- کالج طالبہ کے ساتھ زیادتی سے متعلق مبینہ من گھڑت ویڈیو کیخلاف مقدمہ درج
- کراچی میں آج سے سمندری ہوائیں بحال ہونے کا امکان
- کامران غلام کو سابق انگلش کپتان نے اسٹیو اسمتھ سے تشبیہ دیدی
- پانی کی ٹنکی سر پر گرنے کے باوجود خاتون زندہ بچ گئیں
- شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس؛ اسلام آباد میں سیکورٹی مزید سخت
- دوسرا ٹیسٹ؛ پاکستان نے انگلینڈ کیخلاف 8 وکٹیں گنوادیں
- اجے جڈیجا نے کوہلی کو دولت میں پیچھے چھوڑ دیا
- بھارت میں دسہرہ کے موقع پر ہاتھی بپھر گیا، ویڈیو وائرل
- بجلی بل میں میونسپل ٹیکس وصولی کیخلاف درخواست پر فریقین سے جواب طلب
- اے این ایف کا تعلیمی اداروں میں منشیات فروخت کرنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن
- پائیدار ترقی کیلیے علاقائی تعاون اور روابط کا فروغ ضروری ہے، شہباز شریف کا ایس سی او کانفرنس سے خطاب
- کراچی؛ ٹریفک حادثے میں باپ شیرخوار بیٹے سمیت جاں بحق، اہلیہ شدید زخمی
- این ایل سی کا علاقائی تعاون میں اہم کردار، پاکستانی زرعی برآمدات میں اضافہ
- خوابوں کا اشتراک ممکن ہے؟
- جلاؤ گھیراؤ کیس؛ پی ٹی آئی کے 2 رہنماؤں کی عبوری ضمانت میں توسیع
- اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، انڈیکس ایک بار پھر 86 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور کرگیا
- گروپ راؤنڈ سے باہر ہونے پر بھارتی ٹیم میں اُکھاڑ پچھاڑ کی تیاری
- بابراعظم بھی کامران غلام کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے
- بھارتی عدالت کا انتہائی متنازع فیصلہ؛ مسجد میں ہندو مذہبی نعرے لگانا جائز قرار
- ذیا بیطس کی دوا پروسٹیٹ کینسر کے مضر اثرات کو زائل کر سکتی ہے، تحقیق
کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی کوشش جنگ ستمبر کا باعث بنی
انسانی رویے کی دو صورتوں کے تقابل میں دو اصطلاحوں کا ذکر ملتا ہے جو انسان سے سرزد ہونے والی غلطیوں سے متعلق ہیں۔ پہلی ہے Error of Judgement اور دوسری کو Personality flaw کا نام دیا جاتا ہے۔
Error of Judgement کسی صورتحال کو درست انداز میں سمجھنے میں ناکامی کے نتیجے میں سامنے آنے والی غلطی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عموماً ایک صورتحال میں ایک ہی مرتبہ وقوع پذیر ہوتی ہے اور انسان اس تجربے سے سیکھ کر آئندہ ایسی یا اس سے ملتی جلتی صورتحال میں مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ دوسری طرف Personality flaw کے نتیجے میں سرزد ہونے والی غلطی ہے، تو اس کی تعریف یہ ہے کہ اگر کسی کی شخصیت میں کوئی مخصوص کمزوری یا کج ہے تو جتنی مرتبہ کوئی مخصوص صورتحال پیدا ہوگی وہ شخص اتنی ہی مرتبہ اس غلطی کو دہراتا چلا جائے گا۔ ی
عنی شخصیت کی خامی یا کمزوری اسے ہمیشہ ایک ہی طرح کے ردعمل کی طرف دھکیل دے گی۔ خواہ اس کے نتائج کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں۔ یہ انسانی رویئے بعض اوقات ریاستی سطح پر بھی ظاہر ہوتے ہیں اور ویسے ہی نتائج پیدا کرتے ہیں جیسے کسی فرد کے انفرادی رویئے کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے رویے کا تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیں تو ریاستی سطح پر یہ ملک بھی Personality flawکے عارضے کا شکار ہے۔ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور مقتدر اشرافیہ ایک بے بنیاد خبط عظمت میں مبتلا ہے جس کو راسخ کرنے میں بھارت کے مغربی دوستوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
بدترین معاشی حالات اور خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی شاید سب سے بڑی تعداد رکھنے والا یہ ملک اپنے رویے میں کسی سپر پاور جیسا انداز اختیار کیے رکھتا ہے۔ اس کا تقاضہ ہے کہ خطے کے تمام ممالک اس کے مطیع اور فرمانبردار بن کر رہیں۔
کچھ عرصہ تک تو پاکستان کے سوا باقی چھوٹے ملکوں پر اس کی دھونس دھمکی چلتی رہی لیکن اب صورتحال ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوگئی ہے اور بھارت اس خطے میں بدترین تنہائی کا شکار بن کر رہ گیا ہے۔ تازہ ترین تبدیلی یہ رونما ہوئی ہے کہ بنگلہ دیش نے، جس کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ یہ دیش ہمارے یودھاوں کی قربانیوں کے نتیجے میں آزاد ہوا ہے اور اس کے لئے ہم نے اپنا رَت (لہو) بہایا ہے، بھارتی غلامی کا طوق گلے سے اُتار پھینکا ہے۔
پہلے بنگلہ دیش کو اپنے معمولی فیصلے بھی بھارت سے پوچھ کر کرنا ہوتے تھے لیکن اب خطے میں بھارت کے لئے ایک نیا چیلنج سامنے آ چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خطے کی تاریخ میں بھارت وہ واحد ملک ہے جو ہمیشہ سے ہمسائیہ ملکوں کے لئے مسائل پیدا کرتا رہا ہے اور تاثر یہ دیتا ہے کہ چھوٹے ملک مسائل پیدا کرتے ہیں۔ دوسری طرف عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کو اس بات کا پورا موقع فراہم کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت کو اپنی سہولت کے مطابق تبدیل کر لے۔ اب حال یہ ہو چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے فلسطین کی طرز پر ہندووں کی آباد کاری دھڑا دھڑ جاری ہے۔
جنگ ستمبر 1965ء کے بارے میں بھی بھارت اور اس کے ہم نواؤں نے یہ تاثر قائم کر رکھا ہے کہ پاکستان اس جنگ کو شروع کرنے کا ذمہ دار تھا حالانکہ اصل حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں ہم اس حوالے سے تاریخ کے چند اہم حقائق سے پردہ اُٹھا رہے ہیں۔
جب پاکستان نے چین کے ساتھ منسلک کشمیر کی سرحد پر تنازع کو طے کر لیا اور اس کے تحت کچھ علاقے چین کے حوالے کردیئے اور ساتھ ہی 1963ء میں کشمیر پر بھارت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوگئے تو اس صورتحال نے بھارت کو شدید بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا اور بھارت میں مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کو جلد از جلد قانونی سہارا فراہم کرنے کی خواہش زور پکڑگئی۔ بھارتی قیادت کو اس بات کی بڑی عجلت تھی کہ کسی نہ کسی طرح کشمیر بھارتی یونین کے حلقہ میں سما جائے۔
4 اکتوبر 1963ء کو کشمیر کے وزیراعظم کی حیثیت سے بخشی غلام محمد نے ریاست کشمیر کے بھارتی وفاق میں انضمام کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے پالیسی اقدامات کی تفصیلات کا اعلان کیا۔ اس کے ردعمل میں پاکستان کا احتجاج فطری تھا۔ حالانکہ ان اقدامات کو بھارتی قانون ساز اسمبلی نے منظور نہیں کیا تھا، پھر بھی بھارت کے وزیر داخلہ گلزاری لال نندا نے 27 نومبر کو پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ کشمیر کو مکمل طور پر بھارت میں ضم کر لیا گیا ہے۔ وزیراعظم نہرو نے بھی پارلیمنٹ کو بتایا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت مستقل نہیں اور اسے رفتہ رفتہ ختم کر دیا جائے گا۔
1964ء کے آغاز میں پاکستان نے ان اعلانات کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک اور ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کو لکھے جانے والے سرکاری خط میں کہا گیا تھا کہ بھارت جان بوجھ کر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کے اقدامات کے ذریعے سلامتی کونسل کو دھوکہ دینے کی راہ پر گامزن ہے۔
بعد ازاں اس معاملے پر ہونے والی بحث کے موقع پر بھارتی مندوب ماہو میدالی کورم چھاگلہ نے جواب دیتے ہوئے پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے دیا اور اس دن سے لے کر آج تک بھارت اسی مؤقف پر اڑا ہوا ہے۔ چھاگلہ نے کہا کہ جموں و کشمیر اسی دن بھارت کا اٹوٹ انگ بن گیا تھا جس دن الحاق کی دستاویز پر دستخط ہوئے اور بھارت نے اسے قبول کرلیا تھا۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کا سوال پیدا نہیں ہوتا کہ جو چیز پہلے ہی ضم ہوچکی ہو اس کا مزید انضمام کیا جائے۔ آپ اُس چیز کو مزید مکمل نہیں کرسکتے جو پہلے ہی مکمل ہوچکی ہو۔
مزید براں بھارت کے وزیر داخلہ گلزاری لال نندا نے جو ایک کٹر ہندو بنیاد پرست تھے، 4 ستمبر 1964ء کو لوک سبھا (قومی اسمبلی) کو بتایا کہ نئے قانونی اقدامات 1950ء کے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کو دی جانے والی خصوصی حیثیت کو بے اثر کردیں گے۔ ان اقدامات کے ذریعے بھارت نے آئین کی ان دو آرٹیکلز کو مؤثر بنادیا جو پہلے ناقابل اطلاق تھیں۔ ان میں سے پہلی آرٹیکل 356 تھی جس کے تحت کشمیر میں صدر راج نافذ کیا جا سکتا تھا۔ یہ آرٹیکل پہلے مقبوضہ کشمیر پر نافذ العمل نہیں تھی۔
دوسری آرٹیکل 357 تھی جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کے دو سب اہم عہدے چیف آف اسٹیٹ اور پرائم منسٹر کا خاتمہ کرکے ان کی جگہ باقی صوبوں کی طرح گورنر اور وزیراعلیٰ کے عہدے رائج کر دیئے گئے۔ بھارت کی یہ جارحانہ پیش قدمی پاکستان کی طرف سے انتہائی شدید ردعمل کی متقاضی تھی لیکن اس کے باوجود پاکستان کی طرف سے یہی کوشش کی جاتی رہی کہ اقوام متحدہ کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈال کر مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت کو بدلنے کی کوشش کی مزاحمت کی جائے۔ لیکن بدقسمتی سے دنیا کی بڑی قوتیں بالخصوص سوویت یونین اقوام متحدہ میں بھارت کے ساتھ کھڑا رہا اور عالمی سطح پر بھارت کو ان ارادوں سے باز رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی۔
اقوام متحدہ کے اس غیر سنجیدہ رویے نے یہ واضح کردیا تھا کہ عالمی ادارے سے مایوس ہوکر پاکستان کو کشمیری عوام کے حقوق کے لئے خود میدان عمل میں آنا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے یے آپریشن جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلام دنیا کی اس غیر سنجیدگی کے نتیجے میں کرنا پڑے اور اس تصادم نے پھیل کر 1965ء کی جنگ کی صورت اختیار کر لی۔ آج ایک مرتبہ پھر اسی طرح کی صورتحال درپیش ہے کہ بھارت نے اپنے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے ذریعے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ پاکستان کے لیے ایسا ممکن نہیں کہ وہ کشمیر کے عوام کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ اگر دنیا مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی آواز سننے کے لیے تیار نہیں تو پاکستان کیسے ایسی بے حسی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔
یہ بھارتی رویہ اندازے کی وقتی غلطی نہیں بلکہ Personality flawہے۔ بھارت ریاستی سطح پر وہی غلطی بار بار دہرا رہا ہے جس کے نتیجے میں پہلے بھی کئی تصادم جنم لے چکے ہیں۔ پاکستان کی تمام تر کوشش اس بات پر مرکوز رہنی چاہیے کہ اس مرتبہ اگر نوبت تصادم کی آجائے تو یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آخری تصادم ہو۔
(اس مضمون کی تیاری میں ممتاز عسکری محقق Russell Brines کی کتاب Indo-Pakistan Conflictسے استفادہ کیا گیا ہے)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔