عورت کی معاشی ذمے داریاں

ڈاکٹر مبشرہ صادق  بدھ 4 ستمبر 2024
معاش کی ذمے داری عورت پر کسی طرح بھی عائد نہیں ہوتی۔ (فوٹو: فائل)

معاش کی ذمے داری عورت پر کسی طرح بھی عائد نہیں ہوتی۔ (فوٹو: فائل)

مرد و زن، جن کے بارے میں آج کل ’’جنس مخالف‘‘ (opposite sex) کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے، اس کے تحت کیسے ممکن ہے کہ دونوں کا دائرہ عمل ایک جیسا ہو۔ دونوں جنس اپنی جسمانی ہیئت، طاقت، سوچنے کی صلاحیت، غرض ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ دونوں اجناس کا دائرہ عمل ایک سا ہو۔

یہ تو عدل و انصاف کے منافی ہے کہ دو مختلف صلاحیتوں کے حامل لوگوں کو ایک ایسے کام پر لگادیا جائے جن میں سے ایک جنس میں تو اس کام کی مشقت اٹھانے کی صلاحیت رکھی گئی ہو اور دوسری میں بالکل نہیں۔ تو پھر ایک جیسے نتائج کیسے سامنے آسکتے ہیں؟ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو صلاحیتیں قدرت کی طرف سے ان میں رکھ دی گئی ہیں اور جن ذمے داریوں کا انہیں پابند بنایا گیا ہے ان سے وہی کام لیا جائے۔ پھر بہترین نتائج کی امید بھی رکھی جاسکتی ہے اور حاصل بھی ہوتے ہیں۔

اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں۔ بلاشبہ یہ ہی وہ واحد دین ہے جو ہر میدان زندگی میں ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے، چاہے اس کا تعلق سیاست سے ہو یا معاشرت اور سماج سے۔ یہاں تک کہ حقوق و فرائض کے دائرہ میں بھی اسلام نے مرد و زن کے حوالے سے رہنمائی دی ہے اور دونوں جنس کے دائرہ عمل کی مکمل وضاحت کردی ہے۔

کسی بھی سماج کی نشوونما میں خاندان کا مضبوط ہونا بے حد ضروری ہے، اور خاندان کی بنیادی اکائی مرد اور عورت ہیں۔ ان دونوں کے ذریعے ہی سے ایک مکمل معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ لہٰذا دونوں کی ذمے داریوں کے دائرہ کار بھی متعین فرما دیے گئے ہیں۔ عورت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اندرون خانہ، یعنی گھر کے اندر اپنی صلاحیتوں کو صرف کرے۔ بچوں کی پرورش، ان کی بہترین تربیت اور اندرون خانہ ذمے داریاں عورتوں پر ہیں، جن کے بارے میں ان سے پوچھ ہوگی، کیونکہ یہ عورت کی ذمے داری میں شامل ہے اور پوچھ ہمیشہ ذمے داریوں کے بارے میں ہی کی جاتی ہے۔ فرمان رسولؐ کے مطابق عورت اپنے شوہر کے بستر (مکمل پاکدامنی) کی حفاظت کرے گی، اور اس کی اولاد کی، جبکہ دوسری طرف باہر یعنی معاش کی ذمے داری مرد پر ہے۔ یہ مرد کی ذمے داری ہے کہ وہ کما کر لائے اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے، اور اس ذمے داری سے وہ کسی طور پر بھی بری نہیں ہوسکتا۔

یہاں تک کہ ایسا مرد جو نکاح کی استطاعت (معاش کمانے کی) نہ رکھتا ہو، اسے نکاح کرنے سے منع فرما دیا گیا ہے۔ فرمان رسولؐ کہ مطابق جس میں نکاح کرنے کی استطاعت (صاحب معاش) ہو، اسے شادی کرلینی چاہیے، کیوں کہ نکاح نگاہوں کو جھکانے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو شخص نکاح کرنے کی قدرت نہیں (معاش کی ذمے داری نہیں سنبھال سکتا) رکھتا، اسے روزہ رکھنا اپنے اوپر لازم کرلینا چاہیے؛ کیوں کہ روزہ انسانی شہوت کو توڑتا ہے۔

فرمان رسولؐ کے مطابق تو ’’صاحب معاش‘‘ یعنی ایسا مرد جو ایک خاندان کی کفالت کرسکتا ہو، یعنی بیوی کے بنیادی حقوق ’’مکان، لباس اور خوراک‘‘ کو پورا کرسکے اور آنے والی نسل کی کفالت بھی کرسکے، وہ نکاح کرے۔ ایسا مرد جو نکاح کی ذمے داریاں یعنی معاش کی ذمے داریاں نہ اٹھا سکتا ہو وہ نکاح نہیں کرسکتا۔ لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ایسا شخص جو کوئی بھی کام نہیں کرتا، اس کو نکاح کرنے کی تجویز دے دی جاتی ہے۔ اور اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ اور نہیں نکلتا کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ ایک عورت اور اپنی نسل کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔

معاش کی ذمے داری عورت پر کسی طرح بھی عائد نہیں ہوتی۔ قرآن پاک میں ’’اَلرِّجَالُ قَوّٰامُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-‘‘ (مرد عورتوں پر نگہبان ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں) کہہ کر یہ بالکل واضح کردیا ہے کہ مرد کو عورت پر فضیلت کس وجہ سے حاصل ہے کہ وہ اپنا مال ان پر خرچ کرنے کے پابند ہیں۔ اور ایسا مرد جو اس ذمے داری کو نہیں سنبھالنا چاہتا وہ اس فضیلت کے درجے سے بھی محروم ہوجائے گا جو شریعت نے اسے دیا ہے۔

ذرا غور کریں تو پتہ چلے گا کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو عورت کو اعلیٰ مقام پر فائز کرتا ہے۔ صرف فنانس، یعنی معاش کے معاملے میں ہی عورتوں کو مرد کے مقابلے میں کس قدر برتری دی گئی ہے۔ مرد کسی صورت بھی عورت کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ معاش کی ذمے داریاں سنبھالے۔ ہرگز نہیں! لیکن اگر عورت اپنی مرضی سے جاب یا کاروبار کرنا چاہتی ہے تو اسلام اس کو منع نہیں کرتا۔ اس صورت میں کہ اگر ایک عورت میں اتنی قابلیت ہے کہ وہ گھر کی ذمے داریوں کو بخوبی نبھانے کے ساتھ ساتھ باہر معاش کا بھی انتظام کرسکے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضرت خدیجہؓ ہیں، جو کہ تجارت کیا کرتی تھیں۔ دورِ رسالت میں خواتین باقاعدہ ’’علاج و معالجہ‘‘ کے کام بھی سر انجام دیتی تھیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ’’حضرت شفاؓ‘‘ وہ خاتون، جنھیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی پہلی ’’مارکیٹ منتظم‘‘ مقرر کیا گیا، یعنی بازار کی نگران۔ تاریخ اسلام ایسی باذوق عورتوں کے ناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ہر شعبہ زندگی میں کام کیا، اور معاشی طور پر خود کفیل ہوئیں۔

لیکن اس صورت میں بھی مرد کو عورت کی کمائی پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ عورت اس بات کی ہرگز پابند نہیں کہ وہ اپنی کمائی اپنی اولاد یا گھر پر لگائے، بلکہ وہ اکیلی ہی اس کمائی کی وارث ہوگی۔ مرد کو اس میں کوئی تصرف حاصل نہیں، نہ وہ یہ پوچھ سکتا ہے کہ وہ اپنی کمائی کہاں پر لگارہی ہے۔ کیونکہ یہ حق اسے اسلام (قرآن و سنہ) نے دیا ہے، اور اسلام کا دیا ہوا کوئی حق کوئی دوسرا نہیں چھین سکتا۔ ان مردوں کےلیے یہ بات لمحہ فکریہ ہونی چاہیے جو عورتوں کو معاش کی ذمے داری سنبھالنے پر مجبور کرتے ہیں تاکہ وہ گھر چلاسکیں۔ یہ وہ ذمے داری ہے جس سے عورت کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے بری کیا ہوا ہے، جہاں تک کہ اس میں اس کی اپنی مرضی شامل ہو۔ پھر مرد کون ہوتا ہے کہ اس ذمے داری کو عورت پر ڈالے، سوائے اس کے کہ اگر عورت خود اپنی خوشی سے مرد کا ساتھ دینے کےلیے کام کرے یا اپنے لیے۔ یہ ہے دینِ اسلام جس میں عورت نہ صرف مرد کی کمائی کی مالک ہے بلکہ تنہا اپنی کمائی کی بھی مالک ہے۔

لہٰذا جہاں ہر مرد کی فضیلت عورت پر معاش کی ذمے داریوں کے ساتھ مشروط ہے، ایسے ہی عورت کے حقوق بھی اس کی ذمے داریوں کے ساتھ مشروط ہیں۔ عورت پر ذمے داری ہے کہ شریعت کے مطابق مرد کی اطاعت کرے اور اس کے مال، اولاد اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ اگر ایک عورت ان ذمے داریوں سے لاتعلقی کا اظہار کرے گی تو وہ بھی ان حقوق سے محروم ہوجائے گی جن کا وعدہ اسلام اس سے کرتا ہے۔ اور یہ حقوق و فرائض کی بہترین مثال ہے جو صرف دین اسلام ہی پیش کرسکتا ہے کیونکہ یہ کسی انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ یہ اللہ کا بنایا ہوا قانون ہے۔ ہر غلطی سے مبرا اور پاک۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔