- پانی کی ٹنکی سر پر گرنے کے باوجود خاتون زندہ بچ گئیں
- شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس؛ اسلام آباد میں سیکورٹی مزید سخت
- دوسرا ٹیسٹ؛ پاکستان نے انگلینڈ کیخلاف 8 وکٹیں گنوادیں
- اجے جڈیجا نے کوہلی کو دولت پیچھے چھوڑ دیا
- بھارت میں دسہرہ کے موقع پر ہاتھی بپھر گیا، ویڈیو وائرل
- بجلی بل میں میونسپل ٹیکس وصولی کیخلاف درخواست پر فریقین سے جواب طلب
- اے این ایف کا تعلیمی اداروں میں منشیات فروخت کرنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن
- پائیدار ترقی کیلیے علاقائی تعاون اور روابط کا فروغ ضروری ہے، شہباز شریف کا ایس سی او کانفرنس سے خطاب
- کراچی؛ ٹریفک حادثے میں باپ شیرخوار بیٹے سمیت جاں بحق، اہلیہ شدید زخمی
- این ایل سی کا علاقائی تعاون میں اہم کردار، پاکستانی زرعی برآمدات میں اضافہ
- خوابوں کا اشتراک ممکن ہے؟
- جلاؤ گھیراؤ کیس؛ پی ٹی آئی کے 2 رہنماؤں کی عبوری ضمانت میں توسیع
- اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، انڈیکس ایک بار پھر 86 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور کرگیا
- گروپ راؤنڈ سے باہر ہونے پر بھارتی ٹیم میں اُکھاڑ پچھاڑ کی تیاری
- بابراعظم بھی کامران غلام کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے
- بھارتی عدالت کا انتہائی متنازع فیصلہ؛ مسجد میں ہندو مذہبی نعرے لگانا جائز قرار
- ذیا بیطس کی دوا پروسٹیٹ کینسر کے مضر اثرات کو زائل کر سکتی ہے، تحقیق
- 24 ہزار سے زائد اسکریو سے بنایا گیا مشہور انگلش بینڈ کا فن پارہ
- گوگل کا اپنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس چھوٹے نیوکلیئر ری ایکٹرز سے چلانے کا معاہدہ
- امریکا کا اسرائیل کو سخت وارننگ کا خط، 30 دن کا الٹی میٹم دے دیا
کسے وکیل کریں،کس سے منصفی چاہیں
ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں اداروں کو نہیں بلکہ شخصیات کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ شخصیات جو فانی ہوتی ہیں، ادارے جو باقی رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا ایک اور مسئلہ بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ کھوٹے سکے کھرے سکوں کو چلنے نہیں دیتے۔ ہم اپنے ماضی سے لاتعلق اور اپنے مستقبل سے بے نیاز ہیں، ہمارے نزدیک ہمارا آج ہی سب کچھ ہے۔ گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل کی ہمیں قطعاً کوئی فکر نہیں۔ گستاخی معاف ہم ایسی زندگی گزار رہے ہیں، جس پر کسی شاعرکا یہ شعر صادق آتا ہے۔
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اورکوئی منزل بھی نہیں
ہم نعرے بازی اور شور تو بہت کرتے ہیں لیکن زندگی کے حقائق کے تقاضوں کو جاننے اور سمجھنے اور اصلاح احوال سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ ہم صفائی نصف ایمان ہے جیسے سلوگن تو بہت بلند کرتے ہیں اور ’’ ہفتہ صفائی‘‘ بھی بڑی شد و مد سے مناتے ہیں لیکن ہمارے گلی کوچے ہی نہیں بلکہ اسپتال اور شفاخانے بھی گندگی کی غلیظ ترین تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس میں چھوٹے موٹے اسپتال ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے سرکاری اسپتال بھی شامل ہیں۔کراچی کے مرکزی علاقہ میں واقع سوبھراج اسپتال جائیں تو آپ کو اس کے اطراف میں غلاظت کے انبار نظر آئیں گے اور قریب سے گزرتے ہوئے آپ کو تعفن سے بچنے کے لیے اپنی ناک پر رومال بھی رکھنا پڑے گا۔
یہ تو ہے کراچی کے ایک پرانے زنانہ اسپتال کا حال۔ دیگر اسپتالوں کا حال بھی کچھ ایسا نہیں ہے کہ جسے تسلی بخش کہا جاسکے۔ بعض اسپتال کی حالتِ زار تو انتہائی دگرگوں ہے۔ نہ تو یہاں صفائی ستھرائی کا کوئی معقول بندوبست ہے اور نہ ہی مریضوں کی دیکھ بھال کا کوئی معقول انتظام۔ اسپتال کے اردگرد کی گلیوں میں آپ کو تجاوزات نظر آئیں گے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کی کھُلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے خوانچہ فروشوں کی یہ آماج گاہ ہے۔
دھواں اورکاربن مونو آکسائیڈ جیسا زہر اگلتی ہوئی گاڑیاں نہ صرف اسپتالوں کے آگے پیچھے دن رات گزرتی رہتی ہیں بلکہ اپنے بے ہنگم شور سے اسپتالوں کی فضاؤں میں آلودگی پھیلاتی رہتی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جا بجا رکشوں، ٹیکسوں اور ٹھیلوں کے کھڑے ہونے کے باعث مریضوں کو اسپتال تک پہنچنے میں بھی بلاوجہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ اسپتال کے بیرونی حصے میں آپ کو منشیات کے عادی افراد بھی آزادانہ گھومتے پھرتے ہوئے بلکہ بسا اوقات استراحت فرماتے ہوئے بھی نظر آئیں گے،کوئی بعید نہیں کہ یہاں آپ کا جرائم پیشہ افراد سے بھی ٹکراؤ ہوجائے۔
اسپتال کے اندرکی تصویر بھی کچھ کم بھیانک نہیں۔ صفائی کا فقدان آپ کو یہاں بھی نمایاں طور پر نظر آئے گا۔ در و دیوار بوسیدہ اور غلیظ پان کی پیک کی پچکاریوں سے آلودہ جا بجا سگریٹ کے ٹوٹے پڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایک جانب تو ہمارے اربابِ اختیار شاہانہ ٹھاٹ باٹ والی زندگیاں گزار رہے ہیں اور دوسری جانب ملک کے بے وسیلہ لوگ علاج معالجے اور حفظانِ صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ افسوس عدلِ جہانگیر کی یاد تازہ کرنے والی انصاف کی زنجیر بھی ہٹا دی گئی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ:
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
وکلا اور منصفوں کا تذکرہ چھڑگیا ہے تو عرض یہ ہے کہ ؎
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
شعبہ انصاف کا حال احوال سب کے سامنے ہے، جس ملک میں انصاف کرنے والے انصاف کی دہائی دے رہے ہوں، وہاں عام آدمی کو انصاف کیسے میسر آسکتا ہے۔
اس وقت ہمیں یاد آرہا ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ کے دوران برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے استفسارکیا تھا کہ کیا اس ملک میں انصاف ہو رہا ہے اور جب انھیں ہاں کی صورت میں مثبت جواب ملا تو انھوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ جنگ میں فتح برطانیہ کی ہی ہوگی۔‘‘
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔