پتی پی اور پھر فروٹ سلاد پیک کراویا کہ روم میں جا کر کھاؤں گا۔

سردی بڑھ چکی تھی اور میں جون کے مہینے میں ڈبل کمبل لے کر سوگیا۔

اگلی صبح آنکھ کھلی، فون دیکھا اور واٹس ایپ پر اپنے گروپ کے لڑکوں سے بات چیت ہونے لگی۔ عمیر اور فہد کی جوڑی بشو کی طرف جانے کے لیے لاہور سے نکلی ہوئی تھی اور ظہیر اپنے کولیگز کے ساتھ استور منی مرگ جانے کے لیے گاڑی پر نکلا تھا۔ ناران کی بابت بات ہونے لگی تو ظہیر نے بتایا وہ ابھی ناران بائی پاس سے گزر رہا ہے۔ میں نے فورا ریپلائی کیا، ٹھہر جا بھائی، ملتا جا۔

حسن اتفاق سے ہوٹل سے چند قدم دور ہی سے گاڑی پر گزر رہا تھا۔ میں باہر آیا۔ جپھیاں ڈالیں، کچھ موٹوییشن کے ساتھ اس سے پانی کی بوتل اور ہوم میڈ سینڈوچ لیا اور واپس آ کر اسی سینڈوچ اور فروٹ سلاد سے ڈٹ کر ناشتہ کیا۔ گرم پانی سے غسل فرما کر سامان دوبارہ پیک کر کے بائیک پر سیٹ کیا تو ایک بائیکر نوجوان پاس آ کر رکا اور بولا آپ عامر بھائی ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو پتا چلا کہ وہ عمر فاروق بھائی ہیں اور فیس بک کے توسط سے پرانی شناسائی ہے۔ وہ بھی اپنے گروپ کے ساتھ اسکردو جا رہے تھے جب کہ میں اب متشکک ہوچکا تھا کہ جانا کدھر ہے، کیوںکہ میں اپنے پلان سے کافی پیچھے ہوچکا تھا۔

ظہیر اور عمرفاروق سے مختصر ملاقات کے بعد ایک اچھا دھکا ملا اور میں بابوسر کی جانب چل دیا۔ ناران سے آگے گٹی داس تک پوری وادی لش گرین تھی۔ میں نے بہت سوچا لیکن یہی نتیجہ نکالا کہ ایسا کِھلتا ہوا جوان سبزہ میں نے ناران میں ایسے پہلے نہیں دیکھا۔ وجہ یہ تھی کہ میں پہلی مرتبہ جوبن کے موسم میں ناران سے گزر رہا تھا۔ بٹہ کنڈی، بڑاوئی، جل کھڈ، بیسل، اور پھر چلتے چلتے آ گئی لولوسر جھیل۔

لولوسر سے گٹی داس تک ابھی بھی بہت گلیشیئرز تھے اور سڑک مکمل تباہ تھی۔ رینگ رینگ کر وہ حصہ گزارا اور اس کے بعد جیسے ہی بابوسر کی جانب بڑھنے لگا تو پھر بارش اور اولے برسنا شروع ہوگئے اور ساتھ ہی شدید ٹریفک جام۔

بابوسر کی ٹھنڈ، اونچائی، بارش، چڑھائی اور اوپر سے گڈی تے گڈی چڑھی۔ رینگتے رینگتے ٹاپ پر پہنچا تو ادھر کمبھ میلہ لگا ہوا۔ بابوسر کا یہ حال دیکھ کر افسوس ہی ہوا۔ بقول عون بھائی کے بابوسر کیا ہے اب؟ اب بابوسر ہے 100 روپے دے پکوڑے تے پجانواں (50) دا واش روم۔

بابوسر سے چلاس کی جانب نیچے اترتے ہوئے بقول عائشہ وحید ’’جونہی بابو سر کراس کریں لگتا ہے انسان کسی مہذب اور پُرسکون دنیا میں داخل ہو گیا ہے۔‘‘ گندے اور نااہل ڈرائیوروں کی اکثریت اوپر ہی رہ گئی تھی۔ رائیڈ کرتے کرتے نیچے آیا، جہاں سردی کا اختتام اور گرمی کا آغاز ہو رہا تھا۔ چلاس زیرو پوائنٹ سے پندرہ کلومیٹر پہلے ’’تھک‘‘ گاؤں کے پاس ایک چھوٹے سے ڈھابا نما ہوٹل سے توے کی ایک روٹی کے ساتھ دال ماش اور کچا پیاز بطور سلاد کھایا۔ اس کے بعد پھر ایک بہترین چائے پی جس کا بل صرف 350 روپے بنا۔ تھک میں بیٹھے بیٹھے دوبارہ اچانک بارش شروع ہوگئی۔

بارش رکی تو میں نے صبح کے پہنے ہوئے شوز رین کور اتارے اور چلاس زیرو کی جانب بائیک بھگانا شروع کر دی۔ چلاس گینی کے مشہور پوائنٹ کے پی ایس او فلنگ اسٹیشن سے 1500 روپے میں دوبارہ ٹینک ری فل کروایا۔ اب سگنل مکمل بند ہوچکے تھے تو گونر فارم سے ایس کام کی ایک سِم خریدی، اس پر نیٹ پیکچ کروایا۔ عبداللّہ کا میسیج آیا ہوا تھا کہ وہ اسکردو پہنچ رہا ہے تو میں بھی وہاں آ جاؤں۔ میں نے کہا جگلوٹ پہنچ کر فیصلہ کروں گا کہ کیا کرنا ہے۔ ابھی بس چلتا جا رہا ہوں۔

رائیڈ جاری رہی اور شام سات بجے میں جگلوٹ سکردو روڈ جنکشن پوائنٹ پر پہنچ چکا تھا۔ میں نے وقت کا حساب لگایا تو سمجھ میں آیا کہ گانچھے اب نہیں ہو سکتا وہ ابھی بھی بہت دور ہے۔ عبداللّہ کو کال کی تو اس نے کہا آپ اسکردو آ جائیں، کچھ نہ کچھ ہو جائے گا، ملتے ہیں، بیٹھتے ہیں، کھانا شانا کھاتے ہیں۔ میں نے کہا بھائی سکردو ابھی بھی یہاں سے کم و بیش 170 کلومیٹر دور ہے۔ ایک تو میں نے ابھی تک اس راستے پر رائیڈ نہیں کی کہ کیسا راستہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں تھک چکا ہوں اور رات ہو رہی ہے۔ عبداللّہ نے کہا ہمت کریں تو پھر میں نے کہا اچھا باقی تو مجھے معلوم نہیں لیکن میں تم کو ملنے آ رہا ہوں اور یوں میں نے بائیک دوبارہ اسٹارٹ کی اور اسکردو روڈ پر رات کی تاریکی میں رائیڈ دوبارہ شروع کردی۔

جگلوٹ اسکردو روڈ جنکشن پر شام کے سات بج چکے تھے۔ نیچے وادیوں میں تیزی سے اندھیرا چھا رہا تھا جب کہ اوپر بلند برف پوش چوٹیاں غروب ہوتے سورج کی روشنی سے سرخ اور زرد رنگوں کے پہناوے پہن رہی تھیں۔

ناران سے جگلوٹ تک پرسکون رائیڈ کرتے کرتے مجھے تقریباً دس گھنٹے گزر چکے تھے اور ابھی اسکردو پہنچنا تھا۔ جولائی 2018ء میں اسکردو روڈ پر وائی بی آر جی پر سولو رائیڈ کی تھی اس وقت روڈ بنا بھی نہیں ہوا تھا اور تب اس خطرناک روڈ پر سفر کرنا ایک تھرل اور ایڈونچر ہوا کرتا تھا۔ اس روڈ کے متعلق تب مشہور تھا کہ یہ کئی مقامات پر آپ کو آسیب زدہ محسوس ہوتا ہے۔ میں نے ٹارگٹ سیٹ کیا کہ جب تک ہلکی سی روشنی باقی ہے تب تک رفتار پکڑوں اور 25 کلومیٹر دور سسی گاؤں پہنچ جاؤں۔ سسی تک پہنچتے پہنچتے مکمل اندھیرا چھا جائے گا، پھر رفتار نہیں پکڑی جاسکے گی۔ سسی سے پہلے ’’ہانوچل‘‘ پہنچا تو سامنے ایک برف پوش چوٹی غروب ہوتے سورج کی سرخ روشنی سے آگ کی طرح جلتی نظر آئی۔ یہ اتنا دل فریب نظارہ تھا کہ میں نے بائیک ادھر ہی روک لی۔ کچھ دیر کھڑا رہا۔ سمجھ نہ آئے کون سا پہاڑ ہے۔ گوگل میپ پر لوکیشن کا اسکرین شاٹ لیا کہ واپس جاکر گوگل میپ کوآرڈینیٹس سے اس کو تلاش کروں گا۔ واپس آ کر اس کو چیک کیا تو پتا چلا کہ وہ ہراموش فیملی کی 7458 میٹر اونچی چوٹی مالوبتنگ ہے۔

ہانوچل میں ہی مکمل اندھیرا چھا چکا تھا۔ پھر میں نے ویران اسکردو روڈ پر بائیکس پر لگی سبھی لائٹس آن کردیں اور تقریباً 80 راستے پر صرف میں ہی اکیلا سفر کرتا رہا۔ رات کے اندھیرے میں کبھی لینڈ سلائیڈ والے حصے آ جاتے، کبھی کوئی سڑک کنارے پڑا چھوٹا بڑا پتھر، کبھی سامنے سے ہائی بیم والا کوئی ڈرائیور اندھا کردیتا۔ میں نے درمیان والی روڈ لائن پر بس نظر رکھی اور اسی کو فالو کرتا ہوا رائیڈ کرتا رہا۔

اسکردو جب کوئی 75 کلومیٹر رہ گیا تو کسی چھوٹے گاؤں کی سڑک کنارے دکان پر رک کر پانی اور جوس پیا، نمکو کا ایک پیکٹ کھایا اور اس شارٹ بریک کے بعد دوبارہ رائیڈ شروع کردی۔ سنسان ویران روڈ پر دو تین مرتبہ تو ایسا لگا کہ میرے ساتھ بائیک پر پیچھے کوئی بیٹھا ہوا ہے۔ پھر مجھے خالد ولی اللّہ بھائی کی بات یاد آئی کہ ایسا محسوس ہو تو اس پر غور کرنے کی بجائے اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ میرے اعصاب تھک کر اب مجھے آرام کرنے کی پٹیاں پڑھا رہے ہیں۔ خیر چار گھنٹے کی شب سواری کے بعد میں رات گیارہ بجے اسکردو پہنچا۔ آنکھیں لال سرخ، جسم تھکا ہوا تھا۔ اچھا یہ ہوا کہ عبداللّہ کی بتائی ہوئی لوکیشن پر سیدھا پہنچا جہاں وہ خود ٹھہرا ہوا تھا۔ آرام کے لیے عبداللّہ نے کمرا پہلے سے ریڈی کیا ہوا تھا۔ تو بس کھانا کھا کر بغیر مزید سوچے کہ کل کیا کرنا ہے میں لم لیٹ ہوگیا۔

ایک رات اور دن رائیڈ کرنے کے بعد لاہور سے ناران، ایک دن اور آدھی رات کی رائیڈ کرنے کے بعد اسکردو پہنچنے کے بعد اب آج میں نے ایک پرسکون رائیڈ کا فیصلہ کیا۔ عبداللّہ اور اس کے کزن عون جو اپنی فیملی کے ساتھ اسکردو آئے ہوئے تھے ان کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد میں نے اجازت چاہی اور فیصلہ کیا کہ اسکردو، شگر، کھرمنگ، سالتورو، ہوشے سمیت سب جگہوں اور آس پاس کی وادیوں کو چھوڑ کر صرف دریا شیوک کے ساتھ رائیڈ کروں گا اور کوشش کروں گا کہ تب تک چلتا جاؤں جب تک ایل او سی نہیں آجاتی۔

تقریباً 10:30 صبح میں نے رائیڈ شروع کی، قریب ہی ایک فلنگ اسٹیشن سے 2000 کا ٹینک ری فل کروایا اور اسکردو شہر میں داخل ہوگیا۔ اسکردو میں دن کی چہل پہل کا آغاز ہوچکا تھا۔ ٹور آپریٹرز کی کوسٹروں کے رش کے علاوہ بھی نظر آ رہا تھا کہ اسکردو سیاحوں کے رش سے اس وقت بھرا ہوا ہے۔ اسکردو سے حسین آباد، تھورگو سے گزرتے ہوئے جب میں انتہائی سایہ دار اور سبزے سے بھرپور گول گاؤں پہنچا تو یاد آیا کہ 2018ء میں یہاں سے واپس مڑا تھا۔ وہ میری زندگی کی پہلی سولو لانگ رائیڈ تھی۔

یعنی گول سے اب میرے لیے آگے کا باقی ماندہ سفر ایک نئے راستے کا سفر تھا۔ گول سے چھومدو پہنچا۔ چھومدو وہ جگہ ہے جہاں دریا شیوک اور دریا سندھ کا سنگم ہوتا ہے۔ دریا سندھ کھرمنگ، کارگل سے بہتا ہوا یہاں سے اسکردو کی جانب مڑتا ہے اور دریا شیوک کا پانی بھی اپنے ساتھ لے آتا ہے۔ منٹھوکا اور خموش آبشار کی طرف جانے والے یہاں سے دریائے سندھ کے ساتھ کھرمنگ کی طرف مڑ جاتے ہیں جب کہ میں نے دریا شیوک کے ساتھ رہنا تھا تو میں پل پار کر دوسری طرف آ گیا۔ یہیں سے بلتستان کے ضلع گانچھے کی سرحد کا آغاز ہوتا ہے اور یہاں پولیس چیک پوسٹ پر روک کر میرا رجسٹر پر اندراج کیا گیا۔ چیک پوسٹ کے ایک سلمان خان اسٹائل والے دبنگ پولیس اہل کار نے مجھ سے بائیک سے نیچے اترنے کی درخواست کی اور خود بائیک پر بیٹھ کر دوسرے اہل کار سے کہنے لگا کہ ذرا موبائیل سے تصویر تو بنا دو۔ اس سے تصویر ٹھیک نہ بنی تو میں نے اس سے کہا ادھر لاؤ میں بناتا ہوں۔ میری کھینچی تصویر دیکھ کر اس نے ساتھی اہل کار سے کہا ایسے کھینچتے ہیں تصویر اور پھر مجھے واپس موٹر سائیکل ملی۔

بارہ بجے کے قریب دریا کے پار مجھے ایک سرسبز گاؤں نظر آیا جس کا نام کیرس تھا۔ میں نے دریا کے قریب ریت اور پتھروں سے بھرے میدان میں بائیک کھڑی کی اور پل پار کرکے کیرس کی حدود میں چلا گیا۔ پل پار کرتے ہی مجھے ایک مقامی ملے اور مجھے کیرس کے بارے میں بتانے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پل کیرس کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا ہوا ہے۔ گاڑی کے لیے پل یہاں سے کوئی ایک کلومیٹر آگے ہے۔ اس کے علاوہ یہاں دریا کنارے ایک قلعہ بھی ہے جو یہاں کے راجہ کیرس کا ہوا کرتا تھا۔ آج کل کوئی انویسٹر اس کو رینوویٹ کر کے ہوٹل کی شکل دینے کا کام کر رہا ہے۔ دور سے اس قلعہ کو دیکھا اور کم و بیش کوئی ایک گھنٹہ میں نے کیرس کے آس پاس گزار کر میں آگے کی جانب چل دیا۔

موسم کی پیش گوئی کے مطابق اگلے تین سے چار دن مجھے ابرآلود موسم اور گاہے بگاہے بارش سے ملنا تھا۔ دریائے شیوک اور دریائے سندھ کے سنگم پر واقع کیرس گاؤں سے آگے کی جانب روانگی شروع کی۔ ایک بھائی نے بتایا کہ اصل تلفظ ’’شیوق‘‘ ہے، روایت ہے کہ یہ اصل میں ’’شہ یوق‘‘ تھا، شہ یا شا بلتی زبان میں گوشت کو کہتے ہیں، اور یوق کا مطلب ہے رکھو/ رکھنا۔ کہتے ہیں کہ یہاں کے قدیم لوگ کوئی جانور ذبح کرتے تو اس کا گوشت دریا کنارے مخصوص جگہیں بنا کر وہاں رکھا کرتے تھے تاکہ خراب نہ ہو اور دیر تک استعمال ہو۔

کیرس کے بعد غواڑی گاؤں کی پہچان ترتیب سے لگے قطاردرقطار پیڑوں والا راستہ آیا۔ یہاں آپ کی سواری کی رفتار خودبخود دھیمی پڑجاتی ہے۔ یہ انتہا کا خوب صورت روڈ ہے۔ خاص طور پر اگر یہاں خزاں کے رنگ اپنے جوبن پر ہوں۔ غواڑی سے گزرنے کے بعد دریا کے پار کونیس گاؤں نظر آیا، یہاں سے دریا شیوک کو نسبتاً ایک گھاٹی میں سے گزرتا پڑتا ہے۔ یہیں مجھے دریا شیوک کی بچھائی ہوئی سفید ریت پر چاکلیٹی چٹانیں نظر آئیں تو میں نے سڑک کنارے بائیک روکی اور نیچے دریا کے پاٹ میں اتر گیا۔ میں چٹانوں کے بیچ ریت پر چلتا چلتا پانی کے پاس پہنچا۔ دوپہر کا وقت تھا لیکن درجۂ حرارت اور ہوا بہت خوش گوار تھی۔ میں نے اکیلے ان خاموش چٹانوں کے بیچ کوئی ایک آدھا گھنٹہ گزارا۔ یہاں سکون اور سنسناہٹ کی متوازی کیفیات ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ کونیس کی ان چٹانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد آگے ’’کھرفق‘‘ کا گاؤں آیا جہاں کھرفق آبشار ایک اونچی عمودی چٹان سے گرتی آپ کو سڑک کے کنارے سے نظر آتی ہے۔ آبشار سے ابھی پانی کا بہاؤ کم تھا، شاید مزید گرمی پڑنے پر بہاؤ تیز ہونا تھا۔ کھرفق میں کافی اونچائی پر ایک مشکل پیدل چڑھائی کے بعد آپ کھرفق جھیل بھی دیکھ سکتے ہیں۔

کھرفق کے بعد نہایت سرسبز بلغار، ڈاغون اور کھارکو گاؤں نظر آئے۔ بلغار دیکھ کر اپنے محترم فیس بک کے دوست ڈاکٹر خالد ولی اللّہ بلغاری یاد آئے۔

بلغاری سے ہی اب یک دم روڈ بہترین کارپٹ والا ہوگیا جو خپلو تک پھر ایسے ہی رہتا ہے۔ یہاں سے آگے بہت بڑے براہ گاؤں سے گزرنے کے بعد میں گانچھے کے صدر مقام خپلو میں داخل ہوگیا۔

مطلع ابرآلود تھا، ہلکی ہلکی بارش چل رہی تھی۔ خپلو اندر جانے کی بجائے میں سیدھا چلتا رہا اور سوچا پہلے سیلنگ کے جڑواں درختوں کو سلام کر کے آؤں۔ سیلنگ کا گاؤں دریا کے پار ہے جہاں پر بڑا پختہ پل تعمیر کیا گیا ہے۔ یہیں سے آپ وادیٔ ہوشے میں بھی داخل ہوتے ہیں۔ پل پار کرتے ہی روڈ کچا ہوگیا۔ سیلنگ کے جڑواں درختوں کو سلام کیا اور واپس روڈ پر آ کر مزید آگے کی جانب چل دیا۔ آگے چلتے ہوئے یوچنگ پر آرمی کی پہلی چیک پوسٹ آ گئی اور میں نے مزید آگے جانے کی اجازت چاہی تو آگے سے چٹا انکار ہوگیا۔ بتایا گیا کہ پہلا رُول یہ ہے کہ یہاں ٹورسٹ کی انٹری کے بعد اس پر لازم ہے کہ وہ شام 6 بجے تک یہاں سے لازمی اپنا خروج بھی کروائے۔ اگر اس نے رات کہیں رہنا ہے تو پیشگی اجازت نامہ لازم ہے، اور آپ کے پاس اب ٹائم مارجن نہیں ہے۔ دوسری بات کہ موسم خراب ہے تو آپ کی حفاظت کے پیش نظر ہم آپ کو نہیں جانے دیں گے۔ میں نے کہا چلیں میں صبح آپ کے پاس آتا، صبح موسم بھی اچھا ہو گا اور 6 بجے کا ایگزٹ کرنے کے لیے ٹائم مارجن بھی ہو گا۔

یہاں سے بائیک واپس خپلو کی جانب گھمائی۔ خپلو ایک بائیک مکینک کی دوکان پر پہنچ کر بائیک کا انجن آئل تبدیل کروایا، چین بریک وغیرہ سیٹ کروائے تو وہی ایک نوعمر لڑکا عقیل میرے پاس آیا اور بولا آپ کدھر ٹھہرے ہیں، میں نے بتایا ابھی قیام کی جگہ دیکھنی ہے، تو مسکرا کے بولا آپ میرے ہوٹل میں آ جائیں۔ سیلنگ گاؤں میں ایک ہی ہوٹل ہے، وہ میرا ہی ہے اور ابھی نیا تعمیر ہوا ہے۔ میں نے کہا اوکے ہوگیا، میں خپلو گھوم کر شام تک آپ کے پاس آتا ہوں۔ وجہ یہ تھی مجھے ایسی جگہ کی تلاش تھی جو پرسکون اور آبادی سے ہٹ کر ہو تو یہ آپشن مجھے بہت مناسب لگا۔

یہاں سے میں چقچن مسجد کی تلاش میں آگے نکل پڑا۔ جاتے جاتے میں نے عقیل سے کہا تم مجھے اپنے ہوٹل میں بلا تو رہے ہو مگر پہلے بتا دوں مجھے سستا اور اچھا آپشن چاہیے۔ مسکرا کر بولا سر آپ آجائیں، مناسب کرلیں گے۔

چقچن مسجد پہاڑ کی بہت وسیع ڈھلان پر آباد خپلو شہر کی اونچائی پر واقع ہے۔ میں سیدھی سڑک کی بجائے گلی محلوں کی چڑھائیوں میں راستہ بھٹک گیا اور مقامی لوگوں سے پوچھتا پوچھتا اوپر جاتے جاتے خپلو فورٹ جا پہنچا۔ وہاں کسی نے بتایا کہ یہاں سے پاس ہی اوپر ہے، لیکن میں وہ پاس والا موڑ بھی مِس کر گیا اور بس چڑھائی پر رائیڈ کرتے کرتے وہاں تک پہنچ گیا جہاں اس روڈ کا اختتام ہوگیا، مگر چقچن مسجد نہ آئی۔ اندازہ ہو گیا کہ اب تو روڈ بھی ختم ہو گیا ہے تو میں غلط راستے پر ہوں۔

جیسے جیسے میں خپلو شہر سے نکلتا گیا، رش کم اور منظر خوب صورت ہوتا گیا۔ اس دوران بارش کی رم جھم بھی جاری تھی۔ یہاں روڈ کے اختتام پر چار راہ نمائی کے بورڈ لگے ہوئے تھے۔ پہلا بورڈ مجھے بتا رہا تھا ’’ویلکم ٹو گربوچونگ۔‘‘ گربو چونگ شاید خپلو کا آخری محلہ ہے یہاں سے آگے پیدل ٹریک شروع ہوتے ہیں۔ دوسرا بورڈ بتا رہا تھا کہ یہاں سے گانچھے لا پر سے کون کون سے ٹریل نکلتے ہیں اور اس کے نیچے لگا تیسرا بورڈ بتا رہا تھا کہ کسی ٹریل پر یہاں سے یک طرفہ کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ چوتھا بورڈ بتا رہا تھا کہ کوئی پانچ سے سات گھنٹے کے ٹریک کے بعد کافی اونچائی پر چھومو شیشا کے مقبرے کے آثار ہیں جس کی شادی خپلو کے شہزادے سے ہوئی تھی۔ یہ گانچھے کی کوئی فوک ٹیل تھی۔ چقچن مسجد جس کے لیے یہاں خانقاہ کا لفظ بھی بولا جاتا ہے، کی تعمیر 1370ء￿  میں ہوئی تھی جب یہاں کے بدھ مذہب کے پیروکاروں نے اسلام قبول کیا تھا۔ گانچھے میں مسلمانوں کا نوربخشیہ مسلک آباد ہے۔ مسلک نوربخشیہ فقہ جعفریہ (اثناء عشری) اور فقہ اہلسنت کے بین بین ہے۔ نوربخشیہ سید محمد نوربخش سے منسوب ہیں جب کہ اس علاقے میں اسلام کی مشنری تبلیغ کا کریڈٹ نوربخشیہ کے ہی دوسرے بزرگ ایران کے امیر کبیر سید علی ہمدانی کو جاتا ہے۔ مجموعی طور پر یہاں کی فضاء کسی بھی مذہبی و مسلکی کدورت یا شدت پسندی سے مبرا نظر آئی۔ احترام، طبعیت اور مزاج میں ٹھہراؤ بلتستان کے لوگوں کی ویسے بھی ایک خاصیت ہے۔ مسجد چقچن تبتی اور ایرانی طرز تعمیر کا امتزاج ہے۔ یہاں سکون سے کسی گوشے میں بیٹھ کر کچھ دیر خاموش بیٹھنے کو دل کیا۔ آپ کسی بھی مسلک کے ہوں، اطمینان سے یہاں عبادت کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ سکون آور روحانی وائبز ملتی ہیں یہاں۔ بارش اور دھوپ میں آنکھ مچولی جاری تھی کہ اچانک شمال کی جانب سے ایک قوس قزح ابھری۔ رم جھم، بادل، قوس قزح اور خانقاہ بقول ایک دوست کہ جس کو میں نے وہاں سے یہ منظر دکھایا کہا کہ تم نے صرف اس منظر کو پانے کے لیے اتنا طویل سفر کیا ہے باقی جو تم نے دیکھا وہ بس تمہارا بونس ہے۔

چقچن خانقاہ میں حاضری کے بعد وہاں سے واپسی کرتے ہوئے میں خپلو فورٹ کی طرف چلا گیا۔ خپلو فورٹ اس وقت سرینا ہوٹل کے زیرانتظام ہے اور انہوں نے اس کا بہترین انتظام سنبھالا ہوا ہے۔ ایک حصہ ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے اور ایک حصہ میوزیم کی شکل میں عوام الناس کے لیے رکھا گیا ہے جس کا داخلہ ٹکٹ 500 روپے ہے۔ ٹکٹ لینے کے بعد اس صاف ستھری اور بہترین جگہ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ قلعے کا لکڑی کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور اندر بنی تنگ راہ داریوں میں گزرتے ہوئے آپ کو احساس ہوتا ہے جیسے یہ کوئی بھول بھلیاں ہوں۔

خپلو فورٹ کو بلتی زبان میں ’’یبگو کھر‘‘ یعنی یبگو کا محل کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ 1840ء میں یبگو خاندان کے راجا دولت علی خان نے تعمیر کیا تھا۔ ڈوگرہ راج کے دوران یہ علاقہ بھی ان کے زیرقبضہ چلا گیا تھا، لیکن قلعے کی یہ جگہ نئی نہیں ہے یعنی موجودہ شکل راجا دولت علی خان کی دی ہوئی ہے۔ 1972ء میں جب خپلو کی شاہی ریاست کا باقاعدہ خاتمہ ہوا تو اس کے بعد بھی یبگو خاندان یہیں رہائش پذیر رہا۔ میرا خیال ہے یقیناً یبگو خاندان کے باقی لوگ ابھی بھی خپلو میں موجود ہوں گے۔ یبگو کھر کا طرزتعمیر لداخی، تبتی اور بلتی امتزاج کا حامل ہے اور اس کی مرمت و بحالی کا کام آغا خان کلچر ٹرسٹ اور ناروے کی حکومت کی جانب سے ملنے والے فنڈز کی مدد سے ہوا تھا۔

شام ہو رہی تھی، میں خپلو سے واپس سیلنگ کی طرف چل دیا تاکہ اسی مقامی لڑکے عقیل کے بتائے ہوئے ہوٹل میں قیام کر سکوں۔ سیلنگ گاؤں میں لوگوں سے پوچھتا ہوا میں نیشنل ہوٹل نامی اس چھوٹے سے ہوٹل میں پہنچا تو عقیل نے کہا مجھے لگا کہ آپ نہیں آئیں گے۔ یہ ابھی نیا تعمیر شدہ ہوٹل تھا۔ اسی وجہ سے ہر چیز نئی نئی تھی، لیکن ہوٹل بزنس میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے ابھی کئی کام ان کے کرنے والے تھے۔ عقیل کے والد احسان بار بار میرے پاس آتے رہے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو۔ بقول ان کے ہوٹل بننے کے بعد میں اس کمرے میں ٹھہرنے والا میں پہلا گیسٹ ہوں۔ کھانے کی بات ہوئی تو میں نے کہا مجھے کسی مقامی کھانے کا بتائیں۔ سوچ میں پڑگئے اور بولے شاید آپ کے لیے مقامی پکوان کھانا مشکل ہوگا۔ پھر احسان بھائی نے کہا آپ کو کیسیر بنا دیتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا پین کیک ٹائپ لچھے دار پراٹھا جیسی روٹی ہوتی ہے۔ ایک کیسیر خاص بلتی اسٹائل میں ہی بنایا گیا جو نمکین سا ہونے کی وجہ سے مجھ سے نہیں کھایا گیا اور دوسرا کیسر پنجاب کے آئے ہوئے مہمان کی وجہ سے ٹماٹر، پیاز، ہری مرچ کی فلنگ کے ساتھ بنایا گیا جو میں نے چائے کے ساتھ فٹا فٹ کھا لیا۔

کھانا کھاتے ہی تھکاوٹ کی وجہ سے میں سوگیا۔ عقیل نے کہا صبح پہلے آپ سوغا جائیں اور پھر جہاں کا پلان بنے وہاں نکلیں۔

میں صبح سویرے اٹھا، کمرے سے باہر نکلا اور سوچا کہ سوغا جو یہاں سے چھے یا سات کلومیٹر دور ہے وہاں کا چکر لگا کے آتا ہوں۔ ہوٹل کا گیٹ اندر سے کنڈا لگا کر بند کیا گیا تھا۔ مختلف کمرے دیکھتے دیکھتے ایک کمرے میں عقیل سویا ہوا ملا، اس کو ہلا کر کہا میں سوغا جا رہا ہوں، میرا سامان ادھر ہی پڑا ہے۔ واپس آ کر سامان لیتا اور ناشتہ کرتا ہوں۔ اس نے میری بات سنی اور پھر سوگیا۔

( جاری ہے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔