اضافی بجلی بل ‘حقائق کیا ہیں

محمد سعید آرائیں  جمعرات 5 ستمبر 2024
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

توانائی کے وزیر مملکت علی پرویز کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز کی گردن کاٹنا بھی چاہیں تو بجلی کا ٹیرف کنٹرول نہیں کرسکتے۔ آئی پی پیز سے متعلق جس نے غلط پالیسی بنائی تھی اسے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ خساروں پر قابو نہیں پائیں گے تو عوام پر مزید بوجھ ڈالنا پڑے گا۔

سابق نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ بجلی کی لاگت نو روپے یونٹ ہے تو بل 80 روپے یونٹ کے حساب سے کیوں آ رہے ہیں؟ ہمارا مسئلہ بدانتظامی کے علاوہ کیپسٹی چارجز کی ادائیگی بھی ہے۔ جولائی میں بجلی کی پیداوار بیس ہزار میگاواٹ تھی۔ اس میں 36 فی صد یا سات ہزار میگاواٹ ہائیڈل ذرایع سے حاصل ہوئی۔ ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی اور کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ نواز شریف پنجاب کے نہیں ملک کے قومی لیڈر ہیں جن کی پریس کانفرنس نے احساس محرومی بڑھایا ہے۔

اگر سندھ حکومت کو کوئی احساس ہوتا تو ہمیں کیا ضرورت تھی کہ الیکشن سے قبل لاہور جا کر مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرتے۔ وزیر اعظم خدارا کراچی پر رحم کریں اور ملک کو سب سے زیادہ کما کر دینے والے کراچی کا بھی خیال رکھیں۔ جے یو آئی کے مرکزی رہنما حافظ حماد اللہ نے سوال کیا ہے کہ بجلی بلوں میں ریلیف صرف ایک صوبے کو کیوں؟ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ صدر آصف زرداری وفاق کے نمایندے ہیں، پنجاب میں بجلی کی قیمت کم ہو سکتی ہے تو سندھ میں کیوں نہیں ہوسکتی؟ کراچی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بجلی ملک بھر سے مہنگی ہے جس کی وجہ سے مقامی صنعتیں بہت بری طرح متاثر اور بیرون ملک منتقل ہو رہی ہیں۔

پنجاب میں بجلی 14 روپے سستی ہونے کا ملک بھر میں ذکر اور خیر مقدم ہو رہا ہے مگر وزیر اعظم شہباز شریف نے ابھی تک بجلی ملک بھر کے لیے سستی نہیں کی مگر بجلی سستی کا کریڈٹ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم لے رہی ہے اور بجلی کے مہنگے اور اضافی بلوں کا قومی مسئلہ صوبائی بنا دیا گیا ہے اور صرف پنجاب حکومت کی طرف سے دو ماہ کے لیے بجلی سستی کیے جانے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کا بجلی سستی کرنے کا اعلان خوش آیند تو ہے مگر وزیر اعظم ملک بھر کے لیے ریلیف کیوں نہیں دیتے؟ وزیر اعظم نے بجلی میں رعایت دینے کی خوشخبری تو دی ہے مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف ہمیں عوام کو ریلیف دینے نہیں دے رہا حکومت بے بس ہے۔

پنجاب میں دو ماہ کے لیے ریلیف دینے پر آئی ایم ایف اگر اعتراض نہیں کر رہا یہ اعتراض صرف وفاق پر ہے تو باقی تین صوبے بھی چاہیں تو اپنے اپنے عوام کو ریلیف دے سکتے ہیں مگر نیت اگر ایسا کرنے کی ہو تو وہ بھی پنجاب کی طرح عوام کو ریلیف دینے کا کوئی راستہ نکال سکتے ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ سندھ، کے پی اور بلوچستان کی حکومتیں اپنے اخراجات میں کمی کریں۔وفاق کی مدد سے آزاد کشمیر کی حکومت اپنے عوام کو جو بجلی میں ریلیف دے رہی ہے اس پر تو آئی ایم ایف کا اعتراض سامنے نہیں آیا جس سے لگتا ہے کہ وفاقی حکومت عوام کو عارضی ریلیف بھی دینا نہیں چاہتی بلکہ وہ آئی پی پیز کو ریلیف دینے کے لیے کہنا بھی نہیں چاہ رہی اور وزیر مملکت توانائی نے کہہ دیا ہے کہ ہم ان کے گلے بھی کاٹنا چاہیں تو بھی ٹیرف کنٹرول نہیں کرسکتے۔ وزیر مملکت کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی پی پیز کی پالیسی بنانے والوں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔

یہ بیان صرف سیاسی ہے کیونکہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرنے والوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی جماعتیں خود شامل تھیں۔ اب پی پی اور (ن) لیگ کی حکومت ہے وہ آئی پی پیز کو چھیڑنا ہی نہیں چاہتی کیونکہ آئی پی پیز میں وزیر اعظم کے صاحبزادے، صدر مملکت کی کمپنیاں اور حکمران جماعتوں کے رہنما اور حامی بھی شامل ہیں اور حکومت صرف بیان بازی کر رہی ہے اور چالیس آئی پی پیز کے مفاد کو 25 کروڑ عوام پر ترجیح دے رہی ہے جن سے انھیں آیندہ ووٹ بھی لینے ہیں۔بجلی مہنگی ہونے میں آئی پی پیز تو شامل ہیں ہی مگر بجلی کے مہنگے نرخوں سے زیادہ مسئلہ اضافی بلوں کا ہے جس پر حکومت توجہ دے ہی نہیں رہی ۔ سابق وزیر گوہر اعجاز اب یہ مسئلہ اعلیٰ عدلیہ میں لے گئے ہیں جس پر سماعت ابھی ہونی ہے۔

آئی ایم ایف حکومت کو بجلی سستی کرنے پر تو اعتراض کر رہا ہے اور بجلی مزید مہنگی کرانا چاہتا ہے مگر آئی ایم ایف نے حکومت کو اضافی بلوں کی تحقیقات اور بجلی کی صورت حال پر حقائق آشکار کرنے سے تو نہیں روکا، آئی ایم ایف یہ نہیں کہہ رہا کہ خساروں پر کنٹرول نہ کرو۔بجلی کے سلسلے میں خسارے حکومت نے کنٹرول کرنے ہیں مگر بجلی چوری اور خسارے پر حکومت خود کنٹرول کرنا ہی نہیں چاہتی کیونکہ سرکاری محکمے اور دفاتر بجلی کا بے تحاشا اور غیر ضروری استعمال کرتے ہیں مگر بل ادا نہیں کرتے اور سب سے زیادہ یہی مقروض ہیں کیونکہ ان کی ترجیح یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی اس لیے نہیں ہے کہ انھیں یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی پر معمولی کمیشن بھی نہیں ملتا اور باقی تمام بل ادا کرنے پر انھیں مقررہ کمیشن ملتا ہے جو افسروں کی جیب میں جاتا ہے جس میں متعلقہ افسران ملوث ہیں۔

ایک دو کمروں کے مکانوں کو ہزاروں روپے کے بل کیوں آ رہے ہیں؟ جہاں کے مکین اے سی اور ریفریجریٹر رکھنے کے بھی متحمل نہیں وہاں سروے کیوں نہیں کرائے جاتے کہ اضافی بلوں کے حقائق سامنے آسکیں۔کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس نے تو تحریری شکایات وصول کرنا بند کر رکھی ہیں۔ حکومت اگر عوام سے مخلص ہے تو غریبوں کو یہی ریلیف دے دے اور تحقیقات کرائے کہ کم بجلی کے استعمال پر ہزاروں روپے کے بل کیوں آ رہے ہیں کہ جن کے باعث نوبت گھروں میں جھگڑوں اور خودکشیوں تک پہنچ گئی ہے۔ دو تین ہزار کے بل سو فی صد اضافے کے ساتھ ہزاروں روپے آنے کی وجوہات کیا ہیں؟ میٹروں کی ریڈنگ اور محدود استعمال کے باوجود اضافی بل بھیجے جا رہے ہیں جن کی کہیں شنوائی ہے ہی نہیں اور متعلقہ ادارے بجلی درست نہیں کرتے اور ادائیگی پر یا آیندہ ماہ قسطیں کرانے کا کہتے ہیں جن سے انھیں بطور جرمانہ زیادہ رقم وصول ہو رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔