- کراچی کے مخلتف علاقوں میں بوندا باندی، موسم خوشگوار
- آسٹریلیا کا پاکستان کیخلاف ون ڈے سیریز کیلیے اسکواڈ کا اعلان
- غزہ کے اسکول پر اسرائیل کا حملہ؛ خواتین اور بچوں سمیت 22 پناہ گزین شہید
- کیوں نکالا بابراعظم کو؟
- مسافر ٹرینوں کے دروازے خراب، فیملیاں غیر محفوظ، چوری کی وارداتیں عام
- روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس، ترسیلات زر کا حجم 8.749 ارب ڈالرسے متجاوز
- معاشی آزادی کے لیے حکومتی حجم کم کرنا ضروری
- عدلیہ کے رویے میں تبدیلی کے باوجود آئینی عدالت کیوں ضروری
- لی کیانگ کا دورہ، چینی شہریوں کی سیکیورٹی سرفہرست ایجنڈا
- بلاول کا نواز شریف سے ٹیلفونک رابطہ، آئینی ترمیم پر پیشرفت سے آگاہ کیا
- بھارت؛ بابا صدیقی کو جلوس، فائر ورک کی آڑ میں قتل کیا گیا، رپورٹ
- کراچی؛ کورنگی کے علاقے عوامی کالونی میں دو گروپوں میں تصادم، فائرنگ سے 6 افراد زخمی
- سوڈان؛ فوج کی دارالحکومت میں مارکیٹ پر فضائی کارروائی، 23 افراد ہلاک
- اسلام آباد سے لاہور آنے والی ٹرین کو حادثہ، مسافر بوگی ایک طرف جھک گئی
- حزب اللہ کا اسرائیلی فوجی اڈے پر ڈرون حملہ، تین افراد ہلاک، 67 زخمی
- اقوام متحدہ کے امن مشن پر حملے ناقابل قبول ہیں، اٹلی کا اسرائیلی وزیراعظم کا پیغام
- فخر زمان کی بابراعظم کو ڈراپ کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید
- ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ: آسٹریلیا بھارت کو ہراکر سیمی فائنل میں پہنچ گیا
- امریکا کا اسرائیل کو ایڈوانس اینٹی میزائل سسٹم فراہم کرنے کا اعلان
- پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں طالبہ نے خودکشی کرلی
کراچی چیمبر کا پالیسی ریٹ میں 500 بیسس پوائنٹ کی کمی کا مطالبہ
کراچی چیمبر آف کامرس نے گھٹتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے پالیسی ریٹ میں 500 بیسس پوائنٹ کی کمی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
صدر کراچی چیمبر افتخار شیخ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ گھٹتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو 14.5فیصد پر لائے، افتخار شیخ کا کہنا ہے کہ اگست میں مہنگائی 9.6 فیصد پر آگئی ہے جبکہ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے بھی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ اَپ گریڈ کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح تین سال کی کم ترین شرح پر آچکی ہے جو پالیسی ریٹ میں کمی کا مضبوط جواز ہے، سنگل ڈیجٹ کی 9.2 فیصد افراط زر کی شرح اکتوبر 2021 میں دیکھی گئی تھی اور اُس وقت پالیسی ریٹ 7.25 فیصد تھا، لہٰذا تجارت و صنعتی سرگرمیوں کو متحرک کرنے کے لیے پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی کی اشد ضرورت ہے۔
افتخار شیخ نے کہا کہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں نمایاں کمی، ملکی زرعی پیداوار میں بہتری نے مہنگائی کے دباؤ کو کم کیا ہے، اگست 2021 کے 7فیصد پالیسی ریٹ کو مئی 2023 تک 22 فیصد تک بڑھانا مہنگائی کو کنٹرول کے لیے مؤثر نہیں تھا، معاشی ترقی میں تیزی لانے کے لیے متبادل مانیٹری اقدامات پر غور کرتے ہوئے پالیسی کی شرح میں کمی کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جولائی 2024 تک مجموعی قرضوں میں حکومت کا حصہ بڑھ کر 79.3 فیصد تک پہنچ گیا، نجی شعبے کا ہجوم محروم رہا، پالیسی کی شرح میں کمی سے نجی شعبے کی طرف قرض کی تقسیم کو متوازن کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بزنس مین گروپ کے سربراہ زبیر موتی والا نے کہا کہ مالی سال 2024 میں ایل ایس ایم انڈیکس میں نمو 0.9 فیصد کی معمولی سطح پر رہا، یہ معمولی نمو عرصہ دراز سے جاری بلند پالیسی ریٹ کی شرح کے منفی اثرات کو نمایاں کرتا ہے، پالیسی ریٹ میں کمی مینوفیکچرنگ سیکٹر کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کرے گی اور اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی قرضوں میں نجی شعبے کا حصہ جولائی 2019 میں 29.7 فیصد سے کم ہو کر جولائی 2024 میں 19.8 فیصد رہ گیا، پالیسی کی شرح کو کم کرنے سے نجی شعبے میں قرض لینے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے، پاکستان کی حقیقی شرح سود یعنی پالیسی ریٹ مائنس افراط زر اس وقت 9.9 فیصد ہے۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ پڑوسی ممالک بھارت، چین اور بنگلا دیش میں حقیقی شرح سود بالترتیب 3.0 فیصد، 2.9 فیصد اور مائنس 3.2 فیصد ہے لہٰذا پالیسی ریٹ میں کمی یقینی طور پر پاکستان کی علاقائی مسابقت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی، پالیسی ریٹ میں 1فیصد کمی سے تقریباً 467ارب روپے کے قرضوں کی فراہمی کے اخراجات کی بچت ہو سکتی ہے، پالیسی ریٹ میں 1فیصد کمی سے خاطر خواہ مالی ریلیف ملے گا، حکومت پر مالی بوجھ کم ہوگا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔