نا انصافی کا نظام

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعرات 10 جولائی 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

خبر کے مطابق فرانسیسی صدر سرکوزی نکولس کو ان کے خلاف چلنے والے بدعنوانی کے مقدمے کی کارروائی میں مداخلت اور اپنے خلاف تحقیقات کے بارے میں غیر قانونی طریقے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش پر ان کے وکیل اور دو مجسٹریٹس سمیت حراست میں لے لیا گیا ہے۔ تحقیقاتی ادارے اب اس پہلو کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا کوزی نے انصاف کی فراہمی کے طریقہ کار سے انحراف کرنے کی کوششیں تو نہیں کی ہیں اس لیے سابق صدر تحقیقات مکمل ہونے تک پولیس کی تحویل میں رہیں گے۔

ایک دوسری خبر جاپانی سیاستدان کی ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے 116 دوروں پر غیرضروری طور پر 30 لاکھ ین خرچ کیے جو حیثیت کا غلط استعمال ہے۔ اپنے دامن پر لگنے والے بدنامی کے دھبے کو دھونے کے لیے یہ نوجوان جاپانی سیاستدان پریس کانفرنس کے دوران دھاڑے اور میز پر مکے مار مار کر احتجاج اور صفایاں پیش کر رہا ہے۔ یہ خبریں دنیا بھر کے لیے اہم اور سنسنی خیز ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے لیے صرف تعجب خیز ہیں وہ بھی اس لحاظ سے کہ ان بیچاروں نے کون سا بڑا پاپ کر دیا ہے کہ ان کا اس طرح محاسبہ کیا جائے یا اس طرح گرفتار کیا جائے۔

ہمارے ہاں تو اسمبلی کے چند روزہ اجلاس کے دوران ممبران کروڑوں روپوں کا کھانا کھا جاتے ہیں، ایک ایک ممبر اپنے اور اپنے خاندان کے علاج پر کروڑوں خرچ کر ڈالتا ہے جس کا سابق وزیر اعظم کہے کہ خود عدالت میں پیش پیش نہیں ہوں گا اگر ایف آئی اے میں ہمت ہے تو گرفتار کرے جس کا سابق صدر عدالت عظمیٰ کی حاضری سے بچنے کے لیے 90 دنوں تک انجیو گرافی اور سیکیورٹی رسک کو جواز بناتا رہے، جہاں اربوں روپوں کی کرپشن کر کے ملک سے باہر فرار ہو جانا یا پلی بارگیننگ سیاسی جوڑ توڑ اور بلیک میلنگ کے ذریعے آزاد ہو جانا عام معمول ہو، جہاں قانون کی گرفت اور حکمرانی صرف تیس، پچاس یا ستر ہزار روپے کے قرض نادہندہ، بیواؤں، یتیموں، بیروزگاروں کی جائیداد میں قرقی کرنے تک محدود ہو، طاقتور اور قانون شکنوں کے لیے تمام راستے کھلے ہوں۔

سیکریٹری ہاؤسنگ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے انکشاف کیا کہ صرف کراچی میں 100 ارب سے زیادہ مالیت کی سرکاری رہائش گاہوں پر 3 ہزار ریٹائرڈ ملازمین قابض ہیں اگر پورے ملک کی مقبوضہ سرکاری رہائش گاہوں کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ ایک کھرب کا بھی کئی گنا ہو گا۔ ان قبضہ شدہ رہائش گاہوں کو خالی کرانے میں کیا امر مانع ہے؟ یہ قابض ریٹائر ملازمین نہ لینڈ مافیا کے رکن ہیں اور نہ جرائم پیشہ، شرپسند اور بدمعاش، ان ملازمین کے متعلقہ کنٹرولنگ ادارے ان کے نظم و ضبط اور ان کے خلاف تادیبی کارروائیوں کا حق و اختیار بھی رکھتے ہیں۔

ان کے ملازمین کے واجبات اور پنشن و دیگر مراعات وغیرہ بھی متعلقہ محکموں کے ہاتھ میں ہی ہوتے ہیں پھر یہ سرکاری رہائش گاہیں خالی نہ کرائے جانے کی وجہ سمجھ میں یہی آتی ہے کہ قابض ریٹائرڈ ملازمین منظور نظر ہوں گے یا کچھ اور ہوں گے بغیر کسی آشیرباد اور پشت پناہی کے اتنی ڈھٹائی کوئی عام ملازم نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں یہ رواج بن چکا ہے کہ جب کوئی وزیر، مشیر، سیکریٹری، چیئرمین، ڈائریکٹر وغیرہ ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں ٹرانسفر ہوتا ہے تو وہ پہلے محکمے کی گاڑیاں، رہائش اور آسائشات حاصل کرتا رہتا ہے نئے محکمے میں بھی گاڑی و دفتر سے لے کر رہائش گاہ تک برینڈ نیو چاہتا ہے پہلے کی موجود کوئی چیز بھی استعمال کرنا ان کے لیے گویا اچھوت کی طرح ہوتی ہے یہی انداز ان کے منہ چڑھے اور منظور نظر چھوٹے ملازمین بھی اختیار کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں ایک ناگہانی صورتحال آئی ڈی پیز صورت میں رونما ہو چکی ہے جن کی بحالی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے میں 7 لاکھ کے قریب شہری اپنا گھر بار، مال مویشی و زراعت چھوڑ کے کسمپرسی و بے سروسامانی کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کی صعوبتوں کے دوران 100 بچے ہلاک اور اتنے ہی لاپتہ ہوئے ہیں ان  پناہ گزینوں کی صحیح تعداد کیا ہے، انھوں نے کہاں کہاں پناہ لی ہے، کہاں کہاں جا رہے ہیں ان کو کتنی اور کس امداد کی ضرورت ہے اس کا کسی کو کچھ اندازہ نہیں ہے۔ متاثرین میں 2 ارب روپے تقسیم کرنے کی خبر تو دی جا رہی ہے لیکن یہ خطیر رقم کب کہاں اور کتنے لوگوں میں تقسیم کی گئی؟ اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔

بنوں میں متاثرین کی بہت قلیل تعداد پناہ گزین ہے وہاں بھی امداد کے حصول کے لیے رات سے ہی لائنیں لگ جاتی ہیں متاثرین کا کہنا ہے کہ امداد کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے رمضان کے دنوں میں ان کے پاس سحر و افطار کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پاکستان، کشمیر اور فوج کے لیے جدوجہد اور قربانیاں دینے والے اور پاکستان کے روشن مستقبل کی خاطر اپنے گھر بار کو چھوڑنے والے حالات کے رحم و کرم پر پڑے یہ لوگ ساری قوم کے محسن ہیں جنھیں قائد اعظم نے پاکستان کا بازو شمشیر کہا تھا، زبانی طور پر تو بہت کچھ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ متاثرین و  پناہ گزین پاکستان کے کل کی خاطر اپنا آج قربان کر رہے ہیں لیکن عملی صورتحال اس سے مختلف نظر آتی ہے کے پی کے میں جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس کی قیادت اور ارباب اختیار متاثرین کی دلجوئی اور مدد و اعانت سے عملاً لاتعلق نظر آتے ہیں۔

کچھ جماعتوں، صوبوں اور شخصیات نے ان متاثرین کی اپنے صوبوں میں داخلے کی مخالفت کر دی ہے، کچھ ارکان اسمبلی ایک دن کی تنخواہ متاثرین کو عطیہ کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔ کسی نے اپنی پارٹی کے ہر ممبر کی جانب سے ایک متاثر خاندان کی کفالت کا اعلان کر کے فرض کفایہ ادا کر دیا ہے۔ کون ممبر کون سا خاندان لے گا؟ کہاں سے لے گا؟ کب لے گا؟ بحالی کے لیے کیا اقدامات کرے گا؟ کچھ معلوم نہیں۔

فوری فوجی آپریشن کرنے کا مطالبہ کرنے والے، اس کو پاکستان کی موت و زندگی قرار دینے والے اور پاکستان کے کل پر اپنا آج قربان کر دینے کے دعویدار سیاسی، سماجی، مذہبی راہنما و پیشوا، ارکان حکومت، ممبران پارلیمنٹ ، مبصرین، محققین، ایسے پروگراموں کے مہمان و میزبان جو سب کے سب متمول  اور خطیر مشاہرات حاصل کرنیوالے اور اثر و رسوخ کے مالک ہیں ان آئی ڈی پیز کی بحالی و داد رسی کے لیے متحرک کیوں نظر نہیں آتے ان کی طرف سے کوئی مالی امداد، تعاون، امدادی و ترغیبی قسم کی مہم ٹی وی شوز وغیرہ بھی سامنے نہیں آ رہے ماضی میں سیلاب و زلزلہ جیسی قدرتی آفات کی طرح اس مرتبہ مقامی اور غیرملکی تنظیمیں اور میڈیا بھی سرگرم عمل نظر نہیں آ رہا ہے۔

ملک اس وقت اندرونی و بیرونی سطح پر خطے میں بدلتے ہوئے حالات اور پالیسیوں کی وجہ سے دباؤ اور خطرات کا شکار ہے اور ملک کے ناعاقبت اندیش سیاسی و مذہبی راہنما غیر ضروری رسہ کشی میں اپنی توانائیاں ضایع کرنے اور اصول و اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے کے عمل میں شریک ہیں اگر بعض اوقات بعض موضوعات پر بعض پارٹیوں کے درمیان وقتی مفاہمت یا اتحاد نظر بھی آتا ہے تو حب علی نہیں بلکہ بغض معاویہ کے مترادف ہی نظر آتا ہے ان کے اپنے اپنے ہدف اور عزائم ہیں جمہوریت اور پاکستان کی بقا کے نام پر تحفظ پاکستان بل کی ماسوائے جماعت اسلامی کے تقریباً تمام ہی جماعتوں نے حمایت کی ہے۔ کسی نے کھل کر کسی نے کچھ تحفظات رکھ کر تا کہ مستقبل میں انھیں تاویل کے طور پر پیش کیا جا سکے۔

تحفظ پاکستان کے اس نئے قانون کو ہیومن رائٹس واچ نے جابرانہ و مبہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے اس سے زیر حراست مشتبہ افراد کا استحصال ہو گا جو کہ پاکستان میں پہلے ہی عام ہے اس قانون سے بین الاقوامی شہری و انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس سے دہشت گردوں کی جیت اور قانون کی بالادستی کی ہار ہو گی۔ اس قانون میں بغیر وارنٹ گرفتاری، 60 دن تک ریمانڈ پر رکھنے اور 15 گریڈ پولیس اہلکار کی اجازت سے مشتبہ افراد کو گولی مارنے کے اختیارات کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے 50 ہزار قرضہ کی منظوری کے لیے تو 17 گریڈ کے دو افسروں کی ضمانت درکار ہوتی ہے لیکن انسانی زندگی محض ایک 15 گریڈ کے پولیس اہلکار پر چھوڑ دی جائے جس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو، استغاثہ بھی اس کے ہاتھوں کی زد میں ہو۔

قائد اعظم پارک میں نہتے نوجوان کو نرغے میں لے کر فائرنگ سے ہلاک کر دینا یا میاں بیوی کی تکرار میں شوہر کو گولی مار کر ہلاک کر دینے والے واقعات، اثر و رسوخ اختیارات اور دولت کے حامل افراد کی جانب سے اپنے کسی مخالف کی جان و مال، عزت و آبرو سے کھیلنے کے لیے پولیس کا استعمال کوئی نئی بات نہیں اس میں پولیس کا کرپشن اور مجبوریاں دونوں عوامل شامل ہوتے ہیں۔ سیاسی بھرتیاں، تعیناتیاں، وابستگی اور شولڈر پروموشن جیسے عوامل اور پولیس کے روایتی کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کو اس قسم کے اختیارات دینا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔

ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور مذہبی راہنماؤں کی حماقتوں، منافقوں اور مصالحتوں نے ہم پر ظلم و جبر اور ناانصافی کا نظام مسلط کر دیا ہے ہمارے اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے درمیان یہی فرق ہے۔ ہم میں سے ہر شخص حضرت علیؓ کا یہ قول جانتا ہے کہ ’’کفر کا نظام یا حکومت تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں۔‘‘ کاش ہمارے حکمران، سیاستدان، مذہبی رہنما اور ہم خود اس پر غور و فکر اور عمل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔