نامورافسانہ نگارو دانشوراشفاق احمد کو پرستاروں سے بچھڑے20 برس بیت گئے

ان کے بعد قوم کو ایسا داستان گو نصیب نہیں ہو سکا جو اپنے قصے، کہانیوں سے علم و حکمت اور عقل و دانش کے موتی بکھیرسکے


ویب ڈیسک September 07, 2024
فوٹو: فائل

نامور افسانہ نگار،فلسفی، ادیب،استاد اور دانشور اشفاق احمد کو اپنے لاکھوں پرستاروں سے جدا ہوئے 20 برس بیت گئے۔

اردو ادب کے حوالے سے جب بھی بات ہوگی تو نامور ادیب اشفاق احمد کا نام سب سے اوپر آئے گا۔ان کی سحر خیز گفتگو سامعین کو مٹھی میں بند کر لیتی تھی۔

اشفاق احمد 22اگست 1925کو ہندوستان کے صوبے اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد ہجرت کرکے لاہورآ گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد اٹلی،فرانس اور نیویارک کی یونیورسٹیوں سے بھی اعلی تعلیم حاصل کی۔

اشفاق احمدنے اپنے افسانے گڈریا سے غیر معمولی شہرت حاصل کی،اس کے علاوہ بے شمار ٹی وی ڈرامے بھی لکھے جن میں ایک محبت سو افسانے، منچلے کا سودا،طوطا کہانی، اچے برج لاہور دے، زاویہ ، قابل ذکر ہیں۔

انہوں نے 1965 میں ریڈیو پاکستان سے فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے شروع کیا جو تین دہائیوں تک عوام میں بے حد مقبول رہا۔

اشفاق احمد نے جہاں صوفی اور دانا کی حثیت سے خاصی شہرت پائی وہیں ان کی نصیحتوں اور حکایتوں نے انہیں ہر خاص وعام میں مقبول بنا دیا۔ادبی خدمات کے اعتراف میں اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اورستارہ امتیازسے بھی نوازا گیا۔

دو عشرے گزر جانے کے باوجود قوم کو ایسا داستان گو نصیب نہیں ہو سکا جو اپنے قصے کہانیوں سے علم و حکمت اور عقل و دانش کے موتی بکھیرسکے۔

اشفاق احمد سات ستمبر 2004 ءکو اس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن ان کے جلائے ہوئے ادب کے دیے ہمیشہ روشنی بکھیرتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔