کسے وکیل کریں،کس سے منصفی چاہیں

شکیل فاروقی  منگل 3 ستمبر 2024
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں اداروں کو نہیں بلکہ شخصیات کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ شخصیات جو فانی ہوتی ہیں، ادارے جو باقی رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا ایک اور مسئلہ بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ کھوٹے سکے کھرے سکوں کو چلنے نہیں دیتے۔ ہم اپنے ماضی سے لاتعلق اور اپنے مستقبل سے بے نیاز ہیں، ہمارے نزدیک ہمارا آج ہی سب کچھ ہے۔ گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل کی ہمیں قطعاً کوئی فکر نہیں۔ گستاخی معاف ہم ایسی زندگی گزار رہے ہیں، جس پر کسی شاعرکا یہ شعر صادق آتا ہے۔

زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں

چل رہے ہیں رات دن اورکوئی منزل بھی نہیں

ہم نعرے بازی اور شور تو بہت کرتے ہیں لیکن زندگی کے حقائق کے تقاضوں کو جاننے اور سمجھنے اور اصلاح احوال سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ ہم صفائی نصف ایمان ہے جیسے سلوگن تو بہت بلند کرتے ہیں اور ’’ ہفتہ صفائی‘‘ بھی بڑی شد و مد سے مناتے ہیں لیکن ہمارے گلی کوچے ہی نہیں بلکہ اسپتال اور شفاخانے بھی گندگی کی غلیظ ترین تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس میں چھوٹے موٹے اسپتال ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے سرکاری اسپتال بھی شامل ہیں۔کراچی کے مرکزی علاقہ میں واقع سوبھراج اسپتال جائیں تو آپ کو اس کے اطراف میں غلاظت کے انبار نظر آئیں گے اور قریب سے گزرتے ہوئے آپ کو تعفن سے بچنے کے لیے اپنی ناک پر رومال بھی رکھنا پڑے گا۔

یہ تو ہے کراچی کے ایک پرانے زنانہ اسپتال کا حال۔ دیگر اسپتالوں کا حال بھی کچھ ایسا نہیں ہے کہ جسے تسلی بخش کہا جاسکے۔ بعض اسپتال کی حالتِ زار تو انتہائی دگرگوں ہے۔ نہ تو یہاں صفائی ستھرائی کا کوئی معقول بندوبست ہے اور نہ ہی مریضوں کی دیکھ بھال کا کوئی معقول انتظام۔ اسپتال کے اردگرد کی گلیوں میں آپ کو تجاوزات نظر آئیں گے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کی کھُلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے خوانچہ فروشوں کی یہ آماج گاہ ہے۔

دھواں اورکاربن مونو آکسائیڈ جیسا زہر اگلتی ہوئی گاڑیاں نہ صرف اسپتالوں کے آگے پیچھے دن رات گزرتی رہتی ہیں بلکہ اپنے بے ہنگم شور سے اسپتالوں کی فضاؤں میں آلودگی پھیلاتی رہتی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جا بجا رکشوں، ٹیکسوں اور ٹھیلوں کے کھڑے ہونے کے باعث مریضوں کو اسپتال تک پہنچنے میں بھی بلاوجہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ اسپتال کے بیرونی حصے میں آپ کو منشیات کے عادی افراد بھی آزادانہ گھومتے پھرتے ہوئے بلکہ بسا اوقات استراحت فرماتے ہوئے بھی نظر آئیں گے،کوئی بعید نہیں کہ یہاں آپ کا جرائم پیشہ افراد سے بھی ٹکراؤ ہوجائے۔

اسپتال کے اندرکی تصویر بھی کچھ کم بھیانک نہیں۔ صفائی کا فقدان آپ کو یہاں بھی نمایاں طور پر نظر آئے گا۔ در و دیوار بوسیدہ اور غلیظ پان کی پیک کی پچکاریوں سے آلودہ جا بجا سگریٹ کے ٹوٹے پڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایک جانب تو ہمارے اربابِ اختیار شاہانہ ٹھاٹ باٹ والی زندگیاں گزار رہے ہیں اور دوسری جانب ملک کے بے وسیلہ لوگ علاج معالجے اور حفظانِ صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ افسوس عدلِ جہانگیر کی یاد تازہ کرنے والی انصاف کی زنجیر بھی ہٹا دی گئی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ:

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

وکلا اور منصفوں کا تذکرہ چھڑگیا ہے تو عرض یہ ہے کہ ؎

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی

شعبہ انصاف کا حال احوال سب کے سامنے ہے، جس ملک میں انصاف کرنے والے انصاف کی دہائی دے رہے ہوں، وہاں عام آدمی کو انصاف کیسے میسر آسکتا ہے۔

اس وقت ہمیں یاد آرہا ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ کے دوران برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے استفسارکیا تھا کہ کیا اس ملک میں انصاف ہو رہا ہے اور جب انھیں ہاں کی صورت میں مثبت جواب ملا تو انھوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ جنگ میں فتح برطانیہ کی ہی ہوگی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔