یومِ تحفّظ ختم نبوت ﷺ

مولانا مجیب الرحمن انقلابی  جمعـء 6 ستمبر 2024
 فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

سات ستمبر ہماری تاریخ کا وہ روشن اور تاریخ ساز دن ہے جب ہزاروں مسلمانوں نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے طویل جدوجہد کے بعد پارلیمینٹ سے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے میں کام یابی حاصل کی۔

عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمے داری، اس کے ایمان کا تقاضا اور آخرت میں شفاعتِ رسول ﷺ کا ذریعہ ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا وہ بنیادی اور اہم عقیدہ ہے جس پر پورے دین کا انحصار ہے، اگر یہ عقیدہ محفوظ ہے تو پورا دین محفوظ ہے، اگر یہ عقیدہ محفوظ نہیں تو دین محفوظ نہیں۔ قرآن کریم میں ایک سو سے زاید آیات اور ذخیرہ احادیث میں دو سو سے زاید احادیث نبویؐ اس عقیدے کا اثبات کر رہی ہیں۔

جن میں پوری تفصیل سے ختم نبوت کے ہر پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے بل کہ امام اعظم امام ابوحنیفہؒ کا تو یہ فتویٰ ہے کہ حضور خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا یا معجزہ مانگنا بھی کفر ہے۔ اس سے عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جو عظیم قربانی دی وہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور جمیع صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی نظر میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جو اہمیت تھی اس کا اس بات سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدعی نبوت مسیلمہ کذاب سے جو معرکہ ہُوا اس میں بائیس ہزار مرتدین قتل ہوئے اور 1200کے قریب صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے جام شہادت نوش فرمایا جس میں600 کے قریب تو حفاظ اور قراء تھے حتیٰ کہ اس معرکے میں بدری صحابہ کرامؓ کی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کردیا مگر اس عقیدہ پر آنچ نہیں آنے دی۔

حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں دین اسلام کے لیے شہید ہونے والے مردوں‘ عورتوں‘ بچوں و بوڑھوں اور نوجوانوں کی تعداد 259 ہے اور اس دوران قتل ہونے والے کفار کی کل تعداد 759 ہے جو کہ کل تعداد 1018 بنتی ہے۔ جب کہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے لڑی جانے والی صرف ایک جنگ میں شہداء و مقتولین کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

انیسویں صدی کے آخر میں بے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ ایک خود ساختہ نبوت قادیانیت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جس کی تمام تر وفاداریاں انگریز طاغوت کے لیے وقف تھیں، انگریز کو بھی ایسے ہی خاردار خود کاشتہ پودے کی ضرورت تھی جس میں الجھ کر مسلمانوں کا دامن اتحاد تار تار ہوجائے اس لیے انگریزوں نے اس خود کاشتہ پودے کی خوب آب یاری کی۔

اس فرقے کے مفادات کی حفاظت بھی انگریزی حکومت سے وابستہ تھے۔ اس لیے اس نے تاج برطانیہ کی بھرپور انداز میں حمایت کی، ملکہ برطانیہ کو خوشامدی خطوط لکھے، حکومت برطانیہ کے عوام میں راہ ہم وار کرنے کے لیے حرمت جہاد کا فتویٰ دیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علمائے کرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلے میں میدان عمل میں نکلے۔ امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ اپنے شاگردوں سے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور ردِ قادیانیت کے لیے کام کرنے کا عہد لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’جو شخص قیامت کے دن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دامن شفاعت سے وابستہ ہونا چاہتا ہے وہ قادیانیت سے ناموس رسالت کو بچائے۔‘‘

امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒنے تحریک آزادی کے بعد عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور قید و بند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پورے ملک میں بڑھاپے اور بیماری کے باوجود جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کر کے نسل نو کے ایمان کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا۔

دنیا و آخرت میں سرخ رو ہونے کے لیے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، نسل نو کے ایمان کی حفاظت کے لیے ہر ایک مسلمان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔