- جو میرٹ پر پورا اترتا ہے اسے کام کرنے دیں، چیف جسٹس
- لیپ ٹاپ کی اسمگلنک میں ملوث ملزم گرفتار، 576 لیپ ٹاپ اور گاڑی برآمد
- آئی ایم ایف کے ساتھ تمام معاملات طے پاگئے ہیں، وزیرخزانہ
- ملائیشیا کے وزیراعظم کا آئندہ ماہ دورہ پاکستان متوقع
- مریض کے موبائل استعمال کے دوران ڈاکٹروں کی دماغ کی کامیاب سرجری
- عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں کمی یا اضافہ عوام تک پہنچے گا، وفاقی وزیر
- وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے ملازمین کا واجبات کی عدم ادائیگی پر چھٹے روز بھی احتجاج
- خیبرپختونخوا کے اراکین کا وزیراعلیٰ پر اعتماد کا اظہار
- ایک ہفتے کے دوران زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں 3 کروڑ ڈالر کا اضافہ
- افغان حکومت کے ساتھ جرگہ کرکے مسائل کے حل کا ارادہ رکھتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا
- گورنر سندھ کا 11 ربیع الاول کی عام تعطیل کیلیے وزیراعظم کو خط
- غزہ کے 22 ہزار زخمی عمر بھر صحت یاب نہیں ہوسکیں گے، عالمی ادارۂ صحت
- حکومت آئی ایم ایف کو راضی کرنے میں کامیاب، 25 ستمبر کو نئے قرض کی منظوری کا امکان
- ایف آئی اے کی گلشن اقبال میں کارروائی، 116 تولہ سے زائد سونا برآمد
- قومی جونیئر فٹبال ٹیم کی ساف انڈر17 چیمپئن شپ میں شمولیت پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگ گیا
- بجلی کی عدم فراہمی ؛ یوسف گوٹھ کے مکینوں کا حب ریور روڈ پہ احتجاج
- صدرآصف زرداری کا سندھ میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی رفتار تیز کرنے پر زور
- ایف بی آر نے ان لینڈ ریونیو افسران کو مزید اختیارات دے دیے
- جنوبی افریقا؛ مسلح افراد کی گھر میں فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے 7 افراد ہلاک
- پشاور کے گرڈ اسٹیشن پر لوڈشیڈنگ سے تنگ بلدیاتی نمائندوں اور عوام نے قبضہ کرلیا
اردو کی اہمیت سے انکار کیوں؟
شعبہ صحافت، جامعہ پنجاب لاہور
قومی زبان کسی بھی قوم اور ملک کے تشخص کی بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ تمام قومیں اپنی صوبائی، علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی میں متحرک نظر آتی ہیں۔ ہر قوم کی شناخت اس کی زبان سے ہوتی ہے۔ ہر ملک کی مرکزی زبان ہوتی ہے جو پورے ملک کو جوڑے ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک کی قومی زبان اردو ہے جو فارسی، عربی، سنسکرت جیسی زبانوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آج جو اقوام ترقی یافتہ ہیں، انھوں نے اپنی قومی زبان کو نہیں چھوڑا۔ ہمیشہ سننے ہیں کہ ترقی کے لیے انگریزی زبان پر عبور لازمی ہے۔ یہ بات درست تو ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی قومی زبان کو بھول جائیں۔
اگر نوجوان اپنی قومی زبان پر مہارت حاصل کر کے بھی بہتر روزگار حاصل نہیں کر سکتے تو ان کا دوسری زبانوں کی طرف متوجہ ہونا فطری عمل ہوگا۔ کسی بھی ملک کی قومی زبان کو اتنا وسیع اور جامع ہونا چاہئے کہ وہ نہ صرف علاقائی، صوبائی اور ملکی سطح پر رابطے کا مؤثر ذریعہ ہو بلکہ وہ دنیا کی دوسری زبانوں میں موجود علم و ہنر کو بھی اپنے اندر سمو کے عوام تک پہنچا سکے۔
خاص طور پر وہ تمام علوم جو انسان کی زندگی کے مادی پہلوئوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کا قومی زبان میں ہونا اشد ضروری ہے۔ اس کے بغیر ترقی کا سفر جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ قومی زبان کا حق یہ ہوتا ہے کہ پوری قوم اسے ذریعہ اظہار بنائے اور اسے سرکاری طور پر ہر شعبے میں نافذ کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں آج اردو کا ہر شعبہ زندگی میں، ہر سطح پر نفاذ ہو جائے، توہر شخص کو اردو لکھنا اور پڑھنا آجائے۔
اس وقت کوئی اردو کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں، کیوں کہ اردو میں مہارت حاصل کرنا ترقی اور اعلیٰ مناصب حاصل کرنے کے لیے لازمی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے ذرائع ابلاغ عامہ، جو کبھی اچھی اردو کا معیار سمجھے جاتے تھے، اب وہاں بھی اکثر اغلاط پر مشتمل زبان سننے یا پڑھنے کو ملتی ہے۔ تاثر ہے کہ ابلاغ عامہ کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افراد پڑھے لکھے ہوتے ہیں، اگر ان کی اہلیت کا یہ حال ہو گیا ہے تو عوام کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ میڈیا میں زبان و بیان کی صحت کا اسی طرح خیال رکھا جائے، جس طرح ماضی میں رکھا جاتا تھا۔اس ضمن میں ہر ابلاغی ادارے کو ماہرین لسانیات کی خدمات لینی چاہیں۔
ہمارے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے قومی زبان کی اہمیت کو فراموش کر دیا ہے اور اسے علم و ٹیکنالوجی کی زبان نہیں بنا سکے۔ جب کسی قوم کی زبان چھن جا تی ہے تو اس کی تہذیب و ثقافت بھی چلی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے قومی زبان کو عملی زندگی میں وہ اہمیت دی جائے، جس کی یہ مستحق ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔